انسان بھی تو ایک پہیہ ہے ،اسے چلنے دو! ۔۔ ضمیر آفاقی
انسان بھی تو ایک پہیہ ہے ،اسے چلنے دو!
دنیا ایک عالمی گائوں بن چکی ہے اس لیے اب کوئی بھی تبدیلی کسی خاص ملک یا خطے کیلئے نہیں ہوتی، اس کے اثرات پوری دنیا کے تمام ممالک اور افراد پر پڑتے ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی واقع ہو رہی ہے ، جبکہ ہمارے ہاں اس کی قیمت کو پر لگ چکے ہیں ایک نگران حکومت کے اس مختصر وقت میں پٹرول کی قیمتوں میں دو بار اضافہ ہو چکا ہے، اضافہ بھی کم نہیں بلکہ دس بیس سے کم پر تو اب بات ہی نہیں ہوتی، پٹرولیم مصنوعات سے معاشی پہیے کی روانی جاری ساری رہتی ہے اور جب اس کی قلت یا قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا اثر تمام ضرویات زندگی سے لیکر ہر چیز پر پڑتا ہے، مہنگائی کا ایسا طوفان آتا ہے کہ ہم جیسے غریب ملکوں کا عام آدمی زندگی جینے کی تگ و دو میں زندگی ہار جاتا ہے ۔ حالیہ برسوںمیں پٹرولیم مصنوعات دنیا بھر میں اپنی کم ترین قیمت پر پہنچی ہیں،عالمی منڈی میں بھی تیل کی قیمتوں میں قابل زکر حد تک کمی دیکھی گئی ہے لیکن پاکستان میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا۔یہاں سب کام اللہ توکل چل رہے ہیں،تمام ملکی قومی اداروں کی کارکردگی صفر ہو چکی ہے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، جواب دہی کا تصور ناپید ہو چکا ہے۔ واپڈا ، گیس ،ٹیلی فون ، پٹرولیم ، قانون و انصاف غرض کسی بھی حکومتی ادارے کا نام لیں آپ کو وہاں عوام کے ساتھ ہتک آمیز سلوک ہوتا دکھائی دے گا(انہیں پرائیویٹ کیوں نہیں کیا جاتا) ایک پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ اس کے کون سے گناہوں کی سزا کے طور پر اسے بد ترین حکمران نصیب ہوتے ہیں جن کے دور میں انسان اپنے شرف ، تکریم اور سفید پوشی کو بھی نہیں بچا سکتا ، کیا ملک اس طرح چلتے ہیں جس طرح یہ لوگ اسے چلانا چاہتے ہیں ،اس سے اچھی تو یہ لوگ اپنی فیکٹر یاں اور صنعتیں چلا رہے، جہاں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے کچھ دیر کیلئے ملک کو بھی کو بھی اپنے کاروبار کے طور پر چلا لیں تاکہ یہ ترقی کر سکے۔ آج سے ہزاروں برس پہلے انسان جب ترقی کے لفظ سے آشنا نہ تھا اور اسے نقل و حمل میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو سمیری تہذیب کے دور میں پہیہ ایجاد ہوا کہا جاتا ہے کہ قریباً چار ہزار برس قبل سمیریوں نے پہیہ ایجاد کر کے انسانی ترقی میں گراں قدر اضافہ کیا اور سفر و حضر میںآسانی پیدا کی، شروع میں درختوں کے تنے کو کاٹ کر چھوٹا کیا گیا اور اس سے پہیے کاکام لیا گیا اور آہستہ آہستہ پہیے کو ترقی اور تیزی ملتی گئی جس نے انسانی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے رُک جانے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور جو پہیہ کسی بھی ملک کی ترقی اورکامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے جس کے رکنے سے ہر چیز رُک جاتی ہے دنیا میں اس بات کا تصور ہی نہیں کہ پہیہ رک جائے۔ چار ہزار برس پہلے کی محنت شائقہ سے لیکر اب تک پہیہ کبھی نہیں رکا لیکن ہمارے حکمرانوں نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا اور پاکستان میں پہیہ روک کر دکھا دیا ا ور ایک ایسی مثال قائم کر دی جو تاریخ کا حصہ بن کر محفوظ رہے گی، بجلی کے نظام کو درست نہ کر کے بارشوں کے موسم میں کئی کئی گھنٹے بجلی بند کر کے دئیے اور لالٹینوں کی واپسی ،گیس کی کمی لکڑیاں اور کوئلے اور پٹرول کی قلت کے بعد گدھا گاڑیوں ،ٹانگے اور سائیکلوں کی واپسی کر دی ہے ۔کون کہتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی، ہاں پاکستان میں یہ کچھ زیادہ ہی دہرائی جاتی ہے۔ اب شنید ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ اگلا بحران گیس کا ہو گا کیونکہ عوام کو اب سلنڈر خریدنے کی طرف راغب کیا جارہا ہے اور پھر اس سے اگلا بحران پانی کا ،جس کی سنگینی کا احساس نااہل حکمران جتھے کو بالکل نہیں ہو رہا۔ شہروں میں پانی آٹھ سو فٹ تک نیچے جا چکا ہے اور دن بدن اس کی گہرائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جبکہ پانی کے زخیرے بنانے کی طرف کسی کی کوئی توجہ اور کوشش دکھائی ہی نہیں دیتی، برف پوش پہاڑوں اور بارشوں کا پانی ہم ضائع کر دیتے ہیں۔ ہوا پر ان کا اختیار نہیں مگر آکسیجن پیدا کرنے والے درختوں پر تو ان کا اختیار ہے جنہیں دھڑا دھڑ کا ٹا جا رہا ہے۔ ہوس زر میں اندھے یہ تک نہیں سوچتے کہ درخت کی کمی طوفانوں ، سیلابوں میں اضافے کے ساتھ صاف ماحول اور آکسیجن میں کمی کا باعث بنتی ہے ،اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا ہے تو پھر پیسہ بھی کسی کام نہیں آتا۔ سوچو جب زندہ رہنے کیلئے تازہ ہوا بھی نہیں ملے گی تو کیا ہوگا۔
پٹرول کی قلت اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کہ کس طرح شہری ذلیل و خوار ہوتے پائے گئے، جو روز کنواں کھود کر پانی پیتے تھے، ان کے گھروں میں کیا قیامت برپا ہوئی، روٹی کوئی کھا سکا یا نہیں ، دوائی کسی کو ملی یا نہیں ، بچوں نے دودھ کے بنا کیسے گزارا کیا ہو گا جیسے سوال تو یہاں اٹھائے ہی نہیں جاتے ۔یہ حکومتوں کی نہیں نظام کی ناکامی ہے، جسے درست کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ۔سول حکومتوں کی ناکامی کے بعد ان کی بری کارکردگی پر سوال اٹھنا لازمی امر ہوتے ہیں ،اس وقت ہم حکومت کی نہیں، نظام کی ناکامی دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اجتماعی دانش کو اس سوال پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ اگر سول حکومتیں جو عملاً شخصی آمریت کی ہی ایک شکل رہی ہیں اور عوام کو کچھ ڈلیور نہیں کر پائی۔ خارجہ اور داخلی پالیسی میں بھی کوئی قابل قدر خدمات سر انجام نہیں دے پائیں بلکہ لوٹ کھسوٹ میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے ، سول حکومتوں کی بیڈ گورنس کے نتیجے میں قومی اداروں کی کارکردگی صفر ہو چکی ہے ، کیا کسی نئے سسٹم کو نہیں آزمانا چاہیے ۔کیا ایسے نظام کو جس میں جمہور خوار پریشان حال، نان جویں کے محتاج اور ملکی ترقی معکوس، دنیا کے ساتھ تعلقات خراب ہو چکے ہوں اور ایک رپورٹ کے مطابق سات برسوں میں ایک کروڑ پاکستانی ملک چھوڑ کر جا چکے ہوںکو خیر آباد نہیں کہہ دینا چاہیے اور کسی نئے نظام کی داغ بیل نہیں ڈالنی چاہیے؟
جو حکومت اپنے عوام کی جائز ضروریات کو پورا نہ کر سکے اور چلتی ہوئی گاڑی کا پہیہ اپنی نااہلی کی وجہ سے روک دے ایسی حکومت اور جمہوریت کو کیا چاٹنا ہے۔ پچھلے 6 مہینوں میں پوری دنیا میں پٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں جبکہ پاکستان میں اس حساب سے قیمتوں میں کمی تو کیا ہونی تھی انہیں مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ لوٹ مار کے اس نظام کو دریا برد کرنے کا وقت آگیا ہے اگر یہ نظام اپنی اسی سفاکی کے ساتھ قائم رہا تو عوام کا جینا عذاب ناک شکل اختیار کر لے گا اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف جنگ کے اتحاد کی طرح اس سفاک نظام کے خاتمے کے خلاف بھی قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ بارشوں کے پانی کو ہم سنبھال نہیں سکتے حالانکہ یہ قدرت کی کتنی بڑی نعمت ہے جسے ہم اپنی نااہلی کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں جبکہ نکاسی آب کا بھی بندوبست ابھی تک نہیں کر سکے اس کے ساتھ عوام بھی اس خرابی میں برابر کی حصے دار ہے اپنے گھروں کے کچرے ،شاپنگ بیگ اور دیگر آلودگیوں سے سیورج کے نظام کو بند کر دیتے ہیں اور پھر بارشوں کے موسم میں گالیاں حکومت کو دیتے ہیں جہاں حکومت بہتر نظام فراہم نہیں کر سکی وہاں عوام بھی خود کو اچھا شہری ثابت کرنے میں ناکام ہے پھر درستگی کیسے ہو؟۔