Editorial

تھانے میں دھماکے سے 18افراد جاں بحق

عیدالفطر خوشیوں کا تہوار ہے۔ اس بار بھی اس عید پر بعض سانحات نے جنم لیا، جن سے خوشی کی اس گھڑی میں سوگوار فضا ملک بھر میں چھاگئی۔ سوات کے سی ٹی ڈی تھانے میں زوردار دھماکے کی خبر سن کر ہر دردمند دل اُداس ہوگیا، ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ اندیشے لاحق ہوئے کہ دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی ہوئی ہے، کیونکہ سوات کافی سال پہلے دہشت گردی کی وارداتوں کی زد میں تھا۔ پاک افواج نے اپنے مختلف آپریشنز کے ذریعے ملک بھر خصوصاً سوات کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ لاتعداد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، کتنے ہی پکڑے گئے اور جو بچ گئے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی عافیت جانی۔ یوں سوات میں امن و امان کی صورت حال کو بحال کیا گیا اور اس خوبصورت وادی کی رونق اسے واپس لوٹادی گئی۔ تھانے پر دھماکے کی اطلاع سے پورے ملک میں سوگ کی فضا سی پیدا ہوگئی۔ خدشات اور وسوسے سر اُٹھانے لگے۔ ہر فرد بے چین اور مضطرب تھا۔ کوئی اسے خودکُش حملہ سمجھ رہا تھا تو کوئی اسے دہشت گردوں کی جانب سے بم نصب کرکے بڑی کارروائی گردان رہا تھا، بعد میں یہ تمام تر خدشات غلط ثابت ہوئے جب اطلاع ملی کہ یہ حملہ نہیں تھا بلکہ تہہ خانے میں رکھے بارودی مواد کے پھٹنے کے سبب واقعہ رونما ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عید کی تیسری شب سوات کے کبل سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکہ ہوا، اب تک اس دھماکے کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 18تک پہنچ چکی ہے۔ ریسکیو حکام کے مطابق جائے وقوعہ پر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے، گزشتہ شب 70زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا، رپورٹ کے مطابق دھماکے میں 18افراد شہید ہوئے، زخمیوں کو کبل اور سیدو شریف ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جبکہ شدید جھلسے ہوئے زخمی کو پشاور برن سینٹر منتقل کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق شہید پولیس افسران میں سب انسپکٹر عبداللہ، اشرف علی اور اے ایس آئی شیر عالم شامل ہیں جبکہ سپاہی تاج محمد، شیرولی، خلیل رحمان، بخت روخان، عصمت علی اور فضل رزاق بھی شہدا میں شامل ہیں۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی تھانے میں بچ جانے والا بارودی مواد ناکارہ بنادیا گیا ہے۔ آئی جی کے پی اختر حیات نے کہا ہے کہ پولیس اسٹیشن میں باہر سے کسی حملے کے شواہد نہیں ملے، دھماکا تہہ خانے میں پڑے بارود میں ہوا، اس کی وجہ شارٹ سرکٹ بنا، یا کچھ اور مزید تحقیقات جاری ہے۔ ادھر سوات دھماکے میں شہید 9اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی جس میں کور کمانڈر پشاور، آئی جی پولیس، آئی جی ایف سی اور دیگر نے شرکت کی۔ حکام کے مطابق دھماکے میں مرنے والوں میں پانچ قیدی بھی شامل ہیں۔ بلاشبہ 9پولیس افسران و اہلکاروں کی شہادت بہت بڑا سانحہ ہی، اُن کے گھرانوں میں عید کے پُرمسرت موقع پر صف ماتم بچھ گئی۔ اپنے بچوں کو خوشی خوشی گھر چھوڑ کر آنے والے لہولہان ہوگئے، جھلس گئے، جان سے گزر گئے۔ اُن کے بچے سایہ پدری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ عید کی خوشیاں ماتم میں بدل گئیں۔ اہل خانہ عمر بھر کے سوگ اور روگ کا شکار ہوگئے۔ رب العزت اُن کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ( آمین) ۔ شہید ہونے والے تمام اہلکار و افسر بلاشبہ ہمارے قومی ہیروز ہیں۔ قوم انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ جیسا کہ آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات نے کہا کہ پولیس سٹیشن پر باہر سی کسی حملے کے شواہد نہیں ملے، دھماکا تہہ خانے میں پڑے بارود میں ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے شفاف تحقیقات کی جائیں اور حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں اور آئندہ ایسے کسی سانحے سے بچنے کے لیے ہر طرح سے احتیاط کا دامن تھاما جائے۔ ہر قسم کی احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے کہ کوئی دوبارہ ایسا بڑا سانحہ رونما نہ ہوسکے۔ تمام تر مقامات پر دھماکا خیز مواد کو احتیاط سے رکھنے کا بندوبست کیا جائے کہ آئندہ کہیں بھی کوئی دھماکا نہ ہوسکے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ پورا پولیس سٹیشن ہی تباہ ہوکر رہ گیا۔ شکر کہ باقی ماندہ دھماکہ خیز مواد ناکارہ بنا دیا گیا۔ اگر وہ بھی دھماکے سے پھٹ جاتا تو مزید بڑے پیمانے پر نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر برس ہی عید پر ایسے سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں، ان میں سے اکثر غفلت اور لاپروائی کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔ کچھ بڑے ٹریفک حادثات ہوجاتے ہیں یا کوئی اور دوسرا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ گزشتہ روز سیہون شریف اور اوکاڑہ کے قریب دو گھرانوں کے ساتھ ٹریفک حادثات پیش آئے، جن میں13افراد جاں بحق ہوگئے۔ اکثر ایسے واقعات سے پوری عید سوگ میں گزرتی ہے۔ ناگہانی حادثات اور آفات کو روکا تو نہیں جاسکتا، البتہ لاپروائی، غفلت اور دیگر ایسی کوتاہیوں کو تو دُور کیا جاسکتا ہے، جو حادثات کی وجہ بنتی ہیں۔ اس حوالے سے اُن اسباب پر قابو پانے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے حادثات اور واقعات رونما ہوتے ہیں۔ غفلت اور کوتاہیوں کی ہرگز گنجائش نہ چھوڑی جائے کہ آئندہ کسی عید پر کوئی الم ناک سانحہ رونما نہ ہوسکے۔

