Column

رمضان المبارک میں دیوار مہربانی سے نیکی کی ٹوکری کے رواج کا آغاز

قاضی شعیب خان

محترم قارئین: رب کائنات نے مسلم امہ پر خاص کرم و مہربانی فرماتے ہوئے انھیں اپنے نبی آخرالزمانؐ کی پیاری امت میں پید ا کیا ۔ مسلم امہ پر اپنی نعمتیں، برکتیں اور گناہوں سے عام معافی کے ثمرات نچھاور کرنے کے لیے رمضان کریم کا بابرکت مہینہ عطا کیا۔ رمضان المبارک کے مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ روزہ داروں میں اپنے غریب اور بے سہارا افراد کے ساتھ ہمدردی کا احساس ایک قدرتی امر ہے۔ ایک جاپانی کہاوت ہے کہ ایک دفتر میں میاوہ نامی اہلکار نے اپنے مسلمان ساتھی کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں روز ے کے دوران ایمانداری اور فرض شناسی سے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ جھوٹ، فراڈ اور دیگر گناہوں سے بہت پرہیز کر رہا تھا۔ جس پر جاپانی نے حیرانگی سے پوچھا کہ آپ لوگ صرف ایک ماہ گناہوں سے محتاط رہتے ہو ۔ آپ لوگ تو بہت مزے میں ہو۔ ہم جاپانی قوم کو جھوٹ، فریب، بے ایمانی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کے لیے سارا سال احتیاط سے کا م لینا پڑتا ہے۔ اللہ پاک کی خوبصورت کائنات رحم دل افراد سے بھری پڑی ہے۔ جو سفید پوش اور کم مراعات یافتہ طبقے کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ جس کی بدولت ان کو ذہنی اور جسمانی سکون میسر آتا ہے۔ ان کے مال و متاع میں بھی اللہ پاک برکت عطاء فرماتا ہے ہمارے وطن عزیز میں انسانیت کی خدمت کے لئے ایدھی فائونڈیشن، سیلانی فائونڈیشن، اخوت فائونڈیشن، الخدمت، چھیپا فائونڈیشن ، جے ڈی سی کی طرح دیگر ادارے دن رات مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی میڈیا کے ذریعے غریب اور ضرورت مند عوام کی مد د کے لئے دیوار مہربانی اور نیکی کی ٹوکری جیسے رواج بھی ہوئے۔ دیوار مہربانی کا تصور 2017ء میں ایران سے پاکستان میں مشہور ہوا۔ ایران میں ایک دیوار ہے جس پر موسم کی مناسبت سے نئے ، پرانے کپڑے، جوتے لٹکا دیئے جاتے ہیں ۔ جو معاشرے کے ضرورت مند اور سفید پوش افراد اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے برادر ملک ترکی کے ایک تندور پر نیکی کی ٹوکری میں لوگ اپنی ضرورت کے علاوہ روٹیاں ڈال دیتے ہیں جس سے غریب عزت سے اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں اور بقیہ روٹیاں واپس اس ٹوکری میں چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں تنگ دست اور بے روزگار افراد بھی اپنا پیٹ پال سکتے ہیں۔ اس طرح ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔ قارئین کرام آپ کو یاد ہو گا کہ2014ء میں سعودی عرب کے ایک شہری نے اپنے گھر کے باہر فریج میں کھانا رکھ کر آس پاس کے تمام شہریوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے کچن کا فالتو کھانا اس میں رکھ دیا کریں جس سے معاشرے کے بھوکے افراد ابھی اچھا کھانا کھا سکتے ہیں۔ اس طرح کھانا ضائع نہیں ہوتا۔ میڈیا پر اس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عرب معاشرے میں نیکی اور انسانی خدمت کا رجحان بڑا۔ قارئین کرام؛ گزشتہ روز راقم اپنے قریبی ہسپتال کے میڈیکل سٹور پر کچھ ادویات خریدنے گیا ۔ اس دوران راقم نے سیلز مین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔ میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔ مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کائونٹر پر چُپ چاپ کھڑی تھی۔ میں نے دیکھا، وہ بار بار اپنے دُبلے پتلے، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پائوں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل سٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا۔980روپے۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیر پیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ عورت نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکالا اور مُٹھی میں پکڑے مڑے تڑے، 50روپے کے دو نوٹ کائونٹر پر رکھ دئیے۔ پھر سر جھکا لیا۔ بقایا؟۔ دکاندار کی آواز اچانک دھیمی ہوگئی۔ بالکل سرگوشی کے برابر۔ اس نے عورت کی طرف دیکھا۔ بوڑھی عورت سر جھکائے اپنی چادر ٹھیک کرتی رہی۔ شاید دو سیکنڈ کی خاموشی رہی ہوگی۔ ان دو سیکنڈ میں ہم سب کو اندازہ ہوگیا کہ عورت کے پاس دوائوں کے پیسے یا تو نہیں ہیں یا کم ہیں اور وہ کشمکش میں ہے کہ کیا کرے۔ مگر دکاندار نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر، تیزی سے اس کی دوائوں کا ڈھیر تھیلی میں ڈال کر آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ اچھا اماں جی۔ شکریہ۔ بوڑھی عورت کا سر بدستور نیچے تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلی پکڑی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر دکان سے باہر چلی گئی۔ ہم سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔ میں حیران تھا کہ 980روپے کی دوائیں اس دکاندار نے صرف 100روپے میں دے دی تھیں۔ اس کی فیاضی سی میں متاثر ہوا تھا۔ جونہی وہ باہر گئی، دکاندار پہلے ہمیں دیکھ کر مسکرایا۔ پھر کائونٹر پر رکھی پلاسٹک کی ایک شفاف بوتل اٹھالی جس پر لکھا ڈونیشنز فار میڈیسنز یعنی دوائوں کے لیے عطیات۔ اس بوتل میں بہت سارے نوٹ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر دس اور پچاس کے نوٹ تھے۔ دکاندار نے تیزی سے بوتل کھولی اور اس میں سے مٹھی بھر کر پیسے نکال لیے۔ پھر جتنے پیسے ہاتھ میں آئے انہیں کائونٹر پر رکھ کر گننے لگا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کام شروع ہوگیا ہے مگر دیکھتا رہا۔ دکاندار نے جلدی جلدی سارے نوٹ گنے تو ساڑھے تین سو روپے تھے۔ اس نے پھر بوتل میں ہاتھ ڈالا اور باقی پیسے بھی نکال لیے۔ اب بوتل بالکل خالی ہوچکی تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور دوبارہ پیسے گننے لگا۔ اس بار کُل ملا کر ساڑھے پانچ سو روپے بن گئے تھے۔ اس نے بوڑھی عورت کے دئیے ہوئے، پچاس کے دونوں نوٹ، بوتل سے نکلنے والے پیسوں میں ملائے اور پھر سارے پیسے اٹھا کر اپنی دراز میں ڈال دئیے۔ پھر مجھ سے آگے کھڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا۔ جی بھائی۔ نوجوان نے، جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، ایک ہزار کا نوٹ آگے بڑھا دیا۔ دکاندار نے اس کا بل دیکھ کر نوٹ دراز میں ڈال دیا اور گِن کر تین سو تیس روپے واپس کر دئیے۔ ایک لمحہ رکے بغیر، نوجوان نے بقایا ملنے والے نوٹ پکڑ کر انہیں تہہ کیا۔ پھر بوتل کا ڈھکن کھولا اور سارے نوٹ اس میں ڈال کر ڈھکن بند کر دیا۔ اب خالی ہونے والی بوتل میں پھر سے، سو کے تین اور دس کے تین نوٹ نظر آنے لگے تھے۔ نوجوان نے اپنی تھیلی اٹھائی۔ زور سے سلام کیا اور دکان سے چلاگیا۔ بمشکل ایک منٹ کی اس کارروائی نے میرے رونگھٹے کھڑے کر دئیے تھے۔ میرے سامنے، چپ چاپ، ایک عجیب کہانی مکمل ہوگئی تھی اور اس کہانی کے کردار، اپنا اپنا حصہ ملا کر، زندگی کے اسکرین سے غائب ہوگئے تھے۔ صرف میں وہاں رہ گیا تھا جو اس کہانی کا تماشائی تھا۔ بھائی یہ کیا کیا ہے آپ نے؟ ۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا۔ یہ کیا کام چل رہا ہے؟۔ اوہ کچھ نہیں ہے سر۔ دکاندار نے بے پروائی سے کہا۔ ادھر یہ سب چلتا رہتا ہے۔ مگر یہ کیا ہے؟۔ آپ نے تو عورت سے پیسے کم لیے ہیں؟ ۔ پورے آٹھ سو روپے کم۔ اور بوتل میں سے بھی کم پیسے نکلے ہیں۔ تو کیا یہ اکثر ہوتا ہے؟۔ میرے اندر کا پرانا صحافی بے چین تھا جاننے کے لیے کہ آخر واقعہ کیا ہے۔ کبھی ہوجاتا ہے سر۔ کبھی نہیں۔ آپ کو تو پتا ہے کیا حالات چل رہے ہیں۔ دکاندار نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا۔ دوائیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ سفید پوش لوگ روز آتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس بالکل نہیں ہوتے۔ تو ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد کر دیتے ہیں۔ باقی اللہ ہماری مدد کر دیتا ہے۔ اس نے بوتل کی طرف اشارہ کیا۔ یہ بوتل کتنے دن میں بھر جاتی ہے؟۔ میں نے پوچھا۔ دن کدھر سر۔ وہ ہنسا۔ یہ تو ابھی چند گھنٹے میں بھر جائے گی۔ واقعی۔ میں حیران رہ گیا۔ پھر یہ کتنی دیر میں خالی ہوتی ہے؟۔ یہ خالی نہیں ہوتی سر۔ اگر خالی ہوجائے تو دو سے تین گھنٹے میں پھر بھر جاتی ہے۔ دن میں تین چار بار خالی ہوکر بھرتی ہے۔ شکر الحمدللہ۔ دکاندار اوپر دیکھ کر سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ اتنے لوگ آجاتے ہیں پیسے دینے والے بھی اور لینے والے بھی۔ میں نیکی کی رفتار سے بے یقینی میں تھا۔ ابھی آپ نے تو خود دیکھا ہے سر۔ وہ ہنسا۔ بوتل خالی ہوگئی تھی۔ مگر کتنی دیر خالی رہی۔ شاید دس سیکنڈ۔ ابھی دیکھیں۔ اس نے بوتل میں پیسوں کی طرف اشارہ کیا۔ پیسے دینے والے کون ہیں؟۔ ادھر کے ہی لوگ ہیں سر۔ جو دوائیں لینے آتے ہیں، وہی اس میں پیسے ڈالتے ہیں۔ اور جو دوائیں لیتے ہیں ان پیسوں سے، وہ کون لوگ ہیں؟۔ میں نے پوچھا۔ وہ بھی ادھر کے ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے، بیوائیں اور کم تنخواہ والے لڑکے ہیں جن کو اپنے والدین کے لیے دوائیں چاہیے ہوتی ہیں۔ اس نے بتایا۔ لڑکے؟۔ میرا دل لرز گیا۔ لڑکے کیوں لیتے ہیں چندے کی دوائیں؟۔ سر اتنی بے روزگاری ہے۔ بہت سے لڑکوں کو تو میں جانتا ہوں ان کی نوکری موجودہ حالات کی وجہ سے ختم ہوگئی ہی۔ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔ اب گھر میں ماں باپ ہیں۔ بچے ہیں۔ دوائیں تو سب کو چاہئیں۔ تو لڑکے بھی اب مجبور ہوگئے ہیں اس بوتل میں سے دوا لینے کے لیے۔ کیا کریں۔ کئی بار تو ہم نے روتے ہوئے دیکھا ہے۔ یقین کریں ہم خود روتے ہیں۔ مجھے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آنے لگی۔ اچھا میرا کتنا بل ہے؟۔ میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ کہیں وہ میری آنکھوں کی نمی نہ دیکھ لے۔ سات سو چالیس روپے۔ اس نے بل اٹھا کر بتایا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے بھی اس کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور جو پیسے باقی بچے، بوتل کا ڈھکن کھول کر اس میں ڈال دئیے۔ جزاک اللہ سر۔ وہ مسکرایا اور کائونٹر سے ایک ٹافی اٹھا کر مجھے پکڑا دی۔ میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔ غربت کی آگ ضرور بھڑک رہی ہے۔ مُفلسی کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ مگر آسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔ خدا کے بندے اپنا کام کر رہے ہیں۔ چپ چاپ۔ گُمنام۔ صلے و ستائش کی تمنا سے دور۔ اس یقین کے ساتھ کہ خدا دیکھ رہا ہے اور مسکرا رہا ہے کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی بدلتی کی سیاسی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر حکومت وقت کی جانب سے غریب و مستحق افراد کی بحالی کے لئے حکومتی سطح پر مختلف پروگرام بھی شروع کئے گئے ہیں ۔ لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافے نے شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔ سفید پوش اور غریب طبقہ پس کر رہ گیا۔ بقول شاعر:
خود دار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا
راشن تو بہت تھا، مگر فوٹو سے ڈر گیا
حکومت کی جانب سے رمضان سے قبل 20مارچ سے غریب اور مستحق خاندان کے ریلف لے لیے ملک بھر میں مفت آٹے کا پروگرام شروع کیا گیا۔ جسے سے کسی حد تک پاکستان کی غریب عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ مفت آٹے کی تقسیم کے دوران 22افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس لیے معاشرے کے نیک دل افراد کو اپنے اردگرد بسنے والے ضرورت مند افراد کی مدد کرنے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں معاشرے سفید پوش مستحق خاندانوں کے پوشیدہ مدد کے لیے دیوار مہربانی اور نیکی کی ٹوکری کو فروغ دیا جائے۔ اچھا اور برا وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے ، امیر سے فقیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ بقول شاعر:
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button