ColumnImtiaz Aasi

قانون کی حکمرانی سے نابلد سیاست دان .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

آخر ہماری بات سچ ثابت ہوئی حکومت اور اپوزیشن الیکشن کی تاریخ پر متفق نہیں ہو سکے اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے۔ جو سیاست دان آئین پر اتفاق رائے نہ کر سکیں ان سے عوام کو کیا توقعات ہو سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے آئین اور قانون پر عمل نہ کرنے کی ٹھان می رکھی ہے۔ چلیں سیاسی جماعتوں میں آئین کی عمل داری پر اتفاق نہیں ہو سکا کم از کم ذاتی مفادات کے لئے تو یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ اپنے حکم پر قائم ہے حکومت کو سمجھ نہیں آرہا عدالت عظمیٰ اپنا حکم کیسے واپس لے سکتی ہے۔ تعجب ہے وہ سیاست دان جو خوف کے مارے سپریم کورٹ کے نام سے لرزتے تھے وہ جج صاحبان کو للکار رہے ہیں۔ سوال ہے سیاسی جماعتوں کی ان حرکات کا دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔ جس ملک کے سیاست دان عدالت عظمیٰ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں ان سے آئین اور قانون کی حکمرانی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جناب چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تو وزیردفاع عدلیہ سے گزرے وقتوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی تاریخ عدلیہ کی بے توقیری سے عبارت تھی حکومت نے آئین سے روگردانی کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ دراصل نون لیگ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا ہے لیگی وزراء اور مریم نواز بڑی ڈھٹائی سے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں عدلیہ کو للکارتے ہیں۔ شائد انہیں بھول ہے ان کے اس طرز عمل کا عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ نون لیگ کو باہر سے دشمنوں کی ضرور ت نہیں اپنے گھر کے دشمن اس کے لئے کافی ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے بعد جو صاحب اس منصب پر آئیں گے کیا وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کریں گے؟ لیگیوں نے جسٹس فائز عیسیٰ سے غیر ضروری توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ آئین اور عدلیہ پر ملک کی بنیادیں کھڑی ہیں، جانے وہ کون سے مقاصد ہیں جن کے لئے لیگی وزراء عدلیہ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ کبھی ثاقب نثار اور کبھی سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان پر بے جا تنقید سے کیا مقصود ہے۔ جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ مریم نواز اپنے خطاب میں کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں جب تک نواز شریف کی نااہلی ختم نہیں ہوتی انتخابات نہیں ہوں گے۔ نواز شریف کو وطن آنے سے کس نے روکا ہے ان کے بھائی وزیراعظم ہیں انہیں کس بات کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ اب تو ادارے اور حکومت ایک ہیں پھر انہیں کس بات کا ڈر ہے۔ سپریم کورٹ کی قوانین میں من پسند ترامیم سے عدلیہ کے پر کاٹنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ درحقیقت شریف خاندان اور ان کے حواریوں نے طے کر لیا ہے اقتدار میں رہتے ہوئے جو چاہیں کریں انہیں کوئی پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ ملک اور قوم کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے جو کھلواڑ بنا رکھا ہے اس کے نقصانات کا آنے والے وقت میں پتہ چل جائے گا۔ چیف جسٹس نے درست کہا ہے سیاست دان انصاف نہیں مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں۔ عمران خان نے کرپشن کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف عوام کو باشعور کر دیا ہے عوام اب بیدار ہو چکے ہیں۔ ملک میں انتخابات اور انقلاب دونوں کا ماحول پیدا ہو چکا ہے جس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے تبھی تو اس کے خلاف سو سے زیادہ مقدمات قائم کر دیئے ہیں۔ عمران خان کو الیکشن کمیشن پر اعتبار نہیں عوام ملک لوٹنے والوں کو ووٹ نہیں دیں گے تو الیکشن کمیشن کیا کر لئے گا۔ بھٹو دور میں ہم نے ایک ایم این اے کو اپنی آنکھوں سے جعلی ووٹ ڈالتے دیکھا پھر چشم فلک نے دیکھا دھاندلی کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے اداروں کی وابستگی ملک کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ کسی سیاسی جماعت سے لہذا ادارے ملک پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتے۔ کرپشن کرنے والوں کو ایک روز حساب دنیا ہوگا۔ عوام کرپٹ سیاست دانوں کا محاسبہ کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے عوامی سیلاب ہر شے بہا کر لے جائے گا لہذا اس وقت سے بچنے کے لئے آئین اور قانون پر چلنے میں ہی سب کی بقاء ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں پس رہے ہیں اور سیاست دانوں کو اپنی حکمرانی جانے کا خوف مارے جا رہا ہے۔ اقتدار تو ہمیشہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں آئین اور قانون کی پامالی کی گئی تو کچھ نہیں رہے گا سیاست دان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ عمران خان نے قوم کو انقلاب کے لئے تیار کر لیا ہے خصوصا نوجوان نسل اس کی آواز پر لبیک کہتی ہے عمران خان نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی بجائے من پسند ترامیم لا رہی ہے جس کا مقصد حکومتی اقدامات پر چیک اینڈ بیلنس کا خاتمہ ہے۔ حکومت اور اس کی اتحادیوں نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے عدالت عظمیٰ پر ذمہ داریوں کو بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت عوام کی نظریں عدالت عظمیٰ پر ہیں۔ آخر سپریم کورٹ سے سو موٹو کیس کا فیصلہ ایک روز آنا ہے۔ اس سے پہلے کوئی نیا حکم آجائے سیاست دانوں کو ذاتی مفاد کے خول سے نکل کر ملک و قوم کے مفاد کی خاطر آئین پر عمل کرنے کو یقینی بنانا چاہیے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہ کرکے عدالتی نظام کو تہس نہس کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کو آئین نے دیا ہے ۔ یہ اختیار بھی ختم ہو گیا تو عوام سے آئے روز ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا لہذا حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے عوام عشروں سے حکمرانی کرنے والے سیاست دانوں سے عاجز آچکے ہیں جو تبدیلی چاہتے ہیں خواہ وہ ووٹ کی طاقت یا پھر انقلاب کی صورت میں آئے۔ آئین اور قانون سے نابلد سیاست دانوں کو آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ آنے والے چند دن میں عدالت عظمیٰ کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد معاملات ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button