Columnمحمد مبشر انوار

گرتی دیواریں .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار(ریاض)

عالمی طاقتیں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتی ہیں اور کیسے مختلف ریاستوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں، انہیں کیسے گمراہ کرتی ہیں، کیسے ان کے معاملات میں ان کو زیر دست رکھتی ہیں، کس طرح ان کے اثاثہ جات کو اپنے مفادات میں استعمال کرتی ہیں، اس کا اندازہ عالمی جنگوں کے بعد کرہ ارض پر ہونے والے حصوں بخروں سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ خلافت عثمانی کو شکست دینے کے بعد برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے کس طرح اس خطہ کے حصے بخرے کئے، کیسے ان نئی ریاستوں پر اپنا تسلط رکھا اور آج تک کیسے ان ریاستوں کے معاملات میں اعتماد کا خون کرتے ہوئے انہیں گمراہ کئے رکھا، یہ سب تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور بتدریج منظر عام پر آ رہا ہے اور آتا رہے گا۔ یہاں یہ امر برمحل ہے کہ عالمی جنگوں کے فاتحین نے کس طرح اپنا پورا وزن ؍ اعتماد ہاتھی کی پاؤں میں ڈالتے ہوئے، اس کے ہر لائحہ عمل میں بھرپور ساتھ دیا ہے اور بالخصوص مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام میں کس طرح دراڑیں ڈالی ہیں، کیسے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا ہے، ان کی طاقت کو کیسے منتشر کیا ہے، کیسے ان ریاستوں کے وسائل کو بیدردی سے لوٹا ہے اور کیوں ان ریاستوں کو تحقیق سے دور رکھا ہے۔ کیسے ان ریاستوں کے ذہین دماغوں کو، اپنے ملکوں میں بسایا ہے، کہیں لالچ تو کہیں دھونس سے مسلم ریاستوں کے بہترین دماغوں سے استفادہ کیا ہے ، جبکہ قوم پرست اذہان کو بتدریج نافرمانی کی سزا غیر طبعی موت کی صورت ان کے ممالک میں دی کئی ہے، اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ دوسری طرف ان سائنسدانوں یا دیگر شعبہ ہائے جا ت میں منفرد حیثیت رکھنے والوں کو بجا طور پر اپنے ممالک میں وہ حیثیت، وہ سہولیات و آسائشیں دستیاب نہیں رہی کہ جن کے باعث وہ مکمل یکسوئی یا اپنی طبع کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو اپنے مادر وطن کے کام لا سکتے۔ بالعموم ایسے منفرد افراد کے لئے وہ مواقع ہی نہیں رہے کہ جن کی بدولت وہ اپنے ذہن نارسا سے اپنے ممالک کو مستفید کر پاتے یا جہاں یہ مواقع اور حیثیت ان نابغہ روزگار افراد کو میسر رہی، انہیں نافرمانی کی سزا غیر طبعی موت کی صورت ان ممالک میں ہی دی گئی تا کہ عالمی طاقت کا اثر قائم رہے۔ سیاسی و مذہبی حوالے سے بھی یہ جوڑ توڑ مسلسل جاری رہا ہے اور کہیں مواقع پیدا کئے گئے تو کہیں قدرتی طور پر مواقع میسر رہے اور ان مواقع سے عالمی طاقتیں نہ صرف فائدہ اٹھاتی رہی ہیں بلکہ درون خانہ مشرق وسطی کی ریاستوں کے خلاف ایک ازلی دشمن ریاست کو مضبوط کرتی رہی ہیں۔ وسائل مسلم ریاستوں کے رہے ہیں جبکہ اس سے فائدہ یہ غیر مسلم ریاستیں برا ہ راست اور مشرق وسطی میں ایک غیر قانونی ریاست بالواسطہ طور پر اٹھاتی رہی ہے اور تمام غیر مسلم ریاستیں، اس کی پشت پناہی کرتی رہی ہیں، یہاں کی مقامی آبادی کی حالت یہ ہے کہ اسے کسی بھی جگہ سکون نہیں اور ان کی حیثیت غلاموں سے بدتر ہے لیکن عالمی ادارے یا طاقتیں سوائے زبانی جمع خرچ کرنے کے کوئی عملی اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اس ریاست کی حالت یہ ہے کہ اسے کسی معاہدے کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی اسے مقدس مہینوں کا احترام ہے او ر نہ ہی وہ ان مقدس مہینوں میں، مسلم آبادی کو اپنی عبادات آزادانہ کرنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ عبادت میں مشغول مسلمانوں کو بزور عبادت گاہوں سے دھکیلتی نظر آتی ہے۔ ایک ریاست نے اپنے قرب و جوار میں کئی ایک مسلم ریاستوں کا جینا محال کر رکھا ہے اور ان کی ترقی و خوشحالی کے درپے ہے کہ ان ریاستوں کے تمام تر وسائل کہیں نہ کہیں یہ کسی نہ کسی طور اس ناجائز ریاست کے ان اقدامات کے ردعمل میں استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہر کیف مشرق وسطی کی ان مسلم ریاستوں کے پاس قدرتی وسائل کا خزانہ موجود ہے جسے ایک طرف امریکی اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہتھیا رہے ہیں تو دوسری طرف ان ممالک کو اپنے زیر دست رکھ کر انہیں تحقیق سے دور رکھ کر ،ان وسائل کو غیر پیداواری اخراجات کی نذر کروا رہے ہیں تو دوسری طرف ان ریاستوں کے تحفظ کی مد میں ان وسائل کو مسلسل ہتھیایا جاتا رہا ہے۔ تیسرا اہم ہتھیار ان ممالک کے درمیان عرب و عجم کہیں، مسلک کہیں یا خطے میں چوہدراہٹ کی لالچ کہیں، ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کئے رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جو قدر مشترک ہے، اس قدر مشترک کو ہی بنیاد بنا کر باہم دست و گریباں کر رکھا ہے، خون مسلم اتنا ارزاں ہے کہ اس کی قیمت سے غیرمسلموں کی ہتھیار ساز فیکٹریاں مسلسل کاروبار کرتی نظر آتی ہے اور ہر نیا اسلحہ مشرق وسطیٰ کے میدانوں میں مسلمان ہی ایک دوسرے پر استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ عرب و عجم کے حوالے سے سعودی عرب او رایران کے درمیان لگائی گئی آگ کے شعلے کبھی مدھم نہیں ہونے دئیے گئے بلکہ پس پردہ ہمیشہ ان پر تیل چھڑکا گیا ہے۔ یہی صورتحال دیگر مسلم ممالک کے ساتھ رہی ہے کہ سعودی عرب کو کبھی شا م کے ساتھ الجھایا گیا ہے تو کبھی ترکی کے ساتھ، کبھی قطر کے ساتھ اس کے تعلقات کو گہنایا گیا ہے تو کبھی یمن میں اس کو دھکیلا گیا ہے اور پس پردہ سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا گیا ہے۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ ان ممالک کی بیدار مغز قیادتوں کو متبادل مخلص ( کسی حد تک) دوست میسر ہو چکے ہیں اور یہ ممالک بتدریج امریکہ دبائو سے نکلتے نظر آتے ہیں۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے شروع ہونے والا سفر بتدریج کامیابی سے آگے بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے تاہم اس سفر کی کامیابی میں پاکستان کا جو بنیادی کردار نظر آتا تھا، اس کو چین نے انتہائی کامیابی اور تیزی کے ساتھ پورا کیا ہے۔ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں امریکہ بہرطور شکست خوردہ یا پسپائی اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے اور گمان یہ ہے کہ چین اور روس نے مشرق وسطی کی ریاستوں کو یہ احساس بخوبی دلا دیا ہے کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کی خاطر اس خطے میں جنگ کے شعلوں سے کھیل رہا ہے جبکہ ان ریاستوں کے مفادات کا تحفظ تو دور کی بات ،ان کے وسائل بھی بیدردی سے لوٹ رہا ہے۔ اس حقیقت کا احساس ان ریاستوں کے عمل سے بخوبی ہو رہا ہے کہ یہ ریاستیں اپنے اختلافات پر بڑی تیزی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ، اپنے تعلقات کو نہ صرف نارمل درجہ پرلا رہی ہیں بلکہ بیشتر معاملات میں ایک دوسرے کو مسائل سے نکالنے کے لئے، کھلے دل سے مدد کرتی نظر آرہی ہیں۔ یہاں افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ، جس کی مدد کے لئے بالعموم یہ ریاستیں ہمیشہ تیار نظر آتی تھیں، اشرافیہ کے گندے کھیل اور کردار کے باعث، پاکستان کی مدد سے کتراتی نظر آتی ہیں، کہ دی جانے والی امداد پاکستان کی بہتری کی بجائے اس کی اشرافیہ کی بہتری کے لئے استعمال ہوتی ہے اور اب پاکستان چند مہینوں بعد ہی امداد یا قرض کے لئے کشکول اٹھائے ان ممالک کے در پر کھڑا نظر آتا ہے۔ ریاستوں کو درپیش مسائل سے نکلنے کے لئے بیدار مغز،قوم پرست اور فوری فیصلے کرنے والی قیادتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف موقع کی نزاکت کو سمجھ سکیں بلکہ فوری فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہوں، یہ بہت بڑا اور واضح فرق ہے جو اس وقت پاکستان اور دیگر ریاستوں میں پایا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی ریاستیں اپنی قیادتوں کے مرہون منت نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی حالات کا جائزہ انتہائی باریک بینی سے لے رہی ہیں اور اسی تناظر میں اپی ریاستوں کے مفادات بچانے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ ان ریاستوں کو بخوبی علم ہو رہا ہے کہ جنگوں میں اسلحہ ساز صنعت کو فروغ ملتا ہے جبکہ امن کی صورت میں ہر صنعت ترقی کرتی ہی، ملک خوشحال ہوتے ہیں اور عوام کے لئے آسانیاں ہوتی ہیں۔ گزشتہ پون دہائی سے عالمی سیاست میں امریکی کردار اسلحہ صنعت کے فروغ والا رہا ہے جبکہ اس وقت چین کا کردار امن پسندی کی طرف ہے اور اسی لئے وہ اس کا بھرپور اظہار مشرق وسطیٰ میں کر رہا ہے کہ ان ریاستوں کے مابین اٹھائی گئی دشمن و نفرت کی دیواروں کو گرانے میں بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ خبریں انتہائی حوصلہ افزا ہیں کہ اس وقت صرف سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کسی بھی وقت نیا موڑ لے سکتے ہیں، جس کے نتیجہ میں دونوں ریاستوں کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہونے کے آثار واضح ہیں اور اس کا ایک اور خوبصورت پہلو حوثیوں کے ساتھ جاری جنگ کا خاتمہ بھی ہو گا اگر یہ سارے معاملات اسی انداز میں رو پذیر ہوتے ہیں تو نفرت کی اٹھائی گئی دیواریں واضح طور پر گرتی نظر آئیں گی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button