ColumnRoshan Lal

اعتزاز احسن کہاں کھڑے ہیں؟ .. روشن لعل

روشن لعل

آج اگر کسی عام فہم انسان سے بھی یہ پوچھا جائے کہ اعتزاز احسن ان دنوں کہاں کھڑے ہیں تو زیادہ سوچے سمجھے بغیر اس کا فوری جواب ہوگا، وہ سیاست میں عمران خان اور عدلیہ میں چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ بات تو آسانی سے بتائی جاسکتی ہے کہ اعتزاز کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں مگر اس رائے کا اظہار آسان نہیں کہ جہاں وہ کھڑے ہیں یہ مقام تاریخ میں درست قرار پائے گا یا غلط ثابت ہوگا۔ اعتزاز احسن آج جہاں کھڑے ہیں اس کے درست یا غلط ہونے کا تعین کیونکہ تاریخ کے سپرد ہے اس لیے ان کے متعلق فی الوقت ظاہر ہونے والی کسی بھی رائے کو حتمی تصور نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں اعتزاز جہاں جہاں کھڑا ہوتے رہے تاریخ اسے کسی نظر سے دیکھتی ہے۔ گو کہ اعتزاز نے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو کر سیاست میں نام کمایا مگر انہوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بائیں بازو کے ایک ایسے مائوسٹ گروہ میں شامل ہو کر کیا جو ٹریڈ یونین اور کسانوں میں متحرک تھا۔ انہوں نے ٹریڈ یونین سیاست سے عام انتخابی سیاست کی طرف اس وقت رخ کیا جب ضلع گجرات سے منتخب پیپلزپارٹی کے منتخب رکن پنجاب اسمبلی انور سماں کے قتل کے بعد ان کی نشست خالی ہوئی۔ اعتزاز مقتول انور سماں کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن میں منتخب ہو کر 1974میں پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے ۔ وہ 1977کے ان عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوبارہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جن پر دھاندلی کا الزام لگا کر قومی اتحاد نے بائیکاٹ کیا تھا۔ نئی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اعتزاز کو وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا مگر وہ قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران وزارت اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر اس تحریک استقلال میں شامل ہو گئے جس کے سربراہ اصغر خان بھٹو کو پھانسی دینے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ ضیا مارشل لا کے دوران جب پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کے انسانی حقوق کی پامال کرتے ہوئے انہیں کوڑوں اور قید کی سزائیں دی جارہی تھیں اس وقت عدالتوں میں ان کارکنوں کی وکالت کے دوران اعتزاز دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل اور متحرک ہوگئے۔ اسی تسلسل میں ان کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہونے لگا۔ اس کے بعد مشرف دور میں 2007تک چاہے پیپلز پارٹی حکومت میں رہی یا اپوزیشن میں، اعتزاز احسن کو پی پی پی کا اہم رہنما اور بے نظیر بھٹو کا معتمد ساتھی تصور کیا جاتا رہا ۔ کہا جاتا ہے کہ جب مشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت گرائی اس وقت اعتزاز احسن کی کوششوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ ہوئی۔ اس دوران اعتزاز احسن نے طیارہ اغوا کیس میں میاں نوازشریف کی وکالت بھی کی۔ اس کے صلے میں میاں نوازشریف نے 2002کے عام انتخابات میں اعتزاز احسن کے خلاف اپنی پارٹی کے کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان کے لیے ایم این اے بننا ممکن ہوا۔ اس کے بعد اعتزاز احسن نے2011 تک ایسی سیاست کی جس میں ان کے دل کے اندر میاں نوازشریف کے لیے انتہائی نرم گوشہ نظر آتا رہا۔ جنرل مشرف نے بے نظیر بھٹو شہید کو جو این آر او جاری کیا میاں نوازشریف نے اگر اس کی کھل کر مخالفت کی تو اعتزاز نے یہی کام دبے لفظوں میں کیا۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں یہ واضح ہونا شروع ہوگیا تھا کہ اعتزاز اب پہلے کی طرح محترمہ کے معتمد ساتھی نہیں رہے۔ محترمہ کی زندگی میں کسی حد تک اور ان کی شہادت کے بعد یہ بات صاف نظر آنے لگی کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور اعتزاز احسن اب ایک صفحے پر نہیں رہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد کی منظر کشی جب اعتزاز احسن ’’ دھرتی ہو گی ماں کے جیسی‘‘ کی طرح کے شعر پڑھ کرتے تھے، اس وقت آصف علی زرداری کے افتخار چوہدری پر تحفظات کا اشارہ کسی اور طرف ہوتا تھا۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے دوران گوکہ اعتزاز نے آصف علی زرداری کے خلاف میاں نوازشریف کی طرح زبان استعمال نہیں کی مگر اس دبائو میں بہت بڑا حصہ ڈالا جو اسٹیبلشمنٹ، میاں نوازشریف ، میڈیا اور عمران خان وغیرہ مل کر پیپلز پارٹی کی کمزور حکومت پر ڈال رہے تھے۔ یہ بات اب تاریخ میں ناقابل تردید حقیقت کے طور پر درج ہو چکی ہے کہ افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے دوران جو دبائو زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر ڈالا گیا اس کے نتیجے میں پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ، میاں نوازشریف ، میڈیا، عمران خان اور اعتزاز احسن کے دبائو کے نتیجے میں عبدالحمید ڈوگر کے بعد افتخار چوہدری کو چیف جسٹس بنایا گیا۔ ان دونوں ججوں کا کردار یہ تھا کہ اگر افتخار چوہدری نے اپنے بیٹے کو میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پہلے ڈاکٹر اور پھر پولیس میں اے ایس پی بنایا تو عبدالحمید ڈوگر نے بحیثیت چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ہی نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بیٹی کو میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا۔ عجیب بات ہے کہ اعتزاز احسن ججوں کی بحالی کی تحریک کے دوران عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں کام کرنے والے سپریم کورٹ کو تو ڈوگر کورٹ کہا مگر ڈوگر جیسے کردار کے حامل افتخار چوہدری کی حمایت میں دیوانہ وار لوگوں کو یقین دلا رہے تھے کہ جب افتخار چوہدری چیف جسٹس بنیں گے تو دھرتی ماں جیسی ہوجائے گی۔ اس دیوانگی کے عالم میں اعتزاز احسن نے آصف علی زرداری اور اپنی پارٹی کی حکومت کے لیے تو مشکلات پیدا کیں مگر میاں نوازشریف کے لیے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کردی۔ اعتزاز احسن کے اس طرح کے کردار کے بعد افتخار چوہدری نے دوبارہ چیف جسٹس بننے کے بعد جب ویسا کچھ بھی نہ کیا جیسی ان سے توقع کی گئی تھی تو اعتزاز دوبارہ پیپلز پارٹی قیادت کے قریب آنا شروع ہوئے۔ پیپلز پارٹی قیادت نے ان کی طرف سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کے باوجود بھی انہیں سینیٹر منتخب کرایا۔ سینیٹر بن کر اعتزاز احسن نے لاہور سے اس سیٹ پر اپنی اہلیہ کو پی پی پی کے ٹکٹ پر 2013میں الیکشن لڑوایا جس پر وہ 2002میں میاں نوازشریف کے تعاون سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ اعتزاز احسن کی خواہش کے باوجود میاں نوازشریف نے ان کی اہلیہ کے ساتھ 2002جیسا تعاون نہ کیا جس کی وجہ سے وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوئیں۔ 2013کے الیکشن کے بعد اعتزاز احسن نے اسی طرح میاں نوازشریف کی مخالفت شروع کردی جس طرح وہ 1990کی دہائی میں کیا کرتے تھے۔ پانامہ کیس میں اعتزاز احسن نے میاں نوازشریف کی ڈٹ کر مخالفت کی، جس کا عمران خان نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ کہا جارہا ہے کہ اعتزاز احسن کے دل میں اب اسی طرح نرم گوشہ ہے جس طرح کبھی میاں نوازشریف کے لیے ہوا کرتا تھا۔ ماضی میں اعتزاز احسن کے افتخار چوہدری اور میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہونے کے فیصلے کو تاریخ غلط ثابت کر چکی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان کے موجودہ چیف جسٹس اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تاریخ کس نظر سے دیکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button