ColumnTajamul Hussain Hashmi

اپنی اپنی انا کے اسیر .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئین اگر کہتا ہے الیکشن 90دن میں ہوں تو یہ ہماری چوائس نہیں ڈیوٹی ہے، اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، آئین کے ساتھ کھڑے ہیں تو سپریم کورٹ کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہ کا کہنا تھا کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کر سکتیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کو انصاف فراہم کرنا ہے تو ان میں جسٹس کارنیلیئس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں، جسٹس کارنیلئس کی زندگی دیگر ججز کیلئے مثال ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس کارنیلیئس 1960سے 1968تک چیف جسٹس رہے۔ جسٹس کارنیلیئس جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا، جسٹس کارنیلیئس کی زندگی ججز کے لیے مثال ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس کارنیلیئس نے کہا ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتے، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 1964 میں دو صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹ ادی گئی ، جسٹس کارنیلیئس نے کہا یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے ، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے ، تین دہائیوں کے دوران انتہا پسندی کے باعث بے شمار جانیں گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ دنیا بھر میں ایسے فیصلے کو کمزور سمجھا جاتا ہے جس میں اصل مدعا کو بھول دیا جائے‘‘۔
جسٹس کارنیلیئس کے فیصلے عدلیہ میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے، سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کے بھی جسٹس کارنیلسن آئیڈیل تھے۔13مئی1960ء تا 29فروری 1968ء تک جناب چیف جسٹس رہے۔ یکم مارچ 1903ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ 21دسمبر1991ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ جناب نے 88سال کی عمر پائی۔ جسٹس اے آر کارنیلیئسں کا شمار ان ججز میں ہوتا تھا جن پر پاکستان کی عدالتی تاریخ اور قانون دان برادری فخر کرتی رہے گی، ان کا ایک واقعہ صحافی رئوف طاہر نے اپنے کالم میں بیان کیا جس واقعہ کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ بار کا لاہور میں سالانہ عشائیہ تھا فیلڈ مارشل ایوب خان بھی مدعو تھے، چیف جسٹس کارنیلیئس نے انتظامیہ سے کہ کر اپنی کرسی فیلڈ مارشل ایوب خان والی ڈائننگ ٹیبل سے الگ دوسری ٹیبل پر لگاوا لی تھی، سوچ تھی کہ عدلیہ کی غیر جانبداری کے حوالے سے سوالات کو جنم دے سکتی تھی۔ ایوب خان کے دور میں ان کے چیف جسٹس بنانے والے معاملہ پر بھی کافی اعتراض وارد ہوا کہ عیسائی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی کے منصب پر کیسے فائز ہو سکتا ہے۔ وزارت قانون کے بھر پور دلائل کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے جناب کو چیف جسٹس بنا دیا۔ جناب کارنیلیئس نے تین ماہ پہلے ریٹائرمنٹ لے لی کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھی جناب ایس اے رحمان کو چند ماہ ملیں گے، اس لئے انہوں نے پہلے ریٹائرمنٹ لے لی تاکہ ان کے ساتھی کو زیادہ وقت ملے سکے۔ جناب کارنیلیئس نے اپنی ساری زندگی ایجرٹن روڈ لاہور اپنی اہلیہ کے ساتھ بسر کر دی، کیا موجودہ صورتحال میں جناب عطاء عمر بندیال، کارنیلیئس کی طرح اپنے فیصلوں سے تاریخی مقام حاصل کر لیں گے، جہاں ان کے بینچ پر سوالات ہیں اور سیاسی جماعتیں ایک طرف بل پاس کر رہی ہیں۔ لیکن حکومت کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے، یہ عوامی مفاد کا فیصلہ ہے اس میں کسی ایک فرد کی ذات کا تعلق نہیں، حکومت اتنی بضد کیوں ہے، حالات کو اس نہج تک کیوں لے گئی ہے ، کیا پنجاب حکومت میں اکثریت مسلم لیگ ن کی تھی یا موجودہ اتحادی جماعتوں کی تھی؟ یہ سب عوام با خوبی جانتے ہیں کہ پنجاب اور ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی سیٹیں سب سے زیادہ ہیں، پھر اس بات کا جھگڑا کیسا، جب وہاں اتحادی مل کر بھی حکومت بنانے میں ناکام رہے۔ حکومتی موقف اس نقطے پر کافی جان دار ہے کہ الیکشن پورے ملک میں ایک دن ہونے چاہئیں، اس میں ایک یونٹی نظر آتی ہے اور پاکستان جیسے ملک میں یہ یونٹی رہنی چاہئے۔ کیوں دشمنوں کی فہرست کافی لمبی ہے، مذاکرات میں بھی ایک دن فائنل ہونا تھا لیکن سیاست دانوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی انا کے اسیر ہیں ، انہیں اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں، روزانہ کی بنیاد پر سیاسی تاجر برداری کی لوٹ مار جاری ہے، طاقت وار اپنے مال کو ڈبل کرتا جا رہا ہے لیکن اتحادی حکومت بے فکر ہے، سندھ میں کئی دن سے فلور ملز ایسوسی ایشن ہڑتال پر ہیں، ملز مالکان کی حکومت سندھ پر بے انتہا شکایات اور خدشات ہیں، کسی کو کوئی فرق نہیں ہے، عوام کے سڑکوں پر آنے پر قانون حرکت میں آئے گا، اس سے پہلے قانون کیوں خاموش ہے، عوامی مفاد کے لیے سب علم بردار ہیں لیکن عمران خان میاں نواز شریف کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتا، جہاں جج بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے ، تاجر سبسڈی کو حق سمجھ بیٹھا ہے، سرکاری ملازمین خدمات نہیں کا احساس لئے بیٹھے ہیں، اداروں نے اپنے اپنے گیٹ بنا لیے ہیں، یہاں عوامی داد رسی ممکن نہیں رہی۔ ان حالات میں جناب کارنیلیئس جیسے فیصلوں کی ملک کی اشد ضرورت ہے۔ تاریخ انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو حق پر کھڑے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست دان اور جج ایک دوسرے کے رنگ میں رنگے جا رہے ہیں، ساتھ دینے کے لیے ادارے کھڑے ہیں، کیوں اداروں کو پہلے ہی کمزور اور سیاست زدہ کیا جا چکا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ بینچ فل کورٹ ہو یا 9جج لیکن یہ واضح رہے کہ الیکشن کروانے کا قانون 90دن ہی ہے، سیاست دانوں کو اسیری کا شکوہ رہتا ہے لیکن جب وقت آتا ہے تو فیصلے بھی اسیروں والے کر کے ثابت کرتے ہیں کہ ہم اسیر ہیں۔ خوف، سوچ اور اپنے اقتدار کے حصول کیلئے سب کر گزرتے ہیں، قوم کے ووٹ کی لاج ہوتی تو آج ملک میں یہ افراتفری نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button