ColumnImtiaz Ahmad Shad

فاعف عنی یا ربی ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

ماہ رمضان بڑی فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اہل ایمان کی طرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں۔ احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک پر خصوصی رنگ غالب ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا۔ رمضان شریف کے آخری عشرہ کے فضائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت و طاعت، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ احادیث میں ذکر ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمر کس لیتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ ( صحیح بخاری)۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے
مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (بخاری)۔ آخری عشرہ کا اعتکاف ( یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام) سنت علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کیلئے مسنون ہے کہ وہ عبادات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑ جانے کا نام ہے۔ اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف دراصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیل القدر
کی تلاش اور اس کی برکات پانے کیلئے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیل القدر کو تلاش کرو۔ ( صحیح بخاری)۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تفصیل ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اور ہم نے بھی کیا۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے۔ مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلا دیا گیا۔ یاد رکھو لیل القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ ( صحیح بخاری)۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت و خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورۃ نازل فرمائی، ارشاد ہوا: ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح الامین (جبرئیل) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کیلئے اترتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔ (سورۃ القدر)۔ ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے، ارشاد ہے: قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔ ( سورۃ الدخان)۔ چناں چہ شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں ( یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے۔ لیل القدر کا مطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات یعنی ان خصوصیتوں اور فضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدر و شان والا ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس رات کی جلالت و منزلت اور مقام و مرتبہ کی بنا پر اس کا نام لیل القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس رات کی بہت قدر و منزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمار آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے عبادت کرے، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ( صحیح بخاری)۔ اہل ایمان کو ترغیب و تاکید ہے کہ وہ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، رات کو دعا و عبادت اور ذکر و تلاوت میں گزاریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کیلئے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ لہٰذا، ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی ) ( اے اللہ تو معاف کرنے والا کرم والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھی معاف کر دے) ( سنن ترمذی، حدیث: 3435)۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button