ColumnImtiaz Ahmad Shad

پانی کا عالمی دن .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایاہے کہ ’’اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا‘‘۔پانی زندگی ہے اس حقیقت سے پانی کی اہمیت کے بارے میں پتا چلتا ہے اور فضول خرچی و ضیا ع کو اسلام نے نہ صرف سخت نا پسند کیا ہے بلکہ پانی پینے کا سنت طریقہ بھی بتا دیا۔پانی ہمیشہ بسم اللہ پڑھ کر پئیں۔پانی بیٹھ کراور دیکھ کر پئیں۔پانی دائیں ہاتھ سے پئیں۔ ہمیشہ ٹھہر ٹھہر کر تین سانسوں میں پئیں اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے دور رکھیں۔پانی پینے کے بعد الحمد اللہ پڑھیں۔اللہ کی اس خاص نعمت کو ضائع نہ کیا جائے۔حدیث ہے کہ’’پانی ضائع نہ کریں،چاہے آپ بہتے ہوئے دریا کے کنارے پر کھڑے ہوں‘‘ دسمبر 1992میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 22مارچ کو پانی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔تب سے اب تک ہر سال 22مارچ کو یہ دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔2023کے اس دن کا منشور ’’تیز رفتار تبدیلی‘‘ہے۔اس دن کا مقصد پانی کی اہمیت پر روشنی ڈالنا،اسے محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دینا ،اس کو ضائع ہونے سے بچانا اورموسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کو آلود ہونے سے بچاناہے۔دنیا میں اس وقت قریباً7ارب سے زائدافراد ہیں جن کی تعداد 2050تک قریباً 9 ارب ہو جانے کی توقع ہے۔ان سب کو اپنی بقا کے لیے روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس وقت دنیا میں 2 ارب سے زائد انسان ایسے ہیں جوکہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ویسے تو پوری دنیا پانی کی قلت کی وجہ سے پریشان ہے لیکن پاکستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہے۔عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ہر پانچ میں سے چار امراض پانی سے لگنے والی بیماریوں سے پیدا ہوتے ہیں۔جن میں سے اسہال بچوں میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔آلودہ پانی پینے سے پاکستان میں ہر سال 54 ہزار سے زائد بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔آلودہ پانی سے سانس کی بیماریاں،آنتوں کی سوزش، اسہال، جلدی امراض، غدود کا بڑھنا، ٹی بی، یرقان جیسے مہلک امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔پاکستان میں پانی کے معیار پر نظر رکھنے اور اس کا جائزہ لینے کا پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اداروں کا کمزور انتظام،لیبارٹریز میں سازو سامان کی کمی اور اس حوالے سے موثر قانون سازی کے فقدان نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق دنیا کے قریباً 400علاقے ایسے ہیں جہاں کے رہائشیوں کو شدید آبی مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5600کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کرقریباً 1000کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 2025تک 800کیوبک میٹر رہ جائے گا۔پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں موجود پانی کا نصف سے زیادہ حصہ استعمال ہو چکا ہے۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے آنے والے ماہ و سال میں مزید کئی ممالک پانی کی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں اور پانی کی یہ قلت لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام وکشیدگی جنم لے سکتی ہے۔پاکستان کی قریباً 80فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور گنداپانی پینے کی وجہ سے ہر سال کئی بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر اپنے پیاروں کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ جولائی 2017میں شائع کی گئی ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے جہاں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے۔آج کل ہمارے کئی دریا بھی خشک ہیں یا ان میں پانی کی سطح بہت کم ہے۔شہری آبادی ایک عرصے سے صاف پانی سے محروم تھی مگر اب تو دیہی علاقوں کوبھی صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔بد قسمتی سے ہماری حکومتیں اس آنے والی آفت سے مکمل طور پر غافل دکھائی دیتی ہیں۔گذشتہ دہائیوں سے ہر سو آواز بلند کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔2003 میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ 2025 سے 2030کے درمیان پاکستان کو پانی کی قلت کا اس قدر سامنا ہو گا کہ پانی ایک بحران کی شکل اختیار کر جائے گا،اور اب اس کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو چکے۔اس کے باوجود ہماری حکومتوں نے نا تو پانی زخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیم بنائے اور نہ ہی صاف پانی عوام تک پہنچانے کے لیے کو ئی بنیادی اقدامات کیے۔ اس حوالے سے اگر کوئی کام ہو ا ہے تو وہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں۔صاف پانی کے حصول کے لیے لوگوں کے بجٹ کا ایک خاصہ حصہ ہر ماہ صرف ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے نجی ادارے کام کر رہے ہیں ،سب سے نمایاں کام الخدمت فاونڈیشن کا ہے۔یہ فاونڈیشن ملک بھر میں ہر علاقے کی ضروریات کی مناسبت سے صاف پانی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔شہری علاقوں میں جدید واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب، تھر پارکر، اندرون سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں کنویں کھدوانے اور کمیونٹی ہینڈ پمپ لگانے کا کام، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں ’’گریوٹی فلو واٹر سکیم‘‘ اور بلوچستان میں کے ذریعے بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی جاری ہے۔عام آبادیوں کے ساتھ ساتھ جیلوں میں قید اسیران اور قوم کے مستقبل طلبہ و طالبات کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے جیلوں اور سکولوں میں صاف پانی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔حالانکہ یہ سب کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں مگر افسوس ہماری حکومتوں کی ترجیحات مختلف ہیں۔پاکستان کا نوے فیصد پانی کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پاکستان کا آبپاشی نیٹ ورک وہ نیٹ ورک ہے، جو کہ انگریز چھوڑ کر گیا تھا اور اب وہ اس قابل نہیں رہا کہ مذید کارگر ثابت ہو سکے ۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان ا یک ایسا ملک ہے جہاں پر ہمالیہ کے پہاڑوں کا ایک بڑاحصہ شامل ہے جو گلیشیرز پر مبنی پہاڑ ہیں جن سے نکلنے والے پانی کو اگر استعمال میں لایا جائے تو اس مسلئے سے نمٹا جا سکتا ہے پر پاکستان میں پانی کو محفوظ رکھنے والے صرف تین بڑے پانی کے ڈیم موجود ہیں پاکستان ہر سال 107رب ڈالر کی مالیت کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اس پانی کو کہیں محفوظ رکھنے کے قابل نہیں۔پاکستان کو اس وقت ایک منظم اور واضح واٹر پالیسی مرتب کر کے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف پانی کو مختلف اقسام میں بانٹے اور ہر قسم کو اس کے لحاظ سے پروسس کر کے اس کا استعمال عمل میں لائے اس کے علاوہ آبپاشی کے استعمال ہونے والے پانی کے لئے جدید طریقہ کار متعارف کروائے ورنہ امیر تو ہمیشہ کی طرح پانی خرید کر پھر بھی آرام کی زندگی گزار لے گا پر جو نوے فیصد غریب عوام ہے وہ اور بھی زیادہ پستی چلی جائے گی۔ زندہ رہنے کہ لئے پانی چاہئے اور جب پانی سونے کے بھاو بکے گا تو نہ تو غریب زندہ رہے گا نہ غربت، کہیں ہمارے حکمراں غربت مٹانے کی اسی راہ پر گامزن تو نہیں؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button