CM RizwanColumn

جمہوریت اور آئین دونوں غرقاب .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

آج 26اپریل راقم الحروف کی شادی کی 33ویں سالگرہ ہے۔ ایک نوجوان سے ایک خاندان کے متشکل ہونے کی کہانی کی مرکزی ہیروئن راقم کی قابل فخر شریکہ حیات شمع رضوان ہیں جنہوں نے راقم کی اولاد کے تولد، پرورشِ اور تربیت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخ و شیریں، دھوپ، چھائوں میں کبھی بھی مایوسی، پریشانی اور تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ آج شادی خانہ ابادی کی سالگرہ پر محسوس ہو رہا ہے کہ کتاب زندگی کا اپنائیت، احساس اور محبت سے لبریز ایک اور سال شب و روز کا عمیق اور دلکش مطالعہ کرتے گزر گیا۔ ازدواجی زندگی کے اس پر بہار سفر کے ایک اور سنگ میل کو باہمی کامیابی اور تفاخر کے ساتھ عبور کرنے پر میں ان سطور کے ذریعے اپنے دکھ سکھ کی ساتھی شمع رضوان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ قارئین سے التماس ہے کہ راقم الحروف کی صحت و عافیت کے لئے دعا فرمائیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان جمہوریت سے دور اور آمریت کے قریب تر گیا جبکہ موجودہ حالات میں تو جمہوریت حقیقتاً خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ بے تحاشا مہنگائی سیاسی انتشار اور آئینی انارکی کا منطقی نتیجہ یقیناً سیاسی اور جمہوری قوتوں کی کمزوری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چند سال قبل کہا جاتا تھا کہ دنیا میں فوجی آمریت کا عہد ختم ہو چکا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ 2020اور 2021میں براعظم افریقہ کے چار ممالک چاڈ، مالی، گنی اور سوڈان میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر افواج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سوڈان میں تو اب بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے اور وہاں کی فوج کے اندر حکومت پر لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ فروری 2021ء میں جنوبی ایشیاء کے ملک میانمار ( برما) میں بھی فوج اقتدار پر قابض ہوئی اور اس وہم کا خاتمہ ہو گیا کہ اب دنیا میں فوجی یا آمرانہ حکومتیں نہیں بن سکتیں۔ ان تمام ممالک کی تاریخ اور حالات کی ایک ہی کہانی ہے۔ ان پانچوں ممالک میں بغاوتوں سے قبل عوام کی معاشی حالت بدترین تھی، بالکل ایسے ہی جس طرح اب پاکستان میں ہے۔ وہاں بھی بھوک ننگ کا راج تھا۔ ان ملکوں میں جو نام نہاد جمہوری حکومتیں قائم رہی تھیں وہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی حکومتیں تھیں جبکہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ عالمی طاقتوں کی طفیلی تھیں۔ یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ عوام کی حقیقی نمائندہ سیاسی جماعتیں اگر سودے بازی یا سیاسی تدبیر سے اقتدار میں آجائیں تو ان کا اقتدار کمزور ہوتا ہے۔ ایسی تمام جمہوری حکومتوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان حکومتوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کی معاشی پالیسیوں اور مشکل فیصلوں سے جو معاشی بحران پیدا ہوا، اس نے وہاں کی مقبول سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کر دیا اور سیاسی انتشار میں افواج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔ میانمار میں تو آنگ سان سوچی جیسی مقبول سیاسی رہنما کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور ساتھ ہی ان کے وزراء اور معاونین کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ مذکورہ بالا پانچ ممالک میں اقتدار پر قبضے کی کہانیاں پاکستان سے مختلف نہیں۔ پاکستان میں عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر اب تک جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر ان پانچ ملکوں میں آئی ایم ایف کے ذریعے جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو ہماری جمہوریت کو بھی ایسے خطرات سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اس عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لیتے وقت اپنے حال پر غور کر لیا جائے تاکہ حالات چاڈ، مالی، گنی، سوڈان اور میانمار جیسے پیدا نہ ہوں۔ آج بھی پاکستان کی سیاسی قوتوں کے پاس موقع ہے کہ وہ مہنگائی اور عوامی مسائل پر سمجھوتوں کے بغیر اپنی سیاسی حکمت عملی بنائیں۔ وہ اقتدار کے حصول کے لئے ڈیل اور سمجھوتوں کی سیاست ترک کریں۔ وہ نتائج کی پروا کئے بغیر عوام کا ساتھ دیں۔ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور ان کی سرپرست ملکی اور عالمی طاقتوں کے بنائے گئے سسٹم کے خلاف بغاوت کریں۔ اس کے لئے انہیں اس سسٹم کی رائج کرپشن سے باہر نکلنا ہو گا تاکہ وہ احتساب کی جکڑ بندیوں سے نکل کر اپنے فیصلے خود کر سکیں کیونکہ اس کرپشن کی چھوٹ بھی سسٹم کی دی ہوئی ہے جبکہ پاکستان کے عوام بے یارو مددگار ہو گئے ہیں۔ عوام کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو اپنے بوجھ اتار کر عوام کا ساتھ دینا ہو گا ورنہ سیاسی جماعتوں کی موجودہ روش کے تسلسل میں جمہوریت اور آئین کا دفاع ممکن نہیں رہے گا۔ اب آئین کی بات کر لیتے ہیں۔ یہ 12جنوری 2018کا واقعہ ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چار سینئر ججز نے ایک پریس کانفرنس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف انڈیا پر شدید تنقید کی، مرکزی نقطہ ایک ہی تھا کہ ’’ جونیئر ججوں پر مشتمل مرضی کے بنچ بنائے جاتے ہیں جو سیاسی نوعیت کے تمام اہم کیس سنتے ہیں‘‘۔ چیف جسٹس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج چیل میسور ان چار باغی ججوں کی سربراہی کر رہے تھے، جن کا کہنا تھا کہ انہیں یہ انتہائی قدم اس لئے اٹھانا پڑا کہ عدلیہ کو جس طریقے سے چلایا جا رہا ہے اس سے ہندوستان کی جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اب آتے ہیں پاکستان۔ یہ فروری 2021کی بات ہے، پاکستان کی سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ( اس وقت کے چیف جسٹس گلزار، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مشیر عالم) ایک حکم جاری کرتے ہیں جس کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ وہ کسی ایسے بنچ کا حصہ نہیں ہوں گے جو عمران خان سے متعلق کوئی کیس سن رہا ہو گا، اس وقت ایسا اس لئے کیا گیا تھا کہ کوئی عدالت پر جانبداری کا شبہ نہ کر سکے اور انصاف کا بول بالا ہو۔ حالانکہ عمران خان نے عدالت سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا، معزز عدالت نے اپنے تئیں انصاف کے وسیع تر اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر یہ مثالی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ اب بھی فل کورٹ کی درخواست کرنے والوں کے پیشِ نظر غالباً یہی اصول رہا ہو گا۔ اور پھر انصاف کا سب سے بڑا اصول بھی یہ کہتا ہے کہ جہاں جج کی زیر سماعت معاملات سے ذاتی، جذباتی اور مفاداتی جانبداری ظاہر ہو وہ کیس اسے سماعت کرنے کا حق نہیں اور اگر حالات و واقعات چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہوں کہ ججوں کی وابستگیاں ہیں تو اس صورت میں کیا ملک و قوم کی تقدیر لکھنے کے مترادف فیصلے اسی طرح ہی کرنے ہیں۔ بات حقائق کی ہے۔ سپریم کورٹ کے بہت سے ججز کے ناموں سے عوام یکسر ناواقف ہیں کیونکہ وہ آج تک کسی اہم بنچ پر متمکن نظر نہیں آئے کیا وجہ ہے۔ اصول کیا ہے۔ یہ سنیارٹی نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ یہ اصول سب کو معلوم ہو تاکہ حاسدین بار بار ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ ’’ آپ کی عدلیہ دنیا میں 130ویں نمبر پر بلا وجہ تو نہیں پھسل گئی‘‘۔ پچھلے دنوں تو ہمارے ایک جسٹس آف سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا، جس میں جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں لانے کی کوشش پر تنقید کی گئی، خط لکھنے والے جج صاحب سمجھتے ہیں کہ کسی اصول کے بغیر جب تیسرے چوتھے نمبر کے ججز کو عدالتِ عظمیٰ میں لایا جاتا ہے تو پھر کل کو یہی جج آپ کو ہر اہم کیس سنتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول یہی وہ شکنجہ ہے جس میں ہماری عدالتیں دہائیوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔ کیا ہم سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی بات کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں جسٹس فائز عیسیٰ ایک ایسے جج ہیں جنہوں نے اپنے بہت سے ساتھی ججوں کے برعکس آج تک کوئی جائز پلاٹ بھی حاصل نہیں کیا۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی کہانی میں چار مارشل لاز سے گزرتے ہوئے، مقبول لیڈرز کی پھانسیوں، عدالتی قتل، جلاوطنیوں، نااہلیوں اور غداریوں پر مبنی عدالتی فیصلوں کے تذکرے کئے جاتے ہیں۔ اس کہانی میں کوئی موڑ نہیں۔ لہٰذا ہماری تاریخ بھی ڈھلان کا سفر ہے، جوں جوں فاصلی سمٹ رہے ہیں ہم گرتے چلے جا رہے ہیں، تیزی سے، توڑ پھوڑ اور تباہی کے ساتھ۔ ایک اور سوال کہ کیا موجودہ آئینی و سیاسی بحران کا نقطہ آغاز عمران خان کی حکومت ختم کرنا تھا یا 2017ء میں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنا۔ یہ دونوں تواریخ ملک کو اس وقت دو شعوری دھڑوں میں منقسم کر چکی ہیں حالانکہ بات ایک ہی ہے۔ حیلہ گر بھی ایک ہی ہے۔ لیکن قوم کے کچھ لوگ ایک واقعے کو ضد بنا کر بیٹھے ہیں اور کچھ دوسرے کو۔ بحث جاری ہے مگر دلائل بے وقعت اور حقائق ناقابل تسلیم ہو چکے ہیں۔ اس بارے تو کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ مرکزی اور پنجاب حکومت کی مشکیں چند عدالتی فیصلوں نے روزِ اول سے ہی کس دی تھیں، آئین کی دفعہ تریسٹھ اے کی ایک ایسی تشریح کی گئی جسے قانونی ماہرین نے از سرِ نو آئین لکھنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ یعنی منحرفین کا ووٹ ہی نہیں گنا جائے گا ( آئین کے اس حصے کے خالق رضا ربانی ہمارے درمیان موجود ہیں، کوئی ان سے ہی پوچھ لیتا کہ آئین لکھنے والوں کی کیا منشا تھی) پھر اس کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، جس سے پنجاب حکومت مسلسل ڈولتی رہی، مرکزی حکومت کو تعیناتیوں سے روک دیا گیا اور وزیرِ اعظم کو آئے دن عدالتوں میں گھسیٹا گیا، ملک بے یقینی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، معیشت مزید تباہ ہوتی گئی اور عدالتیں آئینی اور سیاسی بکھیڑوں کو سلجھانے میں محو رہیں۔ حتیٰ کہ ہم یہاں آن پہنچے۔ دیر تو بہت ہو چکی ہے مگر اب بھی نیت صاف کر لی جائے تو رستہ نکل سکتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار بھٹو، بینظیر بھٹو سے نواز شریف تک سب کے لئے ایک ہی قانون ہو اور عمران خان کے لئے کوئی دوسرا قانون۔ آئین اور قانون سے پچھتر سالہ کھلواڑ کا انجام آج ہم بھوک سے بلکتے بچوں اور آٹے کے ایک تھیلے کے لئے دربدر بھٹکتی اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی صورت میں دیکھ تو رہے ہیں اور کیا دیکھنا ہے اگر یہ بھی کافی نہیں ہے تو پھر شاید ہم ایک آزاد ملک کے معزز شہری کہلوانے کے حقدار ہی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button