Column

شہادت امام حضرت علیؓ حیدر کرار حق کا پیغام ہے ۔۔ قاضی شعیب خان

شہادت امام حضرت علیؓ حیدر کرار حق کا پیغام ہے

قاضی شعیب خان

محترم قارئین: پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کے مسلمان شہادت امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دلخراش واقعہ 21رمضان المبارک کو انتہائی مذہبی جوش و جذبے اور احترام سے مناتے ہوتے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت وہ تھی کہ جس نے کعبہ میں ولادت پائی اور مسجد کوفہ میں شہادت ہوئی۔ ایک انگریز مورخ نے ان کی عہد ساز شخصیت کے حوالے سے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت کے طاقتور حکمرانوں نی امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانے کے لیے اپنا پورا قتدار و اختیار، ذرائع ابلاغ اور سرکاری خزانے کے منہ کھول رکھے تھے ۔ لیکن پھر بھی حق کے امام حضرت علیؓ ولی اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ آج بھی امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے اور قیامت تک حضرت ابو طالب کا بیٹا راج کرتا رہے گا۔ جس نے رسول خدا کے ہمراہ کافروں، مشرکوں کے خلاف جنگ کی اور فتح حاصل کی۔ حضورؐ غدیرخم کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے لاکھوں افراد کے مجمع میں پیغام دے گئے تھے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا حضرت علیؓ مولاہے۔ علماء اسلام کے مطابق ایک دفعہ حضرت علی ممبر رسول پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے خطاب کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے پوچھو پوچھو جو پوچھنا ہے آسمان سے لیکر زمین تک کے حالات۔ مورخین کے مطابق حضرت علیؓ 19رمضان المبارک کی صبح کے نماز ادا کرنے جب مسجد کوفہ میں پہنچے تو ان کا قاتل عبدالرحمان ابن ملجم پہلے سے اپنے زہر آلود تلوار کے ساتھ موجود تھا۔ جس نے امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سجدے میں جاتے ہی ان کے سر مبارک پر تلوار سے وار کیا۔ اس وقت مسجد میں موجود لوگوں نے قاتل عبدالرحمان ابن ملجم کو حراست میں لیکر آپؓ کے روبرو پیش کیا۔ تو آپ نے داڑھی مبارک خون سے لت پت تھی لیکن پھر بھی اس صابر ہستی نے کہا کہ میرے قاتل کو شربت دو۔ اس افسوسناک واقعہ پر مسجد کوفہ میں کہرام مچ گیا۔ 19رمضان المبارک کی شب ابن ملجم نے ا میر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ضرب کاری لگائی اور امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ 21رمضان المبارک کو زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد شہادت پا گئے۔ شیر خدا حضرت علیؓ کی ولادت باسعادت13رجب المرجب کو جمعہ کے روز خانہ کعبہ میں ہوئی۔ ان کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدکعبہ شریف میں داخل ہوئی اور اللہ پاک سے دعا کی تو اللہ کے گھر خانہ کعبہ کی دیوار کھل گئی۔ تین دن کے بعد جب خانہ خدا کی عمارت سے باہر آئیں تو شیر خدا حضرت علیؓ ان کی گود میں موجود تھے۔ امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اسد اللہ، ولی اللہ، حجت اللہ کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پیارے آقا حضرت محمدؐ نے امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پروش خود فرمائی ۔ جس شخصیت کی پرورش آپ ؐ نے کی ہوتو اس کی فضیلت کتنی اعلیٰ درجے پر ہوگی۔ اپنی بیٹی فاطمہ سے حضرت علیؐ سے نکاح کرایا جن کی شادی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل امین کو پیغام دے کر بھیجا۔ جن کے دو بیٹے امام حسنؓ و حسینؓ ہمارے پیارے آقا محمدؓ کے نور عین تھے۔ امام حسینؓ نے اپنے خاندان کے 72افراد کے ساتھ اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لیے یزیدی لشکر کے خلاف جنگ کرتے ہوتے میدان کربلا میں اللہ کے حضور سجدے کے دوران جام شہادت نوش کرکے ایک تاریخ رقم کر دی اور ثابت کر دیا کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاکے بعد۔ ہمارے پیارے رسول حضرت محمدؓ نے حضرت علیؓ کو حضرت ہارون کی طرح اپنا بھائی قرار دیا۔ احادیث کی دونوں کتابوں بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علیؓ کو مدینہ میں رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تو امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بناکر چھوڑے جا رہے ہیں جس پر آپؐ نے فرمایا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جا رہا ہوں، جس طرح حضرت موسیٌ اپنے بعد حضرت ہارونٌ کو چھوڑکر گئے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میر ے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ ایک دن ا میر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک کھلے میدان میں بہت سے لوگوں کو جمع کر کے پوچھا کہ میں تمہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسولؐ اللہ نے یوم غدیر خم کے موقع پر میر ے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا۔ اس مجمع میں اس وقت کم و بیش تیس افراد کھڑے ہوئے اور انہوںنے گواہی دی کی حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا، علی اس کا مولا۔ امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اللہ پاک کے پیارے بنیؐ نے سیدنا امام حسن، امام حسینؐ، سیدہ فاطمہ الزہراؓ اور سیدنا علیؓ کو بلا کر ان پر چادر پھیلائی اور دعا فرمائی کہ یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرما دے اور خوب پاک فرما دے۔ امیر المومنین سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شب برات کو رسولؐ اللہ کی چادر اوڑھ کر آپؐ کے بستر پر سو گئے تھے۔ امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی خصوصیات اور خصائل کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ امیر المومنین سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ میںبہت ایسے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں جو امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز کرتی ہیں۔ امیر المومنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت چھوٹی سے عمر میں امام الانبیاؐ پر ایمان لاتے ہوئے ان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے اور سار ی عمر ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button