سیلاب سے معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان

7، 8ماہ قبل شدید بارشوں کے نتیجے میں ملک عزیز کے مختلف حصوں میں شدید سیلاب آیا، جس سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچے۔ اسی متعلق ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سیلاب سے 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا، فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے مقامی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سالانہ رپورٹ جاری کردی، جس میں کہا گیا کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں فصلوں کی بڑی تباہی ہوئی، فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے ملک میں طلب اور رسد کا توازن خراب ہوا، مقامی طور پر مہنگائی بڑھ گئی، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے بچنے کے لیے ماہرین کی ضرورت ہے۔ ایشیائی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے 1730افراد جان کی بازی ہار گئے، سیلاب نی 3کروڑ 30لاکھ افراد کو متاثر کیا جب کہ پاکستانی معیشت کو 30ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں پیش کیے گئے حقائق چشم کُشا ہیں۔ ان کی روشنی میں ملکی معیشت کی صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ملک اس وقت انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ یہ ایسے وسیع پیمانے پر پہنچنے والے نقصانات ہیں، جن کے ازالے کے لیے کئی عشرے درکار ہوں گے۔ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی معیشت کے عدم استحکام اور بدترین بحرانی کیفیت سے دوچار تھا، سیلاب مزید اس کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوا ہے۔ حکومت پہلے ہی معیشت کی بحالی کے مشن پر گامزن تھی، اس سیلاب سے اُس کی اُن کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا، 30ارب ڈالرز کا نقصان کوئی معمولی امر نہیں، یہ ایک بحران زدہ معیشت کے لیے سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے نکلنے کے لیے حکومت احسن انداز میں نبردآزما ہے، اس میں شبہ نہیں کہ حکومت نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف خود متاثرہ علاقوں میں گئے اور وہاں کے متاثرین کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات بروئے کار لائے گئے۔ سیلاب زدگان کو حکومتی سطح پر بھرپور امداد فراہم کی گئی اور امداد کا یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اس موقع پر عوامی فلاح و بہبود کے ادارے بھی پیچھے نہیں رہے اور اُنہوں نے بھی بحالی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بے گھروں کو گھر فراہم کیے گئے۔ افواج پاکستان نے بھی سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے دن رات ایک کر دئیے۔ سیلاب کے موقع پر قوم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا، جس سے صورت حال نے اس حوالے سے بہتر رُخ اختیار کیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات بہت بڑے ہیں۔ حکومت نے عالمی سطح پر سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے سر توڑ کوششیں بھی کیں، جن کے کچھ ثمرات ظاہر ہوئے۔ امداد بھی ملی، تاہم جس پیمانے پر امداد کے وعدے کیے گئے تھے، وہ پورے نہ ہوسکے۔ حالات مشکل ضرور ہیں، تاہم ان سے نکلنا ناممکن نہیں۔ سنجیدہ اقدامات اور کوششیں اس حوالے سے بہتری کی جانب مثبت قدم ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button