ColumnJabaar Ch

کاہے کی حکمرانی ۔۔ جبار چودھری

جبار چودھری

 

میں اپنے معاشرتی رویے، سوچ، عمل اور رد عمل دیکھتا ہوں تو ہنسی آجاتی ہے۔ ہم بڑے بڑے غیرقانونی، غیرآئینی اور غیر جمہوری واقعات کو ایسے قبولیت کی سند دے جاتے ہیں جیسے اس سے زیادہ نیک کام ہی کوئی نہیں تھا۔ اور سند کیا دینی ہے سپریم کورٹ تک جواز بخشنے کیلئے لائن میں کھڑی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں مارشل لا لگ گئے۔ آمریت سالوں پر محیط رہ گئی۔ ایمرجنسی لگادی گئی لیکن ہمیں کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔ یہاں لوگ آئین ٹوٹنے پر خوشیاں مناتے دیکھے گئے لیکن پاکستان میں پہلی بار آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ایک حکومت بدلی تو ایک سال کے اندر پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جو ہنوز جاری ہے۔ قائد اعظمؒ نے اس ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ کہا تھا، ہم نے اسلام کو نکال دیا لیکن تجربہ گاہ ایسی بنادی کہ ستر سال سے صرف تجربے ہی کئے جارہے ہیں۔ یہاں ہر کسی کو یہ پتہ ہے کہ تباہی کس نے کی ہے لیکن اس تباہی کو ٹھیک کیسے کرنا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ ایک سال بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کاش پہلی کاوشوں کی طرح عمران خان کے خلاف لائی گئی عدم اعتماد بھی ناکام ہوجاتی تو شاید اس ملک کے لیے اتنا برا نہ ہوتا۔ عمران خان کی حکومت معاشی کمزوری اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے بوجھ سے خود گرتی تو شاید وہ شرمندہ شرمندہ ہوکر دوبارہ سنگھاسن پر بیٹھنے میں ناکامی کو کم از کم ایک ٹرم کے لیے تو قبول کر لیتے۔ پاکستان میں کتنی بار عدم اعتماد کی قرار دادیں لائی گئیں کبھی کسی بھی وزیراعظم کے خلاف کامیابی نہیں ملی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد آئی سب کو کامیاب ہونے کا بھی یقین تھا لیکن آخری وقت میں ناکام
ہوگئی۔ رواں تاریخ میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اکثریت مخالف ہونے کے باوجود ناکام رہی تو ایک اور ناکامی شاید پاکستان کی کامیابی بن جاتی لیکن عمران خان نے تو اس کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا۔ اپنا اقتدار جانے کی قیمت پاکستان سے وصول کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟۔ پراجیکٹ عمران خان اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔ میں عمران خان کو نکال کر حکومت لینے والوں کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتا کہ اگر کر نہیں سکتے تھے تو حکومت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ عدم اعتماد آپ نے جیت لی تھی اسی وقت ملک میں الیکشن کا اعلان کرتے۔ سب ذہنی طورپر تیار تھے الیکشن ہوتے یہی پی ڈی ایم دوبارہ جیت جاتی تو عمران خان کو بھی اپنے زخم چاٹنے سے فرصت شاید نہ ملتی اور وطن عزیز کا آج یہ حال نہ ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے بیانیے اپنی جگہ وہ جو چاہیں کہتے اور کرتے رہیں لیکن اس اقتدار کی لڑائی میں کسی کو ریاست پاکستان کا کچھ بھی خیال نہیں ؟ ایک بات واضح لکھ کر رکھ لیں عمران خان جو فوری طور پر دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ اگر آبھی جائیں تو کیا کر لیں گے؟ کیا پلان ہے ان کے پاس؟ وہی سب کچھ دوبارہ ہوگا۔ وہی شوکت ترین دوبارہ وزیر خزانہ۔ وہی آئی ایم ایف اور وہی لنگر خانے اور پناہ گاہیں؟ کیا ان کے پاس قرضوں پر انحصار کم کرنے کا کوئی روڈ میپ ہے ؟ کیا آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا متبادل ہے؟ کیا وہ بھی یہی سب کچھ نہیں کریں گے جو اسحاق ڈار کر رہے ہیں؟ کیا وہ عرب ممالک کے منت ترلے نہیں کریں گے؟۔ عمران خان ہوں، شہباز شریف یا بلاول بھٹو ہوں اس ملک کے سیاستدانوں کا مسئلہ اقتدار اور کرسی ہے لیکن اس ریاست ۔ اس ملک اور عوام کا مسئلہ تو اس ملک میں عزت کی زندگی ہے بھائی۔ دو وقت کی روٹی۔ بچوں کی سکول کی فیس۔ گھر کا وقت پر کرایہ ۔ علاج اور برے وقت کے لیے کچھ بچت۔ کیا اقتدار کی چاہت میں مرنے مارنے والوں کے کسی خانے میں میری اور آپ کی یہ ضروریات ترجیح ہیں؟ اس ملک میں بقول قائد محترم نوازشریف کے ڈالر پانچ سو روپے کا بھی ہوجائے تو اقتدار والوں کو کیا فرق پڑے گا۔ کیا عمران خان کو فرق پڑے گا جن کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان کے گھر کا خرچہ کون اٹھاتا ہے؟ ان کی گاڑی کہاں سے آئی ہے اور اس گاڑی میں پٹرول کون ڈلواتاہے؟ کیا مریم نواز کو فرق پڑے گا؟ کیا بلاول بھٹو کو فرق پڑے گا؟۔ عدم اعتماد کے ایک سال بعد میرا ملک جنگ زدہ ہے۔ یہاں طاقت کی جنگ نے ملک اجاڑ دیا ہے۔ تقسیم نے سارے معاشرے کی کرافٹ ادھیڑ پھینکی ہے اور
