Ali HassanColumn

توشہ خانہ کی نوازشات .. علی حسن

علی حسن

 

پاکستان میں حکمرانی کرنے والے نو دولت مند سیاست دان ایک بار پھراپنے اپنے ادوار میں قومی خزانے کو واضح مالی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے نظر آئے ہیں۔ یہ بات بہت واضح طور پر اس وقت سامنے آئی جب لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانہ انتظامیہ کو مجبور کیا کہ اسے قیام پاکستان کے وقت سے ملنے والے تحائف کی فہرست فراہم کی جائے۔ لیکن انتظامیہ صرف بارہ سال کا ریکارڈ پیش کر سکی۔ ایسا دانستہ کیا گیا یا ریکارڈ ہی غائب کر دیا گیا ہے؟۔ اکثر سیاست دانوں اور بڑے سرکاری افسران نے اپنی اپنی سرکاری حیثیت میں بیرون ملک دوروں کے دوران حاصل کئے گئے غیر ملکی تحائف خزانہ میں جمع کراکے انہیں نہایت کم قیمت یعنی صرف بیس فیصد رقم کی ادائیگی پر ذاتی طور پر خرید لیا۔ ممکن ہے کہ قانون میں اسی فیصد قم کی ادائیگی کا لکھا ہوا کسی خوشامدی افسر نے بیس فیصد پڑھا ہو۔ البتہ ایسے افراد کی بھی فہرست میں نشان دہی ہوئی ہے جنہوں نے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع ہی کرا دیا ۔ وفاقی حکومت کا عدالتی حکم پر توشہ خانہ کے تحائف کی خریداری سے متعلق بارہ سالہ ریکارڈ عوام کے سامنے آیا تو 466 صفحات پر مشتمل ریکارڈ کے مطابق بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ ہی نہیں دھوئے ہیں بلکہ بعض تو بڑے سیاست دان نہائے بھی ہیں۔ حکمران طبقہ جن عوام پر حکمرانی کرتے ہیں ان کی بڑی اکثریت روٹی کے ٹکڑے تلا ش کرتے پھر تی ہے اور حکمران بھاری بھاری مالیت کے تحائف کو ارزاں قیمت پر خرید کر اپنی اپنی پہلے سے بھری ہوئی تجوریوں میں ٹھونس رہے ہیں۔ سارا سوال ان کی نیتوں کا ہے۔ نہ ختم ہونے والی لالچ کا ہے۔ ان کی نیتیں اتنی خراب ہیں کہ بالی ووڈ کی ورسٹائل اداکارہ تاپسی پنوں کا یہ تبصرہ پاکستانی سیاست دانوں پر صادق آتا ہے کہ کوئی کچھ نہیں دیتا، بڑے ہی کنجوس ٹائپ لوگ ہیں ۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے توشہ خانہ سے تحائف لینے پر اپنے موقف میں کہا ہے کہ توشہ خانہ حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بطور وزیر پٹرولیم تحفہ واپس بھیجا تو کہا گیا کہ ہم واپس نہیں لے سکتے۔ توشہ خانہ والے خط لکھتے تھے کہ آپ کے نام پر یہ تحفے آئے ہیں، اتنی رقم جمع کرائیں تو تحفہ مل جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ تحفے ملٹری سیکریٹری کے پاس آتے ہیں، وہ تحفے توشہ خانہ بھیج دیتا ہے، توشہ خانہ کی چیزیں نیلام بھی اسی رقم پر ہوتی ہے، جو ہمیں بتائی جاتی ہے۔سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ قانون یہ رہا ہے کہ تحفہ آپ کو ملا ہے،بیس فیصد رقم ادا کریں، تحفہ مجھے ملا ہوتا ہے توشہ خانہ یا حکومت کو نہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ تحفے کرسی کو نہیں اس شخص کو ملتے ہیں جو اس کرسی پر بیٹھا ہو، ملک کا قانون ہے، جو تحفہ آتا ہے، اس شخص کی ملکیت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسے تحفے ہوتے ہیں جو عام طور پر بازار میں نہیں ملتے، تحفے کی اندازاً ویلیو لگائی جاتی ہے یہ چیز بازار میں نہیں ملتی۔سال2018 میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کودو کروڑپچاس لاکھ مالیت کی رولیکس گھڑی تحفے میں ملی جبکہ اپریل 2018 میں شاہد خاقان عباسی کے بیٹے عبداللہ عباسی کو پچپن لاکھ روپے مالیت کی گھڑی ملی۔ شاہد خاقان کے ایک اور بیٹے نادر عباسی کوایک کروڑ ستر لاکھ روپے مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی جو انہوں نے 33 لاکھ95 ہزار روپے جمع کروا کے اپنے پاس رکھ لی۔ 2018میں وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کو19لاکھ مالیت کی گھڑی ملی، گھڑی کی قیمت 9 لاکھ 74ہزار روپے توشہ خانہ میں جمع کروائی گئی۔ 2018 میں وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈئیر وسیم کوبیس لاکھ روپے مالیت کی گھڑی ملی، جو انہوں نے توشہ خانہ میں 3لاکھ 74 ہزار روپے جمع کروا کے اپنے پاس رکھ لی۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ توشہ خانے کا نیلام غلط ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ 30سال سے توشہ خانہ سے تحائف لینے والے ادائیگی کریں۔انہوں نے تجویز دی کہ توشہ خانہ سے تحائف لینے والوں کو پوری قیمت ادا کرنے کی ہدایت دی جائے جس پر ارکان نے اتفاق رائے کا اظہار کیا۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں نور عالم خان نے کہا کہ کیا ہم یہ ہدایت جاری کریں کہ ارکان جنہوں نے بھی تحائف لیے وہ ان کی پوری قیمت ادا کریں؟ان کا کہنا تھا کہ میرا یہ یقین ہے کہ تحائف لینے والے تمام لوگ خوشحال ہیں، کوئی بھی غریب نہیں۔ارکان کی جانب سے چیئرمین نور عالم خان کی تجویز کی بھرپور حمایت کی گئی اور چیئرمین نے کہا کہ آڈیٹر جنرل صاحب، آپ یہ رپورٹ دیں کہ قومی خزانے کو کْل کتنا نقصان ہوا۔
دوسرے خلیفہ حضرت عمر ؓ کے دور میں انہیں اطلاع ملی کہ ان کے نامزد کردہ مصر کے گورنر خوب تحائف وصول کرتے ہیں۔ آپؓ نے انہیں واپس طلب کر لیا اور ان سے سوال جواب کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ تحائف ان کی ذاتی حیثیت میں ملے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے انہیں عہدے سے سبک دوش کر کے جنگل میں بکری چرانے کی ذمہ داری دے دی۔ کچھ عرصہ بعد انہیں طلب کیا گیا اور سوال کیا گیا کہ کیا تحائف ابھی بھی آتے ہیں تو جواب ملا کہ نہیں جس پر انہیں بتایا گیا کہ تحائف شخص کو نہیں ریاستی عہدیدار کو ملتے ہیں اس کے وہ تحائف ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اور بیت المال میں جمع ہوتی ہیں۔ ایک مو قع پر گورنر نے آپؓ کی بیگم صاحبہ کو کوئی تحفہ پیش کیا، حضرت عمرؓ نے وہ تحفہ واپس کر دیا اور گورنر کو آئندہ کے لیے تنبیہ بھی کی۔ ایک موقع پر آپؓ کی بیگم نے مشرقی رومن سلطنت بازنطین کے شہنشاہ کی بیگم کو خوشبو تحفہ میں بھیجی ، تو جواب میں انہیں نے بھی کوئی تحفہ بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ نے تحفہ فروخت کر کے رقم سرکاری خزانہ میں جمع کرادی۔ اس تماش گاہ میں سال2023 میں حکومت نے 59 تحائف وصول کیے۔2022میں توشہ خانہ میں مجموعی طور پر224تحائف وصول ہوئے، 2021 میں توشہ خانہ میں116تحائف وصول ہوئے۔ کم مالیت کے بیشتر تحائف وصول کنندگان نے قانون کے مطابق بغیر ادائیگی کے رکھ لیے۔ توشہ خانہ میں پہنچنے والی اشیاء کو تو کسی عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھا جانا چا ہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کس ملک نے کس دور میں کس قسم کے کتنی مالیت کے تحائف دیئے تھے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ پاکستانی حکمرانوں نے پاکستان آنے والے مہمانوں کو کون کون سے کتنی مالیت کے تحائف پیش کئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button