ColumnNasir Naqvi

بڑا آپریشن۔۔۔۔۔ چھوٹے آپریشن فری .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان 75سال میں زیرو سے ایٹمی طاقت کہلانے کا ہیرو تو بن گیا لیکن ابھی تک کچھ اپنوں اور کچھ غیروں نے مستحکم نہیں ہونے دیا۔ اس کی وجوہات صرف یہی ہیں کہ اگر اس کو استحکام مل گیا تو پھر یہاں اصولوں ہی نہیں ،آئین اور قانون کی حکمرانی کے سوا کسی کا سکہ نہیں چلے گا، پھر الزامات اور جعلی مقدمات کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن جس طرح ایک ’’ علاقائی تھانیدار‘‘ اپنی کامیابی کی تاریخ رقم کرنے کے لیے گردونواح کے جرائم پیشہ اور معززین سے خصوصی روابط کے بغیر اپنا خواب پورا نہیں کر سکتا، بالکل اسی طرح ہمارے سیاستدان اور حکمران بھی سخت قوانین کے دائرے میں رہ کر نہیں چل سکتے کیونکہ سیاست میں طاقت کا عمل دخل ضروری ہو چکا ہے۔ یہ ایک طرف ’’ تھانیدار‘‘ کو مضبوط کر کے اپنا کام نکالتے ہیں تو دوسری طرف کام بگڑنے پر ’’ معززین‘‘ کی پنچائیت لگوا کا مسئلہ حل کر لیتے ہیں۔ یقین جانئیے کہ اگر پولیس اصلاحات سے تھانے اور سسٹم آزاد ہو کر ’’ قانون‘‘ کی حکمرانی میں حقیقی کردار ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارے نامی گرامی سیاست دانوں کی چال ڈھال ہی بدل جائے لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ ’’ پولیس‘‘ کو کوئی اصلاحات کا ایسا تریاق پلایا جائے کہ وہ جائز ناجائز کی تمیز کرنے لگے اور دھونس، دھاندلی کے ساتھ رشوت کی غلامی سے آزاد ہو جائے، یقینا یہ کام مشکل نہیں مشکل ترین ہے، ناممکن ہرگز نہیں۔ میں یہ واقعہ پہلے بھی قلم بند کر چکا ہوں کہ جب سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو گورنری ملی تو وہ محلہ سیاست سے نکل کر اچانک اشرافیہ میں شامل ہو گئے۔ گلی محلے کا خوش باش لاہوری جب مرلوں کے ’’ مکان‘‘ سے کنالوں کے گورنر ہائوس پہنچا تو ہفتے دس روز میں ہی بے زار ہو گیا۔ ہم ملنے جاتے تو کہتے ’’ برادر گورنر ہائوس کے ششکے بڑے ہیں لیکن پروٹوکول نے آزادی سلب کر دی ہے، مصروفیات کوئی نہیں، چند ملاقاتیں، ایک آدھ میٹنگ اور آدھی درجن سرکاری خطوط پر سیکرٹری کی مشاورت سے دستخط باقی بیٹھ کے مکھیا مارو، اتنے بڑے عالی شان گورنر ہائوس میں بھی دم گھٹنے لگتا ہے۔ کوئی علاج بتائو۔‘‘ ہم نے انہیں ’’سرپرائز وزٹ‘‘ کا مشورہ دیتے ہوئے تھانہ پولیس سے دو دو ہاتھ کرنے کو کہا ، میں نے کہا، مختلف تھانوںمیں اچانک جانے سے بہت سے غریبوں کا کام خود بخود ہو جائے گا۔ لوگ تھانہ کلچر سے پریشان ہیں، صرف گورنر کی آمد کا خوف ہی مثبت نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ آپ کوئی حکم نہ بھی دیں تب بھی معاملات میں بہتری آئے گی‘‘ تجویز پسند آئی اور وہ کمربستہ ہو کر پولیس کی کارکردگی کی بہتری اور عوامی ریلیف کے لیے نکل پڑے۔ پہلے حملہ مریدکے تھانے پر کیا تو اگلے روز اخبارات کے صفحہ اول پر شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں چھپیں ’’ میاں اظہر ان ایکشن، پولیس کی دوڑیں، ریکارڈ کی چھان بین، عوامی شکایات کے ازالے کی ہدایات۔‘‘ دو چار روز گزرے تو کامونکے میں پہنچ گئے پھر پہلے جیسا ریسپانس ملا۔ فون کر کے مجھے سارا حال احوال بتایا، خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے لیکن یہ سلسلہ جاری نہ رہا۔ میں سمجھا، مصروفیت آڑے آئی ہو گی۔ آخر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر تھے ، دو چار ہفتے کے بعد ایک تقریب ہوئی، میں نے اشاروں اشاروں میں پوچھا ’’ جناب آپ دوطوفانی دوروں میں ہی ڈھیر ہو گئے، ’’ میڈیا’’ آپ کو ڈھونڈرہا ہے۔ قہقہہ لگا کر بولے ’’ برادر گورنر ہائوس آئیں پھر تفصیل سے بات کریں گے۔‘‘ بات آئی گئی ہو گئی لیکن تجسس تھا، لہٰذا جوں ہی موقع ملا گورنر ہائوس پہنچ گئے۔ ہمیں وقت لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اگر میں اپنے موٹر مکینک سعید آٹو سے بھی گورنر ہائوس فون کر دوں تو چند منٹ میں گورنر صاحب کا رِنگ بیک آنا لازمی تھا۔ اچھے دن تھے موبائل کا طوفان تھا، نہ ہی الیکٹرانک میڈیا کی افراتفری، معمولی سے انتظار کے بعد ملٹری سیکرٹری نے اطلاع دی کہ گورنر صاحب بلا رہے ہیں۔ میں گیا تو حسب عادت بڑے پرجوش انداز میں ملے، پھر کہنے لگے ’’برادر تہاڈا مشورہ بڑا زبردست سی پر وزیراعظم نواز شریف نے روک دیا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’ کیوں؟‘‘۔ مسکراتے ہوئے بولے ’’ ایم این اے رانا تنویر ( موجودہ وزیر تعلیم) نے شکایت کر دی ہے کہ میاں اظہر نوں روکو، او ساڈی سیاست وچ پنگا لے رہیا اے‘‘۔ میں نے کہا’’ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘۔ کہنے لگے ’’ اس کا کہنا ہے کہ ہماری سیاست کا محور ’’ تھانہ اور تھانیدار‘‘ ہی ہیں۔ ان سے ہی ہم اپنوں کے کام اور غیروں کو سبق سکھاتے ہیں اگر انہیں تنگ کرنا ہے تو ہم سیاست چھوڑ دیتے ہیں؟ لہٰذا میں نے ارادہ ترک کر دیا، یہی تکلیف کسی اور کو بھی ہوسکتی ہے، میں نواز شریف کی حکم عدولی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، آخر وہ وزیراعظم اور ہمارے لیڈر ہیں انہیں ان ممبرا ن اسمبلی کی ضرورت ہے‘‘۔ بس ایسا ہی کچھ موجودہ دور میں ہو رہا ہے جس کے ردعمل میں معاشی، آئینی اور سیاسی بحران پاکستان اور عوام کا مقدر بنے ہیں۔ آئین بنانے والے کچھ کہہ رہے ہیں اور اس کی تشریح کرنے والوں کے خیالات بالکل مختلف ہیں ۔ ایک ’’ سوموٹو‘‘ نے پارلیمنٹ اور عدلیہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ حکمران دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر ضد کی بجائے اصولی فیصلے میں ’’ فل کورٹ‘‘ بن جاتا تو معاملہ سلجھ جاتا، لیکن عدالت عظمیٰ کے انکاری روئیے نے عدلیہ میں بھی تقسیم پیدا کر دی اور فیصلہ ہی مشکوک ہو گیا۔ لہٰذا معاملات سدھارنے کے لیے فریقین کو مذاکرات اور مشاورت سے اتفاق رائے پیدا کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن معاملات فیصلہ آنے پرمزید بگڑ گئے، اب مسئلہ چار اور تین سے آگے نکل گیا ’’ پارلیمنٹ اور عدلیہ‘‘ کی مڈبھیڑ نے نئے مسائل جنم دے دئیے، حکومت اور حکمرانوں کے لیے عدلیہ کا فیصلہ اور ججز کے لیے عدلیہ اصلاحات کا ایکٹ درد سر بن چکا ہے۔ اس میں ایک رنگ عمران خان نے پیدا کر دیا۔ پہلے ’’ سپہ سالار‘‘ کو قوم کا باپ قرار دیا تھا لیکن اب فوج کے خلاف برسرپیکار ہو کر چیف جسٹس سپریم کورٹ کو قوم کا باپ کہہ رہے ہیں ان کے پیارے تو اس ’’ یوٹرن‘‘ پر ’’ لبیک‘‘ کہہ رہے ہیں لیکن دوسرے ’’ باپ‘‘ بدلنے کے لئے تیار نہیں، لہٰذا سیاسی آئینی ذمہ داران دست گریبان ہو گئے۔ یوں اب فیصلہ کن مرحلہ آ گیا عمرانی سوچ کے مالک وزیراعظم اور کابینہ کو توہین عدالت میں سب کو نااہل کر کے حکومت چلتا کرے گی لیکن حکومت نے مصلحت پسندی چھوڑ کر جارحانہ کھیلنے کا فیصلہ کر کے عمل درآمد کا ارادہ کیا تو عمران خان ’’ مذاکرات‘‘ کا پیغام دینے پر مجبور ہو گئے لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی خان اعظم نے دیر کر دی یعنی آواز یہی آ رہی ہے کہ ’’ مختیارا گل مک گئی اے‘‘۔ ’’ الیکشن کمیشن‘‘ اپنی تیاریوں کے بعد ضابطہ اخلاق بھی جاری کر چکا لیکن معاملات یہ چغلی کھا رہے ہیں کہ بحران کے خاتمے کے لیے ایک بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی طلبی اور فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ صرف حکومت کے سخت فیصلوں سے کام نہیں چلے گا اس لیے کوئی اجتماعی بڑا آپریشن ضروری ہے جس کے ثمرات میں دیگر مسائل کے نجات کے لیے چھوٹے آپریشن فری مل جائیں گے۔ بڑا آپریشن ’’ ردالفساد‘‘ انداز میں دہشت گردوں کے خلاف کیا جائے۔ اس بات پر عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان فیصلہ اتفاق رائے سے ہو گیا ہے ، اس عملی اقدام سے قومی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت پھیلانے اور تقسیم کا نعرہ لگانے والوں کو واضح پیغام دے دیا جائے گا کہ یہ انداز قومی یکجہتی اور قومی اجتماعی سوچ کے لیے زہر قاتل ہے۔ لہٰذا اس انداز کو ترک کیا جائے ورنہ ایسے افراد کو آئین اور قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس انداز فکر سے قومی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس لیے ’’ زیرو ٹالرینس‘‘ کا فارمولا بلا امتیاز آزمایا جائے گا، اسی طرح ’’ سوشل میڈیا‘‘ کے محاذ پر بھی ملک و ملت کے خلاف مہم جوئی کرنے والوں کو بھی کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کیا جائے گا، اس طرح بڑ ا آپریشن ہوا تو چھوٹے اپریشن فری ہو جائیں گے۔ موجودہ معاشی ، سیاسی اور آئینی بحران کا واحد حل یہی ہے کہ کسی بھی اچانک معرکہ آرائی کے بجائے باقاعدہ اعلانیہ بڑا آپریشن کر کے قوم کی مایوسی ختم کر کے عام آدمی میں اعتماد بحال کیا جائے ورنہ بحرانی کیفیت میں صرف مہنگائی ہی نہیں، کسی بھی بحران کا خاتمہ نہیں کیا جا سکے گا۔ معاملات کس نے بگاڑے؟ قصور وار کون ہے؟ اس کی نشاندہی بھی وقت کے ساتھ خودبخود ہو جائے گی لیکن حکمران اور تمام قومی اداروں کے ذمہ داروں کو اندازہ کرتے ہوئے کچھ نیا نہیں، بہت کچھ نیا کرنا پڑے گا کیونکہ گورننس نام کی اس وقت کوئی چیز نہیں، حکومت کے مقابلے میں عمران خان ’’ ون مین شو‘‘ میں زیادہ طاقت ور دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ پارلیمنٹ سے باہر رہ کر بھی اپنے واحد وعدہ کے مطابق قائم ہیں کہ’’ نہ وہ چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی کسی کو بیٹھنے دیں گے‘‘۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وہ اقتدار سے اتر کر زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں لہٰذا موجودہ حالات کی انارکی، بدنظمی، سیاسی بے چینی اور آئینی بحران سے نمٹنے کے لیے ’’ بڑا آپریشن‘‘ ضروری ہے، ایسا آپریشن جس میں عسکری اور سیاسی قیادت نہ صرف ہم رکاب ہوں بلکہ تمام قومی اداروں کے ثمرات بھی ہمارا مقدر بن جائیں، دنیا میں معاشی بحران کے باعث دور رس نتائج کے لیے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ہم خطے کے ایک عظیم ملک ہوتے ہوئے بھی بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button