ColumnKashif Bashir Khan

وہی پرانی کہانی ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

وہی پرانی کہانی

یہ 5 جولائی کا واقعہ ہے اور میں غالباً پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس صبح ہم سو کر اٹھے ہی تھے کہ میرے ماموں شفیق احمد مرحوم جو حبیب بنک میں آفیسر تھے، مشرق اخبار اٹھائے ہمارے گھر آگئے۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے اور ہم تینوں بھائی ماموں سے جو ہمارے دوست بھی تھے، اٹھکیلیاں کرنے لگے ۔پھر ہمارے والد بشیر احمد آزاد مرحوم اس کمرے میں آ کر بیٹھ گئے اور ماموں سے باتیں کرنے لگے۔ بچپن سے جوانی تک ہمارے گھر میں انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز آتا تھا اور ہم سب بھائیوں کو والد کی طرف سے حکم تھا کہ اس اخبار کو پڑھا کرو اور جو لفظ سمجھ نہ آئے اسے انڈر لائن کر کے ڈکشنری میں معنی ڈھونڈا کرو۔اس مقصد کیلئےہمارے والد نےآکسفورڈ سمیت مختلف پبلشرز کی ہر قسم کی ڈکشنریاں اپنی کتابوں کی لائبریری میں رکھی ہوئی تھیں۔خیر 5 جولائی کا وہ پاکستان ٹائمز کا شمارہ آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے جس کی ہیڈ لائن تھی کہ
Martial Law Imposed and Bhutto Arrested)پھر میرے والد جو کسٹم کے اعلیٰ افسر ہونے کے ساتھ ساتھ لاءآفیسر بھی تھے، میرے ماموں سے گویا ہوئے کہ جب پچھلے سال امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام سے باز نہ آنے پر بھیانک مثال بنانے کی دھمکی دی تھی اس کے بعد یہ ہی ہونا تھا جو آج رات کو ہوا ہے اور اب یہ بھٹو کو نہیں چھوڑیں گے۔مجھےآج بھی یاد ہے جب میرے والد محترم ماموں کو بتا رہے تھے کہ پی این اے بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ آمر ضیاالحق ان کو بھی استعمال کرنےکے بعداٹھا کر باہر پھینک دے گا۔‘‘آپریشن فیر پلے‘‘ کے نام سے جو رجیم چینج 1977 میں ہوا تھا اس کے فوری بعد جنرل ضیاالحق نے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اعلان کیا تھا کہ نوے روز میں الیکشن کروا کر فوج واپس بیرکس میں چلی جائے گی لیکن اکتوبر 1977 میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد بھی ویسے ہی ان انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا تھا جیسے دو دن قبل چیف الیکشن کمشنر نے وفاقی و دو صوبوں کی نگران حکومتوں سے ساز باز کرنے کے بعد کئے ہیں۔اس وقت بھٹو مقبولیت کے عروج پر تھا اور آج عمران خان!!
ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ پی پی پی کے رہنماجو بہت فخر سے کہا کرتے تھے کہ چونکہ جنرل ضیاالحق نے انتخابات کیلئے نوے دن کے وعدے پر شب خون مارا تھا اور پھر وہ گیارہ سال تک مملکت پاکستان کے سیاہ و سفید کا ملک بن کر آئین پاکستان کا مذاق اڑاتا رہا اس لیے ہم نے اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوے روز کے اندر اندر نئے انتخابات کروانے کی شق آئین پاکستان میں شامل کی ہے،لیکن آج و ہی پیپلز پارٹی موجودہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی چیف الیکشن کمشنر کا آئین پاکستان کو پامال کرنے کے تناظر میں ساتھ دینے پر خاموش نظر آ رہی ہے۔ میری اس دلیل کو ان کی مجرمانہ خاموشی تقویت دیتی ہے کہ موجودہ پیپلز پارٹی کا بھٹو کی پارٹی سے ،بھٹو کے مزار کے مجاوروںسے زیادہ تعلق ہرگز نہیں ہے۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے جنرل ضیاالحق کا گیارہ سالہ تاریک دور جو منافقت جھوٹ اور سیاسی انتقام سے بھرپور تھا، کو جوانی کی سیڑھی چڑھتے دیکھا اور اس کے اثرات اس قوم پر مرتب ہوتے دیکھے۔زبان و قلم و محدود، میڈیا پر جس قسم کا قدغن اس دور میں تھا وہ وحشت ناک تھا لیکن آج جب ملک میں جمہوریت بحال ہو چکی زبان و قلم پر جو سختیاں ہیں وہ تو اس آمرانہ دور کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔نواز شریف کا جیلانی دور میں گورنر ہاؤس لاہور میں گزرے ایام اور پھر وزیر خزانہ پنجاب بننا۔ بدنام زمانہ صدارتی ریفرنڈم،غیر جماعتی انتخابات ، آئی جی آئی کی تشکیل،بینظیر بھٹو کو کامل اقتدار کی منتقلی سے گریز،نواز شریف کا بینظیر بھٹوکی حکومت گرانے کیلئے جہاد کے نام پر اسامہ بن لادن سے 1989 میں ڈیڑھ ارب روپے لینا،مرکزاور پنجاب کے درمیان بغاوت کی حد تک نواز شریف کے ذریعے ٹکرائو،کراچی ائرپورٹ پر آئی جی سندھ رانا مقبول کا جنرل مشرف کی گرفتاری کیلئے انتظار اور پھر نواز شریف فیملی کی ذلت آمیز گرفتاری،مشرف کی موڈریٹ اسلام کی اصطلاح،مشرف دور میں آمر سے ڈیل کے بعد شریف فیملی کاجدہ جانا اور پھر دس سالہ ڈیل کے بعد واپس آتے ہوئے میثاق جمہوریت کے نام پر عوام کے مفادات کا سودا کرتے ہوئے دو ہزار اٹھارہ تک باریاں لیتے ہوئے حکومت بھی کرنا اور ایک دوسرے کے خلاف نورا کشتی کرتے ہوئے برا بھلا بھی کہنا۔
یزیدی حکومت میں سیاسی ورکروں کو قیدوبند اور کوڑوں کی سزائیں،نواز شریف فیملی اور زرداری وغیرہ کی کھربوں کی کرپشن، یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پڑھے،نظام کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کا گورکھ دھندہ پاکستان کے گزشتہ چالیس سال سے زیادہ زندگی کا خاصہ ہے۔ پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے کے پاس گروی رکھ دینااور اپنی کھربوں کی جائیدادیں اور اولادیں برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں رکھنے جیسے اقدامات بھی مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے دیکھے،لیکن جو کچھ آج کے پاکستان میں ہو رہا ہے وہ انہونی ہے اور 2023 میں جب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے چند یوم قبل کا یہ سچا واقعہ پڑھ کر آپ کو لگے گا کہ ہم آج بھی دہائیاں قبل کے اس پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں۔
تین دن قبل میں لاہور میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کے دفتر میں کسی جاننے والے کے کام کے سلسلے میں گیا تو دوران گفتگو اس افسر کو ایک کال آئی اور اس کے بعد اس نے اپنے اعلیٰ افسر کو جو کال کی وہ مجھے نگران حکومت اور پنجاب پولیس کی اصل بھیانک تصویر دکھا گئی۔اس پولیس افسر نے اپنے اعلی افسر کو کہا کہ سر! علیم نامی جس شخص کو ہم نے بطور پی ٹی آئی ورکر، کے اٹھایا ہے اس کیلئے مسلم لیگ نواز کے سابق ایم پی اے کا فون آیا ہے کہ اسے چھوڑ دیں کیونکہ وہ شخص اب ہمارے ساتھ ہے۔اعلیٰ افسر نے اسے جو بھی کہا مجھے نہیں معلوم لیکن اس افسر نے فوری کسی کو کال کی اور علیم کا نام لے کر کہا کہ یہ شخص جہاں بھی رکھا ہے اسے رہا کردیا جائے اگر پرچہ دے دیا ہے تو پھر بھی اس کی شخصی ضمانت کا انتظام کرو کیونکہ مسلم لیگ نون کے سابق ایم پی اے کا حکم ہے۔اندازہ کریں کہ پنجاب پولیس اور نام نہاد نگران صوبائی حکومت کس کے احکامات پر عوام کے بنیادی حقوق پامال کرتے ہوئے ظلم و ستم کر رہی ہے۔کون سی نگران حکومتیں اور کیسے شفاف انتخابات؟ چیف الیکشن کمشنر اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں (پنجاب اور خیبر پختونخوا)نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد بھی دونوں صوبوں کے انتخابات غیر آئینی طور پر ملتوی کر کے اعلیٰ عدالت کی حکم عدولی ہی نہیں کی بلکہ وہ سنگین ترین توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں اور پاکستان کے عوام ہر لمحہ سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ عوام کو حق رائے دہی کے استعمال کی مشروط اجازت تو جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف نے بھی دی تھی۔آج تادم تحریر جس طرح سے تحریک انصاف کے مینار پاکستان پر جلسے کو روکنے کیلئے لاہور کو آنے والے تمام راستوں اور لاہور میں مینار پاکستان جانے والے تمام راستوں کو ہر جگہ کنٹینرز سے بند کیا گیا ہے وہ نگران حکومت کی بد نیتی اور وفاقی حکومت سے گٹھ جوڑ کو برہنہ کر رہا ہے۔ آج اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی انتقام،انسانی حقوق کی پامالی اور آئین شکنی پر فائنل راؤنڈ کھیلنا ہو گا ورنہ اس ملک کی ہر قسم کی آزادی و خود مختاری تو پامال کر کے غضب کرہی چکے کہیں ملک پاکستان کو بھی ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button