Column

جماعت اسلامی، منشور اور خدمت .. سید محمود

سید محمود

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے منشور پیش کرنے کی تقریب ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی جس میں بڑے بھائی جماعت اسلامی کے مرکزی ترجمان قیصر شریف صاحب نے شرکت کی دعوت بھی دی لیکن دفتری مصروفیات کی وجہ سے جماعت اسلامی کی منشور پیش کرنے کی تقریب میں شریک نہ ہو سکا جس پر ان سے معذرت خواہ ہوں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایک قدیم سیاسی و مذہبی جماعت ہے جس کا نصب العین بنیادی طور پر خدمت کا ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس جماعت میں جمہوریت کا رائج ہے جس کیلئے پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں یا یوں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ جمہوری جماعتیں ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس جماعت کا خاصہ یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی اپنی کارکردگی کے بل پر اعلی مقام تک پہنچ سکتا ہے، وہ اعلی مقام جماعت کی ترجمانی سے لے کر جماعت کی سربراہی بھی ہو سکتی ہے۔ اس جماعت میں دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں کی طرح خاندانی سیاست کو پروان نہیں چڑھایا جاتا بلکہ کارکنان کی تربیت کی جاتی ہے تا کہ کل کو وہ بھی ایک مروجہ طریقہ کار کو طے کر کے جماعت کے بلند عہدوں تک پہنچ سکیں۔ جماعت کے موجودہ امیر سراج الحق کی مثال لے لیں تو وہ بھی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی محنت کی بنا پر اس مقام پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی و سیاسی جماعت کی سربراہی کر رہے ہیں، اگر وہ کسی اور جماعت میں ہوتے تو شاید اپنی غربت کے باعث کونسلر کا ٹکٹ بھی حاصل نہ کر پاتے۔ جماعت کا ایک اعزاز ہے کہ یہ اپنے کارکنان اور عہدے داروں کی ایسی سیاسی تربیت کرتی ہے کہ وہ چاہے جماعت میں رہیں یا نہ رہیں لیکن جب وہ جماعت کو چھوڑ کر کسی دوسری سیاسی پارٹی میں جاتے ہیں تو وہاں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے کئی سرکردہ رہنما یا تو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ ماضی میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم جمعیت سے وابستہ رہے ہیں۔ لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ جماعت اسلامی آج تک پاکستان میں مکمل اقتدار حاصل نہیں کر سکی، کے پی کے میں جماعت اسلامی اتحادی حکومت میں شامل رہی ہے، لیکن مکمل اقتدار جس کی بنیاد پر کسی بھی جماعت کی کارکردگی جانچی جا سکتی ہے وہ اسے حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے اگر ہم جماعت اسلامی کے منشور کی بات کریں تو منشور ان کا بڑا واضح ہے کہ پاکستان کو اسلامی، جمہوری، خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست بنانا جماعت اسلامی کا نصب العین ہے۔ اسلامی پاکستان، جمہوری پاکستان، مضبوط معیشت اور گورننس، خوشحال صوبے، گوادر کو حق دو، خوشحال اور محفوظ عورت، خوشحال نوجوان، خوشحال کسان، زرعی و دیہی ترقی، خوشحال مزدور، خوشحال غیر مسلم پاکستانی، خوشحال بزرگ شہری اور ملازمین، خوشحال سمندر پار پاکستانی، مضبوط دفاع اور آزاد خارجہ تعلقات جماعت اسلامی کے منشور کے چیدہ چیدہ نکات ہیں۔ منشور ہم کسی بھی جماعت کا اٹھا لیں تو وہ بڑا خوش کن اور جاذب نظر ہوتا ہے لیکن پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں ہماری سیاسی جماعتیں نعرے صرف لوگوں کو لبھانے کیلئے لگاتی ہیں اور منشور صرف ووٹ کیلئے بناتی ہیں لیکن جوں ہی انہیں اقتدار ملتا ہے تو منشور، نعرے، وعدے سب ہوا ہو جاتے ہیں اور پھر اپنے ذاتی بینک بیلنس کو کیسے بھرنا ہے، خاندان کو کیسے محفوظ کرنا ہے، اپنے ساتھیوں کو کیسے نوازنا ہے ان کا صرف یہ منشور رہ جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کو ہم اس موقع پرستی کی لسٹ میں اس لئے شامل نہیں کر سکتے کہ اسے پاکستان میں اقتدار نصیب ہی نہیں ہوا ہے لیکن یہ اقتدار میں آئے بغیر خدمت کا کام خوب کر رہی ہے۔ لوگ جماعت اور اس کے رہنمائوں کی دیانت کی مثالیں دیتے ہیں ( حال ہی میں توشہ خانہ میں جب پاکستان کا تقریبا ہر سیاست دان ملوث دکھائی دیا اور ایک دوسرے پر چوری کے الزام بھی لگاتے رہے لیکن جماعت اسلامی اس سے نہ صرف پاک رہی بلکہ لوگوں نے جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کی مثالیں بھی دیں کہ جنہوں نے اپنی بیٹی کی شادی میں ملنے والے ذاتی تحائف بھی جماعت کے توشہ خانہ میں جمع کرا دیئے کہ یہ تحائف امیر جماعت اسلامی کو دیئے گئے ہیں ان کی بیٹی کو نہیں) لیکن ان پر ووٹ کیلئے اعتماد نہیں کرتے۔ مگر جو لوگ نہ تو خدمت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی خدمت کے کام نظر آتے ہیں ان کے ڈبے لوگ ضرور ووٹوں سے بھر دیتے ہیں۔ سیلاب متاثرین کی دل جوئی کرنی ہو انہیں امداد دینی ہوتو جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت کے لوگ آپ کو ہر جگہ ملیں گے اور لوگ خدمت کے کاموں کیلئے ان پر اعتبار بھی کرتے ہیں، زلزلہ ہو پھر جماعت کے لوگ کام کرتے دکھائی دیں گے اس کے علاوہ کوئی قدرتی آفت ہو تو الخدمت اپنی خدمت جاری رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے خدمت کے کام کو اس طرح خوشنما بنا کر پیش نہیں کر سکی جس طرح شاید عمران خان نے اپنے شوکت خانم ہسپتال والے عوامی خدمت کے منصوبے کو کیا ہے۔ جس طرح سماجی کام عمران خان کو اقتدار میں لے آیا ایک نہ ایک دن جماعت اسلامی بھی شاید اپنی دیانت اور سماجی خدمت کی بدولت اقتدار میں آ ہی جائے، ویسے بھی یار لوگ نعرہ لگاتے ہیں کہ حل صرف جماعت اسلامی جہاں اتنی ساری جماعتوں کو تین تین بار آزما لیا ہے وہاں خدمت کی تاریخ رکھنے والی جماعت کو آزمانے میں کیا حرج ہے، عوام اور طاقتوروں کو اس کے متعلق سوچنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button