CM RizwanColumn

امریکہ میں لگا سرمایہ ضائع ؟ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

امریکہ میں لگا سرمایہ ضائع ؟

آج کے جدید دور میں سیاست بھی جدید ہوگئی ہے۔ اب بعض ممالک کی بعض سیاسی جماعتیں عوام کو بالواسطہ مستفید کرنے کی بجائے اسے مختلف لابنگ کمپنیوں، اداروں اور اہل الرائے شخصیات کے ذریعے سے پراپیگنڈہ کرکے اپنی پارٹی اور قیادت کا قائل کر لیتی ہیں اور پھر حکومت میں آ کر دوبارہ سے اسی نیٹ ورک کو مضبوط کرکے عوام کو اگلے عرصہ کیلئے بیوقوف بنانے کا کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے، جو اسی طریقے سے مقبول ہوئی، اقتدارِ میں آئی اور اب دوبارہ اسی طرح کی موثر مہم، لابنگ اور پراپیگنڈہ میں مصروف ہے۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے جہاں ایک طرف امریکی غلامی سے آزادی کا نعرہ لگایا اور ایبسلوٹلی ناٹ کا واویلا کیا ،وہیں امریکہ میں ایک فرم کی خدمات بھی بھاری سرمائے کے عوض خرید لیں، جو نہ صرف امریکی اشرافیہ اور ایوانوں میں یہ پراپیگنڈہ کررہی ہے کہ عمران خان پاکستان کا طاقتور، موزوں اور امریکہ کیلئے پسندیدہ سیاستدان اور حکمران ثابت ہو گا بلکہ اب آگے بڑھ کر دنیا بھر میں پراپیگنڈہ کر رہی ہے کہ پاکستان کی واحد نمائندہ اور حق پرست جماعت پی ٹی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پچھلے چند روز سے بعض اہم امریکی شخصیات کی طرف سے پاکستان کے سیاسی بحران پر تبصرے اور پی ٹی آئی کے حق میں بِن مانگے مشورے دیئے جارہے ہیں۔ سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کیلئے پاکستان میں ایسے سیاسی تنازعات انجانے نہیں۔ وہ عرصہ دراز سے سی آئی اے کیلئے جنوبی ایشیا میں سفارت اور لابنگ کے محاذ پر کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اُن کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بے لاگ پیغامات آئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کی پاکستان کے معاملات میں حالیہ دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں اور پھر یہ بھی کہ زلمے خلیل زاد امریکی سیاست سے تعلق رکھنے والے واحد مہم جو نہیں ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی بحران پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہو بلکہ امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین اور سینیٹر جیکی روزن بھی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر حال ہی میں اپنی آرا کا اظہار کر چکے ہیں۔ جہاں تک افغان نژاد زلمے خلیل زاد کا تعلق ہے تو وہ امریکہ کے سابق سفارتکار ہیں جو اس وقت کسی حکومتی عہدے پر نہیں تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ زلمے خلیل زاد نے 14 مارچ کو ٹویٹ کیا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران بڑھے گا اور یہ تجویز دی تھی کہ حکومت جون میں انتخابات کی تاریخ دے، اس دوران تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کی سکیورٹی، ترقی اور استحکام کیلئے منصوبہ بندی کریں۔ ان کے اس بیان پر پاکستانی دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو کسی کے لیکچر یا مشورے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود پھر 21 مارچ بدھ کے دن زلمے خلیل زاد نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤئنٹ پر لکھا کہ’’ ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان جو حکومتی اتحاد کے زیر اثر ہے، سپریم کورٹ سے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان کو نااہل کیا جائے یا اگلے چند دنوں میں تحریک انصاف پر پابندی لگا سکتی ہے۔‘‘ پھر یہ بھی لکھا کہ’’ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنایا جائے۔ تاہم ایسا کرنے سے پاکستان میں بحران شدید ہو گا اور بین الاقوامی مدد میں کمی آئے گی۔‘‘ زلمے خلیل زاد نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’’مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاستدان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی تباہ کن سیاست سے گریز کریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دے گی۔‘‘ زلمے خلیل زاد کی ٹویٹ کا آخری جملہ تھا کہ ’’پاکستان کے بارے میں میری تشویش بڑھ رہی ہے۔‘‘
دوسری جانب امریکی خاتون سنیٹر جیکی روزن نے بھی 22 مارچ کو ہی ٹویٹ کیا کہ’’مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے اور میں تمام پارٹیوں سے کہتی ہوں کہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں اور قانون اور جمہوریت کی پاسداری کریں۔‘‘ جبکہ اس سے قبل امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین نے 14 مارچ کو عمران خان کی تقاریر پر پابندی کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ تاہم زلمے خلیل زاد اور سنیٹر جیکی روزن کی جانب سے تازہ ترین بیانات کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر ان کا تذکرہ بھی ہوا اور یہ سوال بھی کہ موجودہ وقت میں امریکی سیاست دانوں کی اچانک پاکستان میں دلچسپی کی وجہ کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر جہاں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ان بیانات کا خیر مقدم کیا۔ وہیں اصولی طور پر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ان پر تنقید بھی کی۔ مسلم لیگ نون کے رہنما اور نواز شریف، مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے زلمے خلیل زاد کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ پاکستان کی حکومت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ ملک کیلئے کیا بہتر ہے اور ہمیں زلمے خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے جنہوں نے افغانستان میں بگاڑ پیدا کیا جس کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے لکھا کہ پاکستان کی صورتحال پرتشویش بڑھ رہی ہے۔ زلمے خلیل زاد، سینیٹر جیکی روزن، کانگریس میں مائیک لوون اور امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق پر رپورٹ پاکستان میں گرفتاریوں اور تشدد پر شدید تشویش ظاہر کر رہی ہے، پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہے۔ سعودی عرب اور امارات جیسے دوست ملک فاصلے پر ہیں جبکہ اس پر مزید ایک قدم آگے جاتے ہوئے گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کو خط لکھ دیا ہے کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اب یہ بات تو کوئی راز نہیں رہی کہ یہ بیانات تحریک انصاف کی جانب سے بین الاقوامی لابنگ کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ پھر یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت گرانے کی سازش میں امریکی کردار کا بیانیہ کس قدر بھونڈا مذاق تھا کیونکہ اب تو تحریک انصاف امریکی حمایت حاصل کر چکی ہے۔ گو کہ زلمے خلیل زاد افغانستان میں ناکام ہوئے اور اس وقت امریکہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں لیکن پھر بھی ایسے بیانات کسی بھی حکومت کیلئے پریشان کن ضرور ہوتے ہیں کیونکہ حکومت دفاع کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی ریاست ایسے بیانات کو کنٹرول نہیں کر سکتی اور نہ ہی ایسی شخصیات کے بیانات پر باقاعدہ سرکاری سطح پر احتجاج کیا جا سکتا ہے۔ البتہ پاکستان یہ کر سکتا ہے کہ دفتر خارجہ امریکی سفیر کو بلا لے اور ان سے بات کرے لیکن ممکنہ طور پر وہ کہیں گے کہ یہ تو آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے۔ پھر بھی یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی امریکہ میں لابی کافی طاقتور ہے۔ امریکہ میں ایسوسی ایشن آف فزیشن ایک بااثر تنظیم ہے جس نے اب تک ان معاملات پر کوئی پوزیشن نہیں لی لیکن انفرادی طور پر اس تنظیم کے کچھ لوگ تحریک انصاف کے حامی ہیں جنہوں نے پوزیشن لی ہوئی ہے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی ایجنٹوں سے پراپیگنڈہ کروانا اور پھر انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہہ دینا کہ یہ لوگ تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے رابطے اور سوالات پر ردعمل کے طور پر ایسا کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی دوغلی، ملک دشمن اور خطرناک پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی وغیرہ ابھی اس سطح پر پراپیگنڈہ اور لابنگ کے کام کا تصور بھی نہیں رکھتیں جس سطح پر جا کر ہی ٹی آئی پچھلے پانچ سال سے کام کر رہی ہے اور پھر یہ کہ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں جس طرح سرکاری سرمایہ اور اختیار اس پارٹی نے اپنی میڈیائی طاقت اور لابنگ نیٹ ورک کو مضبوط کرنے پر لگایا ہے وہ کسی بھی جدید شعور رکھنے والے پاکستانی کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ نہ صرف بیرونی ممالک میں بلکہ پاکستان میں بھی پی ٹی آئی لابنگ اور ماہرین کے مشورے کے مطابق سیاست کر رہی ہے۔ ایک ایک مرحلے اور ایک ایک قدم پر بین الاقوامی سطح کے لابنگ ماہرین سے مشورہ کر کے سیاسی حکمت عملی پر عمل کیا جاتا ہے۔ اب اگر حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جا رہی ہے تو وہ بھی ملک وقوم کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ انہی پراپیگنڈہ ماہرین کے مشورے پر کی جارہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی ہینڈلرز اب یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی ہے اور پاک فوج کے خلاف اب ان کی ناپاک پراپیگنڈہ مہم اپنی موت آپ مر چکی ہے۔ اب سیاسی مخالفین کو چور قرار دے کر ایمپائرز کی معاونت حاصل کرنے کا دور گزر چکا ہے۔ ملک کی معزز، معتبر اور محب وطن فوجی قیادت اب خود کو قطعی طور پر سیاسی جھمیلوں سے کنارہ کش کر چکی ہے۔ ایسا کوئی بھی موقع اب موجود نہیں رہا جو عمران خان کے جھوٹ کو سچ سمجھ کر ملکی سالمیت اور استحکام کے مخالف چلنے کا راستہ فراہم کرے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ میں لگائے گئے پی ٹی آئی کے سرکاری خزانے کے ثمرات کے طور پر ایک غیر متعلقہ امریکی لابی سرگرم عمل ہے مگر اس کا پاکستان کے معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button