Column

یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا؟ ۔۔ محمد عباس عزیز

محمد عباس عزیز

پاکستان اس وقت سیاسی اور آئینی بحرانوں کی زد میں ہے پتہ نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا البتہ صورتحال یہ بن گئی ہے کہ سیاسی بحران پیچھے رہ گیا اور آئینی بحران آگے نکل گیا ہے۔ ہماری نظر میں پاکستان1958 سے ہی آئینی اور سیاسی بحرانوں کی زد میں ہے جب جنرل ایوب نے پہلا مارشل لاء پاکستان میں لگایا تھا۔ یہ عذاب پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا یہ کبھی مذہبی پیشوائوں اور کبھی غیر جمہوری قوتوں کی وجہ سے برپا کیا جاتاہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا۔ یہ کوئی راز ہے کہ پچھلے سات سال سے عملی طور پر آئین کو مفلوج کرکے ملک کو چلایا گیا۔ ہم نے گزشتہ کالم میں بھی یہ عرض کیا تھا کہ اللہ رب العزت سب خفیہ راز قیامت کے دن آشکار کر دے گا۔ لیکن اکثر و بیشتر رب تعالیٰ کی ذات دنیا میں ہی کچھ راز آشکار کر دیتی ہے۔2014میں عمران خان اور طاہر القادری گٹھ جوڑ126 دن کا دھرنا اسلام آباد کا گھیرائو پارلیمنٹ پر حملہ باجوہ، فیض، ثاقب نثار، آصف کھوسہ کیا آئین کی حرمت بچانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے۔ اداروں کی جانبداری نے ہمارے ملک کے نظام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ خدا کے لئے اپنی انائوں کی تسکین کیلئے 22کروڑ عوام کا بیڑا غرق مت کریں۔ اب جنرل ( ر) باجوہ اور جنرل ( ر) فیض حمید گیند ایک دوسرے کی طرف پھینک رہے ہیں اور جس طرح جنرل ( ر) باجوہ صاحب نے انکشاف فرمایا ہے کہ ہم کو عمران خان سے عشق ہوگیا تھا، چند جرنیلوں اور چند ججوں کے عشق نے پاکستانی عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ پاکستان کو منگتوں کا ملک بنا دیا ہے ایک ارب ڈالر کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔2014سے لے کر 2017تک تمام آئینی حدود کو پامال کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ تمام اکنامکس ادارے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ 2017تک ہماری معیشت24نمبر پر تھی جو اب 50نمبر پر پہنچ گئی ہے۔ صرف ایک لاڈلے کو لانے کیلئے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نے تمام راز آشکار کر دئیے ہیں۔ قرآن مجید میں بار بار یہ بات یاد کروائی جاتی ہے کہ لوگو! ہم نے تم کو عقل دی ہے، تم علم اور عقل سے کام کیوں نہیں لیتے، علم اور عقل کا تقاضا تو اب یہی ہے کہ تمام اداری اور تمام جج صاحبان اپنی انائوں کی تسکین کو چھوڑیں اور غیر جانبدار ہوکر ملک کا سوچیں۔ اب کھدو کھل گیا ہے اس کو دوبارہ اکٹھا کرکے اچھی طرح سلائی کی جائے ورنہ آپ کو معلوم ہے کہ ’’ ات خدا دا ویر ہوندا اے‘‘۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور ان پر ہونے والی تنقید سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان کا اہم ترین مسئلہ معیشت ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معیشت کو چلانے کیلئے سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے، ہمارے ملک میں جس طرح کے عدالتی فیصلے ہوتے ہیں، اس کے معیشت پر اثرات بھی پڑتے ہیں اور اس سے سیاسی توازن میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ لہذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات کو بھول کر پاکستان کی معیشت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس وقت پوری دنیا معاشی عدم استحکام کا شکار ہے کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ جب شرح سود میں اضافہ ہوگا تو مہنگائی بھی ضرور ہوگی۔ امریکہ برطانیہ، فرانس، سوئزرلینڈ اور جرمنی ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت پر عالمی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لہذا پاکستان جس کی معیشت پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے اوپر سے سیاسی عدم استحکام کے اثرات نے اس کو مزید کمزور کر دیا ہے لہذا تمام اداروں کو یکسوئی کے ساتھ پاکستانی معیشت پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ غیر موسمی بارشوں کی وجہ سے موجودہ گندم کی فصل کو کافی نقصان ہو گیا ہے۔ سابقہ سال جو سیلاب آیا تھا اس کی تباہی نے ملک کو جو نقصان ہوا تھا ابھی پورا نہیں ہوا اور دوبارہ مون سون آنے والا ہے اس کی تیاری کون کرے گا۔ پاکستان میں افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی شرح چالیس فیصد تک ہوچکی ہے تمام کھانے پینے کی چیزیں عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ پاکستان کا آئینی سیاسی، معاشی بحران ملک کے تمام طبقوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود مفت آٹے کیلئے مرنے والوں کے دلخراش مناظر سامنے آ رہے ہیں لیکن پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ان دلخراش مناظر نے بھی متاثر نہیں کیا۔ بہرحال تمام مشکلات کے باوجود امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ہمارے مقتدر اداروں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر 2014سے 2017تک عمران کیلئے ملک کی معیشت کو جو نقصان ہوا اس کیلئے ایک ٹروتھ کمیشن ضرور بنایا جائے۔ بے شک سزا کسی کو نہ دی جائے لیکن پاکستانی قوم کو یہ تو پتہ چلے کہ چند جرنیل اور چند جج جو عمران خان کے عشق میں مبتلاہو گئے تھے اس عشق اور پیار کی قیمت پاکستانی عوام کو کیا ملی ہے تاکہ آئندہ آنے والے وقت میں ایسے غیر قانونی اقدامات کی روک تھام کی جائے۔ یہ جو ہماری نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہر مہینے ہوتا ہے اس اجلاس میں اگر ماضی کے غلط فیصلوں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہم بہت بڑے نقصان سے آئندہ کیلئے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ آخر میں ہم عمران خان صاحب کو بھی عرض کریں گے کہ مدینہ کی ریاست میں اس طرح تو نہیں ہوتا تھا بلکہ تمام فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے۔ لہذا خان صاحب کو چاہئے کہ امریکہ یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے کی بجائے ملک کے اندر سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کریں اور اپنی ذات کی بجائے پاکستانی عوام کا خیال کریں جو غربت اور لاقانونیت کی چکی میں پس رہے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر یہ ننگی حقیقت ہے کہ یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا اور تمام سیاستدانوں کو گھر بھیج دیا جائے گا کیونکہ جو ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتا اس کو ماضی کی غلطیوں کی سزا دی جاتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی حقیقت بھی ہے اور قانون قدرت بھی۔ آخر میں اقبالؒ کا یہ شعر
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button