ColumnMazhar Ch

جمہوری نظام میں عدلیہ کا کردار .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی عدالتی نااہلی کے بعد ایک بار پھر پارلیمانی جمہوری نظام میں عدلیہ کا کردار خاص طور پر عدالتی نااہلی کا اختیار زیر بحث ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی نااہلی کی وجہ بھی ایگزیکٹو کے اختیارات میں عدالتی مداخلت پر کی جانے والی تنقید ہی بنی ہے۔ اس نااہلی کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں ایک طرف پارلیمان کی بالادستی کے حامیوں کی جانب سے سیاستدانوں کی عدلیہ کے ہاتھوں نااہلی کے سلسلے کو روکنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہیں ایگزیکٹو کے معاملات میں عدالتی مداخلت پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ پارلیمان کی بالادستی کے حامیوں کے مطابق عدلیہ سمیت ہر ادارے اور محکمے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر تنقید برداشت کرنی چاہیے۔ یہاں اگر پارلیمان اور سیاسی رہنمائوں پر شدید الفاظ میں تنقید برداشت کی جا سکتی ہے تو عدلیہ سمیت دیگر اداروں اور محکموں کو بھی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے لیکن مقننہ اور انتظامیہ کے برعکس عدلیہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو عدالتی نااہلی کے ہتھیار سے خاموش کرانے کا اختیار رکھتی ہے۔ جدید جمہوری ریاست کے ستونوں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ میں عدلیہ کو اس لئے غیر معمولی حیثیت حاصل ہے کہ یہ ریاست کے دیگر تین ستونوں پر نگران ہوتی ہے۔ ایک مغربی مفکر کے قول کے مطابق کسی ملک میں جمہوریت کو ماپنے کا پیمانہ عدلیہ ہے۔ کسی ملک میں عدلیہ جتنی آزاد ہوگی ، وہاں جمہوریت اتنی ہی کامیاب ہو گی۔ برطانوی تاریخ دان اور مفکر لارڈ جیمز برائس کے مطابق کسی حکومت کی کارکردگی جاننے کیلئے عدالتی نظام کی کارکردگی کا مطالعہ کر لینا کافی ہے۔ اگر عدلیہ کمزور ہو، کسی دبائو یا سیاسی مخاصمت کی وجہ سے غیر جانبدار نہ رہ سکے اور بلا امتیاز انصاف مہیا کرنے کے فرض اولین میں کامیاب نہ ہو سکے تو ملکی اقدار اور معاشرے کا نظم و ضبط تباہ ہو نے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بادشاہت میں مقتدر اعلی ہی خود سب سے بڑا جج ہوتا ہے جبکہ آمریت میں عدلیہ آمر کے اشاروں پر فیصلے کرتی ہے۔ بادشاہت اور آمریت کے برعکس جمہوریت میں عدلیہ آزاد، بااختیار اور باوقار ہوتی ہے۔ جمہوری نظام میں عوامی حقوق ، شخصی آزادیوں اور سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے کنٹرول سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کو ہر قسم کے دبائو سے آزاد رکھنا ضروری ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے آزاد اور خود مختار عدلیہ موجود ہو۔ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 120ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں جمہوری نظام رائج ہے۔ پھر جمہوری نظام کے اندر وحدانی اور وفاقی اطراز حکومت کی تقسیم ہے اور اس سے آگے پارلیمانی اور صدارتی نظام کی شکلیں ہیں۔ وفاقی طرز حکومت میں آئین کی برتری مسلمہ ہونے کی وجہ سے عدلیہ مرکزی یا صوبائی مقننہ کے بنائے گئے کسی قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر مسترد کر سکتی ہے لیکن وحدانی نظام میں عدلیہ کا قانون سازی میں مداخلت کرنا غیر جمہوری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان ، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت وفاقی اطراز حکومت والے ممالک میں قانون اور آئین کی تشریح ، دستور کے تحفظ اور عدالتی نظر ثانی جیسے اختیارات کے باعث عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کی اہمیت و افادیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں عدلیہ کے آزاد و خودمختار رہنے یا ہونے کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی اور کسی حد تک حال میں ہماری عدلیہ آزادی و خود مختاری سے تمام فیصلے نہیں کر سکیں۔ مارشل لاء کی طویل تاریخ رکھنے والے ہمارے ملک میں فوجی حکومتوں کے دبائو میں آکر عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیتی آئی ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں عدالتوں اور ججز پر سیاسی حکومتوں کا دبائو بھی رہا ہے تاہم 2009ء میں عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد عدلیہ پر اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے اختیارات سنبھالنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ عدلیہ بحالی کا کریڈیٹ لینے والی ن لیگ اور اس کے مرکزی رہنما پیپلز پارٹی کے منتخب وزیراعظم کو نااہل کرانے سمیت میمو گیٹ اسکینڈل میں پیش پیش رہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کو جلد بحال نہ کرنے کی مخاصمت کی وجہ سے چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سرگرم رہی۔ نواز شریف دور میں پہلے دھاندلی ایشو اور بعد ازاں پاناما کیس کی صورت میں عمران خان کی تحریک انصاف عدلیہ پر ن لیگ حکومت اور اس کے مرکزی رہنمائوں کے خلاف کاروائی کرنے پر دبائو ڈالتی رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے ایک گروہ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر عدالت نے نوازشریف اور اس کے خاندان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ایک دوسرے گروہ کے مطابق عدالتوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ شریف خاندان کے دبائو کے آگے جھکنے سے انکار کر کے عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کی جانب ایک بڑا قدم بڑھایا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اپنے دور میں ایک نئے طرز کے جوڈیشل ایکٹیو ازم کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے جہاں ایک طرف سوموٹو نوٹس کا بے دریغ استعمال کر کے انتظامیہ کو لائن حاضر کیے رکھا وہیں ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم چلا کر پارلیمان اور ایگزیکٹو کے اختیارات بھی سنبھالنے کو کوشش کی۔ ثاقب نثار کے بعد آنے والے دو چیف جسٹس صاحبان آصف سعید کھوسہ اور گلزار احمد کے دور میں اگرچہ جوڈیشل ایکٹیو ازم کی شدت قدرے کم رہی لیکن موجودہ چیف جسٹس کے دور میں پھر سے جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ یا عدالتی آمریت قائم کرنے کی گونج بڑی شدت سے سنائی دی جاتی رہی ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومتی اتحاد شروع دن سے ہی عدالت سے سابق وزیراعظم کو خصوصی ریلیف ملنے کا شکوہ کرتا رہا ہے لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے معاملے میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ سامنے آنے کے بعد اعلی عدلیہ خاص طور پر چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات محدود کرنے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے عدالتی اصلاحات کا بل دو بار منظور کرا کے صدر کو منظوری کے لیے بھیجا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ سمیت ہر ادارہ اپنی ڈومین میں رہ کر کام کرے ۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکمرانوں کی جانب سے نظریہ ضرورت یا اپنی پسند کے فیصلوں کے لیے عدلیہ پر دبائو کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے اور ججزکو ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کے لیے مخصوص سیاسی جماعتوں کی حمایت یا مخاصمت کی پالیسی بھی ترک کرنی چاہیے۔ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنے اور سیاسی جماعتوں کے حق یا مخالفت میں فیصلے دینے سے عوامی سطح پر عدلیہ کا وقار بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری عدالتیں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں تساہل سے کام لیتی ہیں جب کہ حکمران اشرافیہ کو فوری ریلیف پہنچانے کے لیے ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ آدھی راتوں کو بھی عدالتیں لگتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button