Ali HassanColumn

عدلیہ اور سیاست دانوں کا دبائو .. علی حسن

علی حسن

محلوں میں کسی بھی بات پر ناچاقی یا اختلاف کے موقع پر گھروں کے دروازوں پر خواتین کے درمیان تلخ کلامی ایک حد سے گزر جائے تو وہ گالم گلوچ پر آجاتی ہیں۔ بعض تو ایسی مغلظات اگلتی ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانا پڑتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال پاکستان کی سیاست کے ساتھ پیش ہے۔ غیر اخلاقی بیانات، بے بنیاد الزامات اور دھمکیاں تو تھیں ہی۔ وجہ صرف اپنی اپنی سیاسی پوزیشن برقرار رکھنا۔ ابھی تو معاملات عدالت میں زیر سماعت ہی ہیں۔ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات آئین میں دی گئی، جی ہاں آئین میں دی گئی مدت کے درمیان ہی کرانے ہیں یا کسی اور تاریخ پر۔ عدالت اپنے پہلے فیصلہ میں کہہ چکی ہے کہ انتخابات 14مئی کو کروا دئیے جائیں۔ وفاقی حکومت کو یہ منظور نہیں ہے۔ اسی لئے وہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لئے فنڈ جاری کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایک انہونی کھڑی کی جارہی ہے۔ ایک نظیر قائم کی جارہی ہے۔ آئین سے ہٹ کر کوئی اور تاریخ آئین کو تاریکی میں نہیں ڈال دے گی۔ عدالت اس گانٹھ کو کھول ہی رہی تھی کہ تشویش ناک حد تک حیران کن ایک معاملہ پیش آ گیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن محترمہ ماہ جبیں نون اور پنجاب کے اہم حیثیت کے حامل وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ محترمہ رافعہ طارق کے درمیان فون پر ہونے والی ریکارڈ شدہ آڈیو لیک کرا دی گئی۔ طارق رحیم پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ گفتگو میں دونوں خواتین رمضان کے دوران محفلوں کے بارے میں تو گفتگو نہیں کر رہی ہوں گی۔ یقینا وہ بھی ملک کے سیاسی حالات پر ہی تبصراتی گفتگو کر رہی ہوں گی جیسا لوگ، مرد و خواتین، عام طور پر کرتے رہتے ہیں۔ ملک کے اکثر گھروں میں بھی آج کل ملکی سیاست ہی موضوع گفتگو و بحث ہوتا ہے۔ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ایسی خواتین جن کا سیاست سے لینا دینا کچھ نہیں ہے لیکن ان کی گفتگو کو بھی خاص مقاصد کے لئے لیک کر دیا گیا۔ اول تو گفتگو کو ریکارڈ کرنا ہی معیوب ہے، دوم اس کا لیک ہونا کہیں زیادہ معیوب تصور کیا جائے گا۔ لیک ہوجانے والی گفتگو میں دونوں خواتین کے درمیان ہونے والی گفتگو کچھ اس طرح ہے۔ ماہ جبین نون کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ رات سے عمر کے لیے پڑھ پڑھ کے، میں تمہیں نہیں بتا سکتی، دعائیں مانگ رہی ہوں۔ رافعہ طارق کا کہنا ہے کہ یار لوگوں کو بھی کہا ہے اور عمر کو ایک میسج بھیجا میں نے، تم لاہور کے جلسے میں وہاں موجود تھیں، وہاں لاکھوں بندہ تھا، اسی طرح ہر شہر میں لاکھوں بندے ہیں اور تم صرف یہ اندازہ لگا لو کہ تمہارے لیے کتنی دنیا دعا کر رہی ہے اس وقت، جس سے تمہاری ہمت اور تمہاری سیفٹی ہو۔ ماہ جبین کا کہنا ہے کہ اللّٰہ اْن کو کمزور کرے اور اِن کو ہمت دے۔ رافعہ طارق نے کہا کہ رات کو میں نے دونوں کو اس کو اور منیب کو گڈ بھیجا تو دونوں نے پتہ ہے کیا مجھے بھیجا؟ وہ نہیں شکل ہوتی کہ دانتوں میں آپ دبا لیتے ہو اپنی زبان، مجھے کہہ رہے تھے کہ بی کیئر فْل، وائے شْڈ آئی بی کیئر فْل، وائے؟ ماہ جبین نے کہا کہ جلد سے جلد الیکشن ہوں ابھی۔ رافعہ طارق نے کہا کہ الیکشن، دیکھو ناں، اگر نہیں ہوتے پھر یہ سمجھ لیں کہ مارشل لاء لگے گا، یہ نہیں رہ سکتے ناں، بس ختم بات۔ ماہ جبین نے کہا کہ مارشل لاء بھی، وہ کمبخت نہیں لگانے کو تیار ناں۔ رافعہ طارق نے کہا کہ بالکل تیار ہیں۔ کیا اس قسم کی گفتگو ملک کے نظام کے بڑے کل پرزہ حیثیت کے لوگوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ دو خواتین جن کا تعلق چیف جسٹس اور وکلاء برادری کی اہم شخصیت کے ساتھ بنتا ہے، گفتگو عدلیہ یا عوام پر کیا اثر ڈالے گی۔ ماضی میں تو انتخابات کے موقع پر اس سے کہیں زیادہ سنسنی خیر انکشافات الزامات کی صورت میں لگائے جا چکے ہیں، کردار کشی کی حدود پھلانگ لی گئی تھیں۔ لیکن انتخابات کے نتائج وہ ہی ہوئے جو عوام چاہتے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم وفاقی حکومت کسی طور پر قومی اسمبلی کی مدت سے قبل انتخابات کا انعقاد کرنے پر تیار نہیں ہے۔ عمران خان آئین کے تقاضے پورے کرنے کے لئے پنجاب میں انتخابات کا عمل چاہتے ہیں کیوں کہ وہ پنجاب اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر ا چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ، پی ڈی ایم، جو حکومت کر رہا ہے ، پنجاب میں انتخابات کی آئین کے تقاضے کے تحت انتخاب کے انعقاد کی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مخالفت کر رہا ہے۔ کیوں ؟ یہ کیوں بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے کچھ اس طرح دیا کہ آج انتخابی عمل داری سی اعتماد اٹھایا جا رہا ہے، اس سے بڑی سازش نہیں ہوسکتی۔ ایک چینل کے مطابق ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے عام انتخابات کے موقع پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وفاقی حکومت کے مخالف سیاسی جماعت کی حکومت کیوں قابل قبول ہو سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت کا خیال ہے کہ اگر پنجاب میں الیکشن کرا دئے گئے تو عام انتخابات میں پنجاب سے نتیجہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے اسی لئے عام انتخابات میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی روز کرانے پر اصرار ہے۔ یہ بھی اصرار کیا جارہا ہے کہ ملک دو انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے بھی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے کہ ملک کو سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم، سیاسی جماعتوں کو عدلیہ پر زبانی حد تک حملہ آور ہونے اور مقتدر حلقوں کی مداخلت سے محفوظ رکھا جا سکے۔ وہ سجاد علی شاہ کے دور کا واقعہ دہرانا نہیں چاہتے ہیں۔ عدلیہ کے معاملات میں ماضی میں کئی موقعوں پر عدلیہ پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے لیکن دو صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے معاملہ پر زیادہ ہی اثر انداز ہونے کی ایسی کوشش کی گئی ہے کہ اگر عدلیہ وفاقی حکومت کا موقف کی حمایت میں فیصلہ دے دے تو کہا جائے گا کہ عدلیہ دبائو میں آگئی اور اگر عدلیہ اپنے پہلے سے دئے گئے فیصلہ پر کار بند رہے تو یہ کہا جائے گا کہ عدلیہ ایک فریق سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اصولا ، اخلاقی اور قانونی لحاظ سے تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو عدلیہ کی پشت پر کھڑا رہنا چاہئے اسی رویہ میں عدلیہ میں استحکام آئے گا۔ دوسری طرف امریکی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ عمران خان تیزی سے پاکستان کو بحران اور انتشار کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ بحران کے نتیجے میں پاکستان میں جمہوری عمل کے مستقبل کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں امریکی جریدے کا کہنا تھا کہ عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کی خواہش میں پاکستان کو ایک آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال معاملے میں مرکزی کردار بن چکے ہیں۔ مضمون میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے عمران خان کی جانب سے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد ازخود نوٹس لے کر انتخابات کا حکم جاری کیا، وفاقی حکومت چیف جسٹس کی اس مداخلت کو قبول کرنے پر تیار نظر نہیں آ رہی۔ جرید ے کے مطابق چیف جسٹس اور وفاقی حکومت کے درمیان تصادم کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بلوم برگ کے آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کی ناکام خارجہ پالیسی اور ملک کی ڈوبتی اقتصادی صورتحال نے تحریکِ عدم اعتماد کا راستہ اپنایا۔ امریکی جریدے کا کہنا ہے کہ حکومت کے مطابق اس وقت عمران خان کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے ڈیفالٹ سے بچنے، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی ضرورت ہے۔ بلوم برگ کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ میں تقسیم نظر آ رہی ہے، تشدد کی فضا قائم ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ شاعر راجیندر کرشن نے ایسی ہی کسی صورتحال پر کہا تھا:
نہ چارہ گر کی ضرورت نہ کچھ دوا کی ہے
دعا کو ہاتھ کو اٹھائو کہ غم کی رات کٹے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button