Editorial

صدر مملکت کا وزیراعظم کو خط

صدر مملکت کا وزیراعظم کو خط

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف سے بذریعہ خط کہا ہے کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیراعظم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے اپنی اوقات اور آئینی دائرے میں رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان سے دہشت گردی کرنےکا جواب لیں، عمران خان کے حکم پر کٹھ پتلی نہ بنیں،آئین اور قانون شکن آئینی عہدے پر مسلط ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ایک ذریعے کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھا ہے جس میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے پر اُنہیں اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ وجوہات سے آگاہ کیاگیا ہے۔خط میں کہا گیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کیے گئے حالات کے باعث 30اپریل کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن8مارچ کو جاری کردہ شیڈول سے دستبردار ہو گیا ہے، اب الیکشن آٹھ اکتوبر کو منعقد کرایا جائے گا۔ بہرکیف دستورِ پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حالیہ فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق میں اتحادی حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان دیرپا ہم آہنگی موجود ہے بصورت دیگر دستورِ پاکستان سے انحراف اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی تعمیل نہ کرنا آسان نہیں، موجودہ انتشار کے ماحول میں ہر کہی ہوئی بات سوالات کے پٹارے کھول رہی ہے، لیکن دوسری طرف سے برملا کہا جارہا ہے کہ اتحادی حکومت انتخابات سے راہ فرار اختیار کررہی ہے کیونکہ موجودہ معاشی حالات اور مشکل فیصلے اِس کی مقبولیت کو کم سے کم کررہے ہیں لہٰذا انتخابات ہونے کی صورت میں رائے عامہ اُن کے حق میں نہیں ہوگی، اِس بات کو کچھ تقویت خود اتحادی حکومت کے ذمہ داران کے بیانات سے بھی ملی جس میں کہا جاتارہا کہ ہم نے ملکی معیشت کو بچانے کے لیے اپنی سیاست دائو پر لگائی ہے، پس اب عملاً ایسی ہی صورت حال ہے جس کا اتحادی حکومت خدشہ ظاہر کررہی تھی بلکہ ڈی فالٹ کے خطرات اور مہنگائی پچھلے دور سے بڑھ گئی ہے، وہ اناڑی تھے تجربہ کار نہ تھے، مگر بار بار برسراقتدار آنے والوں سے بھی معاشی مسائل حل نہیں ہورہے بلکہ مہنگائی کو تاریخ ساز بلندی پر پہنچانے کا اعزاز بھی تجربہ کاروں نے اپنے نام کرلیا ہے، اسحق ڈار کا دعویٰ تھا کہ ڈالر کی قیمت دو سو روپے کے قریب ہونی چاہیے تھی مگر اب تین سو روپے کے قریب ہے، پس بطور حزب اختلاف جو جو دعویٰ اور وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہورہا، پچھلی حکومت کے دور میں چار سال سے زائد عوامی اجتماعات میں جو منشور بیان کیاجاتا رہا اب تک سب کچھ اِس کے برعکس ہورہا ہے، اگر کوئی اِس غلط فہمی میں ہے کہ چند مہینوں میں رائے عامہ بدلی جاسکتی ہے تو شاید اِس سے بڑی غلطی پر کوئی نہ ہو کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات عوام کو ریلیف دینے کی اجازت نہیں دیتے، ابھی جن کو مفت آٹا مل رہا ہے رمضان المبارک کے بعد وہی آٹے کا تھیلا ڈیڑھ ہزار روپے کا خریدیں گے تو اِن کا ردعمل کیا ہوگا، کیا مہاجن پٹرول پر سبسڈی دینے کی اجازت دے رہا ہے؟ اتحادی حکومت نے یقیناً ملک و قوم کے لیے اپنی سیاست خطرے میں ڈالی ہوگی جیسا کہ بارہا اعتراف بھی کیاجارہاہے مگر جب چیزیں قابو میں نہیں آرہیں تو کسی معجزے کا انتظار کیوں کیا جارہا ہے، آپ نے دستورِ پاکستان کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اقتدار حاصل کرلیا، جن کا اقتدار گیا انہوں نے دستورِ پاکستان کے مطابق آپ پر دبائو بڑھانے کے لیے اپنی دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیں، لہٰذا اِس سیاسی لڑائی میں غیر دستوری اقدامات، مستقبل میں دوسروں کے بھی کام آسکتے ہیں، ہمیشہ میچ وہی دلچسپ اور ٹیم قابل تعریف ہوتی ہے جو نیوٹرل امپائرز کی موجودگی میں کامیابی حاصل کرتی ہے، اگر لیول پلے فیلڈنگ اور امپائر نیوٹرل نہ ہوں گے تو کیوں بعد میں آنے والے ایسا نہ کریں ، سیاست میں اچھی روایات کا فقدان ہمیشہ غیر جمہوری نتائج دیتا ہے مگر ہمارے یہاں تو اچھی روایات اور دوسروں کے مینڈیٹ کو قبول کرنے کی روش ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے، اور افسوس کہ ادارے بھی اتنے کمزور ہیں کہ وہ اپنے آئینی مینڈیٹ اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کی بجائے ہمیشہ حکومت وقت کے تابع رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے کی پسماندگی دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہم اور ہمارے ادارے دستورِ پاکستان کےتحت کام نہیں کرتے، لہٰذا بے یقینی اور انتشار میں اضافہ فطری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button