Column

پاک چین دوستی۔۔۔ امریکہ اور بھارت کو فکر .. محمد ناصر شریف

محمد ناصر شریف

1949ء کا چینی انقلاب جسے ملک میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے مائوزے تنگ کی قیادت میں برپا کیا تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں یکم اکتوبر 1949ء کو عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات مئی1951ء میں قائم ہوئے۔ اکتوبر1949ء میں عوامی جمہوریہ کے قیام کے بعد جن اولین ممالک نے چین کی نئی حکومت کو تسلیم کیا تھا، پاکستان اُن میں شامل تھا۔ بلکہ اسلامی ملکوں میں پاکستان پہلا ملک تھا جس نے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کیا۔ گزشتہ تقریباً70 برس کے دوران پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں فقیدالمثال اضافہ ہوا ہے۔ بھارت اور امریکا ہ کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات کسی نہ کسی معاملے پر پیچیدگی کا شکار رہے۔ بھارت پاکستان کا دیرینہ حریف تھا اور چین کے تعلقات بھی بھارت کے ساتھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ دونوں ملکوں کی بھارت کے ساتھ جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ابتدائی دور میں امریکہ نے نئے چین کو دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ پاکستان نے امریکہ کی اس چین دشمن پالیسی کی پروا نہ کرتے ہوئے چین کی نئی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرکے ہر بین الاقوامی فورم پر چین کی حمایت کی، پاکستان اُن ممالک میں شامل تھا جو اقوامِ متحدہ ، خصوصاً سلامتی کونسل میں چین کی نشست بحال کرنے کے حق میں تھا، یاد رہے کہ چین نے بھی اُس وقت پاکستان کی خیر سگالی کا احترام کرتے ہوئے، پاکستان کے ساتھ دوستی اور قریبی تعلقات کے لئے ہاتھ بڑھایا۔1951ء میں کشمیر کی وجہ سے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہوئے اور بھارتی حکومت نے پاکستان کو کوئلے کی سپلائی اچانک بند کرکے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس مشکل موقع پر چین نے پاکستان کو کوئلہ فراہم کیا۔1950 ء کی دہائی میں پاکستان اور چین کے درمیان خیرسگالی اور باہمی مفاہمت پر مبنی تعلقات کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ سرد جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی اورکمیونسٹ مخالف دفاعی معاہدوں سیٹو(SEATO)اور سینٹو(CENTO) کا رُکن ہونے کے باوجود پاکستان، اقوامِ متحدہ میں چین کے جائز مقام کی بحالی کا حامی تھا اور جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں پاکستان چین کے حق میں ووٹ ڈالتا تھا۔ 1955ء میں ہنڈرنگ کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور چینی وزرائے اعظم کے درمیان خوشگوار تعلقات اور چینی وزیرِاعظم چواین لائی کی طرف سے پاکستان کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کے قیام کی خواہش اور اس کے بعد1955ء میں چین کی نائب صدر سونگ چنگ کادورہ پاکستان اور 1956ء میں پاکستانی وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی کا دورہ چین ، اس حقیقت کا غماز ہے کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے قدرتی دوست ہیں اور اس حقیقت کی بنیاد پر 1960ء کی دہائی میں دونوں ملکوں میں دوستی کے مضبوط رشتوں کا قیام ناگزیر تھا۔ پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کو جن دو معاہدوں نے ملکوں کی دوستی کے رشتوں کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا، وہ سرحدی معاہدہ(1963) اور اسی سال پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز کو اسلام آباد بیجنگ ایئر روٹ پر سروس شروع کرنے کی اجازت تھی۔ کہنے کو تو یہ دونوں دوطرفہ معاہدے تھے مگر ان کے دُور رس اور اہم بین الاقوامی مضمرات بھی تھے۔ عوامی جمہوریہ چین نے اپنی سرحدوں کو محفوظ اور مستحکم بنانے کے لئے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کی۔ اُس کے نتیجے میں سابقہ سوویت یونین اور بھارت کے ساتھ سخت اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ادھر پاکستان کو بھی چین کے ساتھ براہِ راست رابطے کے ذریعے اہم اور محفوظ راستہ مل گیا۔ آگے چل کر یہی راستہ چاءنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ( سی پیک) کی بنیاد بنا۔ دفاع کے شعبے میں تعاون کو پاک چین تعلقات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی سے دونوں ملکوں نے سیاسی، سفارتی اور دفاعی شعبوں میں قریبی اور گہرے تعاون کے ساتھ ساتھ معاشی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینے کی طرف توجہ دینی شروع کردی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ( سی پیک) ہے جسے اپریل2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرکے لانچ کیا گیا تھا۔ سی پیک چین کے ایک وسیع منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(Belt and Raod Initiative)کا سب سے اہم منصوبہ ہے اور اس کے تحت چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت کاشغر سے بحیرہ عرب کے ساتھ ساحل پر پاکستانی بندرگاہ گوادر تک ریل، روڈ اور پائپ لائنوں پر مشتمل ایک تجارتی شاہراہ کی تعمیر ہے جو نہ صرف چین بلکہ مغربی اور وسطی ایشیا کے ممالک کو بھی اپنی درآمدی اور برآمدی تجارت کے لئے پاکستان کے راستے بحرِ ہند اور اس کے ارد گرد واقع ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ پاکستان اور چین کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ اس کی بنیاد ہے اور اس کے تحت ابتدائی طور پر46 بلین ڈالر چینی انفراسٹرکچر اور توانائی ( بجلی) پیدا کرنے کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل اور دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ دوسرے مرحلے میں چین کے تعاون سے پاکستان میں زرعی، صنعتی، تعلیمی اور سائنسی ترقی کو فروغ دیا جائے گا۔ پاکستان اور چین کے عوام کے درمیان روابط کو فروغ دینا، سی پیک کا ایک اہم جزو ہے۔ اس کے تحت اس وقت پاکستان کی پانچ یونیورسٹیوں میں کنفیوشس سینٹر(Confucius Institutes)قائم ہیں جہاں چینی زبان پڑھائے جانے کے علاوہ چین کی تاریخ اور ثقافت کے مطالعے پر مشتمل کورسز پیش کئے جاتے ہیں۔ پاکستانی طلباء کی ایک بڑی تعدد ان تدریسی کورسز سے مستفید ہو رہی ہے۔ اس وقت چین کی یونیورسٹیوں اور مختلف ریسرچ اداروں میں30000پاکستانی طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔ اگلے تین برسوں میں چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلباء کی تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے کیونکہ چینی حکومت نے اس مقصد کے لئے20ہزار سکالر شپ کا اعلان کر رکھا ہے۔پاکستانی عوام، چین کو پاکستان کا سچا دوست سمجھتے ہیں جس پر ہر قسم کے حالات میں انحصار کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ بعض ملکوں کی طرف سے منفی پروپیگنڈے کے باوجود، پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعاون پر مبنی تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں پڑی، بلکہ دونوں ممالک پہلے سے زیادہ یک جہتی کے ساتھ آگے بڑھتے آ رہے ہیں اور آئندہ اسی سپرٹ کے تحت آگے بڑھتے رہیں گے۔ 7اپریل کو پانچ پاکستانی سیاح بارڈر چیک اور امیگریشن کا عمل مکمل کرنے کے بعد شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین پہنچے اور یہ تین سال کے بعد خنجراب پاس سے چین میں آنے والے پاکستانی سیاحوں کی پہلی کھیپ ہے۔ اونچائی اور برف باری کی وجہ سے چین اور پاکستان نے ہر سال اپریل سے نومبر تک اس پاس کھولنے اور دسمبر سے اگلے سال مارچ تک بند کرنے پر اتفاق کیا ہے۔امریکا پاک چین تعلقات پر ہمیشہ پریشانی کا شکار رہا ہے اور اب تو امریکا کو اقتصادی بحران سے دوچار پاکستان پر چین اور دیگر ملکوں کے واجب الادا قرضوں پر تشویش ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے اسلام آباد کے دورے کے دوران کہا کہ پاکستان تاریخی لحاظ سی واشنگٹن کا قریبی اتحادی ہے لیکن بڑی تیزی سے چین کے قریب ہوتا جا رہا ہے، جس نے اسے اربوں ڈالر کے قرضے فراہم کئے ہیں اور وہ اس وقت اسلام آباد کا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے۔ پاکستان کو کئی دہائیوں کی بلند افراط زر اور قرضوں کی ادائیگی کی مسلسل ذمے داری کی وجہ سے غیر ملکی زر مبادلہ کے انتہائی کم ذخائر کے پیش نظر اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ہم صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں چینی قرضے یا چین کو واجب الادا قرضے کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔”انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور چین میں سے کسی کا انتخاب کرنا پاکستان کی مرضی ہے امریکا پاکستان کو امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لیے نہیں کہے گا۔ پاکستان کے منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر احسن اقبال نے حکومتی پالیسی کو واضح کرتے ہوئے بوآئو ایشیائی فورم 2023کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے موقع پر کہا کہ چین نے گزشتہ چند دہائیوں میں تیزی سے ترقی کی ہے اور عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دی ہیں، اسی لیے چین کی ترقی کامیاب ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ صدر شی جن پھنگ کی طرف سے تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹیو ایک بہت ہی تخلیقی اقدام ہے، اور چین نے اپنے کامیاب تجربے کو دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ گہرے صنعتی تعاون کی امید رکھتا ہے۔23 مارچ کو چین کے صدر مملکت شی جن پنگ نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر پاکستان کے صدر عارف علوی کو مبارک باد دی۔ شی جن پنگ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی حکومت اور عوام عالمی و علاقائی صورتحال کی تبدیلیوں اور شدید قدرتی آفات سے نمٹتے ہوئے ملک کے استحکام اور ترقی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا ، عہد اور تاریخ میں آنے والی تبدیلیوں کے سامنے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور حمایت کرتے ہیں، اور چین اور پاکستان کے درمیان آہنی دوستی کے لیے نئی قوت فراہم کرتے ہیں۔ میں چین پاک تعلقات کی ترقی کو بڑی اہمیت دیتا ہوں، اسی روز چین کے وزیراعظم لی چھیانگ نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو مبارک باد دی اور چین کے وزیر خارجہ چھین گانگ نے بھی اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو کو تہنیتی پیغام بھیجا۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچ فیلو اپرنا پانڈے نے وی اے او سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین دوست یا اتحادی نہیں بناتا بلکہ ملکوں کو اپنا قرض دار بناتا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات پر بھارت کے خدشات کی توثیق کرتا ہے جو اسے اپنے دو حریفوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے لاحق ہورہے ہیں۔ اپرنا پانڈے کے بقول بھارت سمجھتا ہے کہ چین اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لئے پاکستان کو استعمال کرتا رہے گا۔ امریکہ اور بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان اور چین کے درمیان دوریاں پیدا کی جائیں لیکن چین اور پاکستان کی قیادت اس بات کو بخوبی سمجھتی ہے اور دوستی کے اس عظیم رشتے کو دوام بخشنے کی خواہاں ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے خوب کہا !
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button