Column

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ آمد پر ہنگامہ کیوں؟ .. محمد ریاض ایڈووکیٹ

محمد ریاض ایڈووکیٹ

اپریل کی 10تاریخ کو آئین پاکستان کی پچاس سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ آمد اور خطاب سے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا پر اک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا۔ اور اس طوفان بدتمیزی پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اگلے دن وضاحتی بیان بھی دینا پڑا جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہائوس میں منعقدہ آئین کنونشن میں شرکت اور خطاب کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف طوفان بدتمیزی میں سب سے زیادہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے نوجوانوں اور حامی یوٹیوبرز اور اینکرز حضرات نے سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا پر اودھم مچائے رکھا اور ابھی تک ایسے ایسے گھٹیا الفاظ کا استعمال کر رہے جن کو اس تحریر میں قلمبند کرنا باعث شرم ہے۔ سب سے پہلے پی ٹی آئی کے ان نوجوانوں کے لئے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پی ٹی آئی دور حکومت میں بننے والے من گھڑت کرپشن ریفرنس کی بناء پر معزز جج صاحب پر طنز اور تنقید کے تیر برساتے ہیں ایسے پی ٹی آئی ٹائیگرز کے لئے اپریل 2022میں انکے اپنے قائد جناب عمران خان صاحب کا بیان ہی شاید انکی تسلی کروا سکے۔ اپریل 2022ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کرلیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا غلطی تھی۔ انہوں نے یہ اعتراف انصاف لائرز فورم کے اجلاس میں کیا۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ متعلقہ افراد نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے بارے میں غلط گائیڈ کیا۔ اب آتے ہیں۔ پی ٹی آئی دوستوں کی اپنے قائد عمران خان سے محبت کو سامنے رکھتے ہوئے: ’’اگر بالفرض قاضی فائز عیسیٰ صاحب دورِ عمرانیہ میں پارلیمنٹ میں تشریف لاتے تو جذباتی دوست اسے جمہوریت ، پارلیمنٹ، آئین اور خان صاحب کی عظیم فتح قرار دیتے اور خان صاحب کی شانِ اقدس میں شاندار قصے لکھتے کہ خان صاحب کی بصیرت اور رعب نے پاکستان میں نئی تاریخ لکھی ہے اور اسے نئے دور کا آغاز قرار دیتے‘‘۔ یاد رہے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلہ میں قومی اسمبلی ہال میں منعقدہ آئین کنونشن میں سپریم کورٹ کے تمام ججز، گورنرز، وزراء اعلی میڈیا و سول سوسائٹی کے افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ اور اس کنونشن کو پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد کرنے کی پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظوری لی گئی تھی۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، درحقیقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ ہائوس میں منعقدہ آئین کنونشن سے خطاب کیا تھا۔ اس تمام معاملہ کا افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام مدعو معزز ججوں نے اس کنونشن میں شرکت نہیں کی۔ بالفرض اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کیا تو کیا یہ پارلیمنٹ بھارت کی ہے یا پھر اسرائیل کی؟ تنقید کرنے والوں نے تو گویا پارلیمنٹ کو گالی بنا دیا ہے۔ یاد رہے پارلیمنٹ کوmother of all institutionsکہا جاتا ہے۔ اور پاکستان کا آئین بھی پارلیمنٹ کی سپرمیسی کا قائل ہے۔ کیا پارلیمنٹ میں جاکر خطاب کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے جج ہیں؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس انور ظہیر جمالی نے 3نومبر 2015ء کو سینٹ سے خطاب کیا تھا اور وہ ملکی تاریخ کے پہلے جج تھے جنہوں نے ایوان سے با ضابطہ خطاب کیا۔ اس خطاب کی دعوت اس وقت کے چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے دی تھی۔ ہم پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ ففتھ جنریشن وار کے نام پر ہونے والے پراپیگنڈا پر ہماری نوجوان نسل عجیب کیفیت کا شکار ہوچکی ہے۔ جن کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس المعروف بابا رحمتے اپنے عدالتی فرائض منصبی چھوڑ کر ہسپتالوں میں چھاپے مارتا، ڈیم فنڈ کے نام پر چندہ مانگتا، شیخ رشید جیسے سیاستدان کیساتھ اس کے حلقہ میں بننے والے ہسپتال و دیگر سرکاری عمارتوں کے تعمیراتی کاموں کی نگرانی کرتا بہت اچھا لگتا تھا مگر پارلیمنٹ میں جاتا جج بہت بُرا لگتا ہے۔ بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آئینی کنونشن سے خطاب انتہائی مختصر مگر جامع تھا، جو قابل سماعت اور تقلید کے قابل تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قومی آئینی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو سیاسی باتیں یہاں کی گئیں میں ان سے اتفاق نہیں کرتا، میں اور میرا ادارہ آئین کا محافظ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ کوئی سیاسی بات نہیں ہوگی لیکن یہاں سیاسی باتیں کی گئیں جن سے مجھے کوئی اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا میں سیاسی باتیں کرنے نہیں آیا یہاں جو باتیں ہوئیں آئین میں اس کی آزادی ہے لیکن ضروری نہیں کہ میں ان سے اتفاق کروں، سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں آنے سے پہلے آپ سے پوچھا تھا کہ کوئی سیاسی بات تو نہیں ہوگی، آپ نے کہا نہیں صرف آئینی باتیں ہوں گی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کل کو شاید آپ یہ کہیں کہ آپ کو بلایا بھی تھا پھر بھی آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا، کل انہی لوگوں کے کیس آئیں گے تو شاید ان کے خلاف فیصلے ہوں تو میرے پر الزام لگائیں گے، میں آئین کی گولڈن جوبلی کے لیے آپ کی دعوت پر آیا تھا، ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا قانون میرا میدان ہے، ہم نے تنقید بھی سنی ہے، سیاست میرا میدان نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کبھی دشمنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی ایک دوسرے سے کرتے ہیں، پارلیمان اور بیوروکریسی سب کو لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ایک ہونا چاہئے، ہمارا کام ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق جلد از جلد فیصلے کریں، آپ کا کام ایسا قانون بنانا ہے جس سے لوگوں کو ریلیف ملے۔ جسٹس قاضی نے کہا کہ ہم جو لفظ اقلیت استعمال کرتے ہیں مجھے پسند نہیں وہ بھی برابر کے شہری ہیں،، مولوی تمیزالدین کے دور میں واپس جائیں تو اگر اس وقت کے ججز نے آئین بحال کیا ہوتا تو پاکستان دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آئین میں لوگوں کے بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے، ہمارے آئین میں ایسے بنیادی حقوق بھی ہیں جو دیگر ممالک میں میسر نہیں، جو قرارداد پیش ہوئی بہت اچھی ہے۔ ہم آئین اسکولوں میں نہیں پڑھاتے، اس آئین میں بہت خوب صورت چیزیں ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ 10اپریل کو دستور کا دن قرار دیا گیا ہے۔ بحیثیت قانون کے طالب علم ریاست کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ کے نمائندہ جج کا قانون ساز اسمبلی میں آنا نیک شگون ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button