Abdul Hanan Raja.Column

چین کا اسرائیل .. عبد الحنان راجہ

عبد الحنان راجہ

ژو این لائی کا 1956ء میں پاکستان کا دورہ دراصل حلیف اور حریف بدلنے کا موقع ثابت ہوا۔ انڈیا سے تعلقات کی گرمجوشی پر ہمالیہ کی برف پڑنے لگی، اس دورہ کے بعد ہی ابتدائی دور کی سرد مہری ختم اور دونوں ممالک کے درمیان گرمجوشی پیدا ہونا شروع ہوئی جو بالآخر اس مقام تک پہنچی کہ چینی انٹیلی جنس کے ایک سابق سربراہ جنرل زی اونگ گوانگ کائی نے کہا کہ ’’ پاکستان ہمارا اسرائیل ہے ‘‘۔ اس بار چین نے امریکی مفادات پر ضرب کاری لگائی کہ ایک طرف اس خطہ میں سب سے بڑے امریکی حلیف سعودی عرب اور دوسری طرف حریف ایران کو نہ صرف مذاکرات کی میز پر بٹھایا بلکہ چند روز قبل دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک جامع معائدہ پر دستخط بھی کر دئیے۔ ملائیشین وزیر اعظم کا ایشین مانیٹرنگ فنڈ کی تجویز اور روس و چین کا مقامی کرنسی میں تجارت کی بات چیت کو اگر سعودی عرب، ترکی اور پاکستان عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ڈالر کی کلی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ چینی کہاوت ہے کہ ’’ سدا بہار درخت کا سرد موسم میں پتہ چلتا ہے‘‘، ’’ سچے جذبوں کا مصیبت میں پتہ چلتا ہے‘‘، ’’ گھوڑے کی طاقت کا طویل مسافت میں پتہ چلتا ہے ‘‘، ’’ دلی جذبوں کا طویل رفاقت میں پتہ چلتا ہے‘‘۔ سرد و گرم موسم گزارے اور مصائب بھی آئے، طویل مسافتیں بھی طے ہوئیں اور دلی جذبات بھی آشکارا ہوئے اور پاک چین دوستی حالات کی بھٹی سے کندن بن کے نکلی۔ پاکستان کی خواہش تھی اور چین کا اقدام کہ دو برادر اسلامی ممالک کی دوریاں ختم ہوئیں۔ ماضی قریب میں پاکستان کی خاموش سفارت کاری نے ایران چین قربتیں بڑھانے میں جو کردار ادا کیا شاید وہ اس اہم ترین پیش رفت کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ حسین مقدسی نے بڑے پتے کی بات کی کہ سعودی عرب اور ایران کی دوریوں کا اتنا نقصان شاید ان ممالک کو نہ ہوا ہو جتنا فائدہ ان کے اختلافات سے یہودیوں اور غیر مسلموں نے اٹھایا. ان ممالک کے مابین اختلافات کو ہوا دیکر مسلم ممالک کو بلاکس میں تقسیم کیا گیا، مگر اب سعودی عرب کی روشن خیال اور بالغ نظر قیادت نے بھانپ لیا تھا کہ دشمنوں کی بجائے دوستوں کی تعداد بڑھانی چاہیے جبکہ ایرانی قیادت بھی تنہائی سے نکلنے کی خواہاں تھی، سو اختلافات کی خلیج عبور ہوئی۔ راولپنڈی سے معروف صحافی طارق بٹ کا کہنا تھا کہ ایران سعودیہ چین پاکستان پر مشتمل بلاک اگر ڈالر کو خیر آباد کہہ کر مقامی کرنسی میں تجارت کرتا ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کے دیگر ہم خیال ممالک معاشی انقلاب برپا کرنے کی پوزیشن میں ا سکتے ہیں۔ ٹیکسلا سے سماجی کارکن خادم حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان جس توانائی بحران کا شکار ہے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کی تکمیل اسے اس صورتحال سے نکال سکتی ہے، اگر حکمران عوام پر رحم کریں تو یہ اقدام ہوشربا مہنگائی پر قابو پانے میں ممد ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگار بشیر بخاری کے مطابق پاکستان مختلف شعبہ جات جن میں کیٹل فارمنگ، آم اور کنو، مالٹا اور اجناس میں چاول کی فصل شامل ہے کو ایران برآمد جبکہ اس کے بدلے پاکستان ایران سے سستے داموں توانائی کی ضروریات پوری کر کے اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ واہ کینٹ سے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کی فعال رکن نمرہ بتول، جی سی یونیورسٹی کی طالبہ ربیعہ راجہ، کراچی سے ظفر اقبال، لاہور سے عبدالوحید و دیگر کا کہنا تھا کہ مسلم ممالک مشترکہ مفادات کو ترجیح، اور یورپی یونین کی طرز پر مسلم کامن ویلتھ کی تشکیل دیں تو ترقی و استحکام کی منازل تیزی سے طے کی جا سکتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) حمید گل کے صاحبزادے و معروف تجزیہ نگار عبداللہ گل کے مطابق افعانستان سی امریکی انخلا نے اس کے سپر پاور ہونے کا تشخص مجروح کیا اور اس خطہ پہ اس کی گرفت کمزور ہوئی اور اب کاری ضرب چین نے ایران سعودیہ تصفیہ کی صورت میں لگا دی۔ سعودی پرنس شاہ عبداللہ نے ماضی میں ایران کا دورہ کیا مگر اس کے دورس اثرات مرتب نہیں ہوئے مگر لگتا ہے اب دوستیوں کی بہار ہے کہ ایران سعودی تعلقات سے یمن، شام، سمیت دیگر خلیجی ممالک میں بھی قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ عبداللہ گل کا کہنا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن پہ ہم نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے۔ کمزوری دکھائی جس کا لامحالہ ایران کو دکھ ہوا، اس منصوبہ کے آغاز سے ہماری انڈسٹری بہت مضبوط ہو سکتی ہے دوسرا بارٹر سسٹم ٹریڈ ڈالر بحران کو ختم کر سکتا ہے۔ فرقہ واریت کا خاتمہ فکری و نظریاتی ہم آہنگی اور قیادت کی بالغ نظری سے ہی ہو گا۔ چیئرمین تحریک اتحاد بین المسلمین پاکستان امجد حسین نقوی کے مطابق چین کی فعال سفارت کاری نے خطہ میں معاشی طاقت کے عدم توازن اور جنگ و جدل کے ماحول کا خاتمہ کر کے ہم آہنگی کی فضا پیدا کی ہے، اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم ممالک کے لیے بھی ترقی و استحکام کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ اسلام آباد سے پاکستان عوامی تحریک کے راہنما علی محمد خان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امت تقسیم کی بجائے ضرب کی راہ پر چل پڑے تو حاصل عالمگیر غلبہ اسلام اور مسلم دنیا کا احیا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی قیادت اگر اہل اور دیانت دار ہاتھوں میں ہو تو کم وقت میں ملک کی تقدیر بدلنے کا یہ اچھا موقع ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button