اس صورتحال کے بعد بھی سب تالیاں بجا رہے ہیں؟ کیا اس بائیس کروڑ میں کوئی ایک بھی دانشمند نہیں جو اس تقسیم کو جمع کی طرف لے جائے؟ سیاسی تقسیم تو ہمیشہ ہی رہی ہے کہ اس کے بغیر اقتدار نہیں ملتا لیکن یہ عدل کے سب سے بڑے ایوان کو کیا موت پڑگئی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کے لگائے اس بدبودار پودے کا پھل نظام عدل کو بدبودار کر رہا ہے۔ اس نے نہ صرف دو ہزار اٹھارہ کے پہلے چھ ماہ مسلم لیگ ن کو توڑنے۔ اس کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے کا مکروہ دھندہ کیا ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ میں بھی اپنے انڈے بچے پیدا کئے جن کی وجہ سے آج ایک جج دوسرے جج کا فیصلہ رد کر رہا ہے۔ رجسٹرار سرکلر جاری کر رہاہے ۔ کسی کو بینچ سے نکالنے کی شکایت ہے تو کسی کو مخصوص ججز کے بینچ بنانے پر اعتراض ہے۔ سوچیں جس ادارے نے لوگوں کو انصاف دینا ہے۔ اس ملک کے آئین اور قانون کی تشریح کرنی ہے۔ تنازعات کو حل کرنا ہے اگر وہ ادارہ اپنے ساتھ انصاف کرنے کے قابل نہ رہے تو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو آج ہورہا ہے۔ سسٹم ٹوٹ جائے تو دوبارہ بن جاتا ہے لیکن اگر سسٹم جام ہوجائے، چلنے سے انکاری ہو جائے۔ نتائج دینے سے عاری ہوجائے تو اس سے بڑی تباہی اور بدنصیبی نہیں ہو سکتی۔ اگر دو ہزار اٹھارہ سے موازنہ کریں تو تباہی سے بھی بڑا لفظ تلاش کرنا پڑے گا لیکن صرف ایک سال پہلے اور آج کے پاکستان میں ہی زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ گزرے ایک سال سے اس ملک نے سیاسی استحکام کا ایک سورج نہیں دیکھا۔ عدم استحکام کی اندھیری، گہری رات ہے جو چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ مجھے ترس آتا ہے حکومت کرتے ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ عمران خان کے سہولت کار موجود ہیں اسے کہیں نہ کہیں سے سپورٹ مل رہی ہے ۔ بھائی اگر اس کو کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی سپورٹ مل رہی ہے اور کوئی یا چند اشخاص اسی سسٹم سے عمران خان کی مدد کر رہے ہیں اور آپ حکومت میں بیٹھ کر بھی اس کو روک نہیں پا رہے تو آپ کو عمران خان سے صلح کر لینی چاہئے۔ اور اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ جس سسٹم کو آپ چلارہے ہیں وہ سسٹم آپ کی بجائے عمران خان کا تابعدار ہے تو پھر حوصلہ کریں اور اپنی اسمبلی بھی تحلیل کریں۔ اس ملک میں الیکشن کروائیں اور جو بھی نتیجہ ہو اس کو قبول کریں۔ اس ملک کو آگے چلنے دیں۔ عمران خان صاحب کو وہ کرنے کا موقع دیدیں جو وہ پہلے نہیں کر سکے۔ پچھلے ایک سال میں معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ قصور وار چاہے پہلی حکومت ہو یا اب والی حکومت ہو لیکن اس ملک کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے۔ مہنگائی نے اس ملک کے لوگوں کا کچومر بنا دیا ہے۔ صرف ایک سال میں ضرورت کی چیزیں چار گنا مہنگی ہوگئی ہیں۔ چینی جو ہم خود بناتے ہیں کہیں باہر سے امپورٹ نہیں ہوتی وہ دیکھتے ہی دیکھتے چار دن میں نوے سے ایک سو چالیس روپے کلو ہوگئی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ سمگلنگ ہورہی ہے۔ اب اس پر ہنسیں یا روئیں کہ جو لوگ اپنا ایک بارڈر نہیں سنبھال سکتے وہ پورا ملک کیا سنبھالے گی؟۔ خدارا اپنی اپنی نفرت اور ذاتی خول سے تھوڑا اوپر اٹھیں۔ یہ ملک اور اس کے عوام بچیں گے تو سیاست بھی بچے گی۔ اقتدار بھی بچے گا اور آپ کو اس ملک پر حکمرانی کا موقع بھی دوبارہ ملے گا۔ لیکن اگر یہ ملک ہی نہ بچا تو کاہے کی سیاست اور کاہے کی حکمرانی۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button