ColumnZameer Afaqi

بچوں اور خواتین پر تشدد ،حقوق اور دن .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

خواتین اور بچے ایسی مخلوق ہیں جو دنیا بھر میں عدم تحفظ کا شکار ہونے کے ساتھ مختلف النوع تشدد سے بھی دوچار ہیں، جن ملکوں میں قانون کی حاکمیت کا تصور راسخ ہے وہاں اس ضمن میں صورتحال زرا مختلف ہے لیکن جہاں ایسا نہیں ہے وہاں صورت حال بہت ہی بری ہے۔بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2022 میں ملک بھر میں 2 ہزار 123 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت بچوں پر تشدد میں 33 فیصد اضافہ ہوا، سال 2022 میں روزانہ کی بنیاد پر 12 سے زائد بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیاجبکہ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ آج ترقی کے اس جدید دور میں بھی ہم خواتین اور بچوں کو انسان سمجھنے کے روادار نہیں اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزیاں نظر آرہی ہیں ہم دیگر ممالک کا تو کیا ذکر کریں اپنے پیارئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 80 فیصد خواتین زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔ تشدد کی ا قسام کے بارے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیںجبکہ غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا بھی تشدد کے ہی زمرے میںآتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔رپورٹس بتاتی ہیں کہ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔ خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔
تشدد جنس کی بنیاد پرروا رکھا جانے والا ایسا جبر ہے جوعمل میں لایا جائے یا جسے عمل میں لائے جانے کی دھمکی دی جائے جو عورتوں کے لیے کسی جسمانی ، جنسی ، نفسیاتی ایذا یا مصیبت یا تکلیف کا سبب بنے یا ممکنہ طور پر سبب بن سکتا ہو۔ اس کے علاوہ کسی کی نجی یا عوامی زندگی میں کی جانے والی زبردستی یا کسی پنچایت کے ذریعے کسی کو اس کی آزادی سے محروم کرنا، اقوام متحدہ کے ’’عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ کے اعلامیہ‘‘ کے مطابق جنس کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے تشدد کی مستند تعریف مندرجہ بالاتشریح کو ہی وضع کرتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق ،جنس کی بنیاد پر کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ روا رکھے جانے والے بہت سے نقصان دہ روئیے شامل ہیں۔ جیسا کہ، بیوی پر جبر، جنسی حملہ ، جہیز کی بنیاد پر قتل، ازدواجی زنابالجبر اور قصداً لڑکیوں کی ناقص پرورش، جبری عصمت فروشی، عورتوں کے نازک اعضاء کا کاٹنا اور نابالغ بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد،جبری اسقاط حمل، مانع حمل اشیاء کا جبری استعمال، شیرخوار بچیوں کا قتل اور پسندیدہ صنف نہ ہونے پر حمل کا اسقاط جیسے افعال بھی عورتوں پر تشدد کے زمرے میں آتے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر تشدد کا صحت کے سنگین مسائل سے گہرا تعلق ہے جو عورتوں اوبچوں کومتاثر کر رہا ہے۔ جن میں چوٹ لگنا ، زچگی کے عمل میں بے ترتیبی ، ذہنی صحت کا انتشار، حمل کے ناموافق نتائج اور جنسی عمل کے ذریعے منتقل ہونے والے انفیکشن شامل ہیں۔ تشدد عورت کی صحت کو براہ راست متاثر کر سکتا ہے اور مستقبل میں عورت کی خرابی صحت کا باعث بن سکتا ہے۔ گھریلو تشدد میںخاندان کے اندر، ازدواجی تعلقات میں اور دیگر قریبی رشتوں میں گھریلو زیادتی کو پرانی اور سنگین بد سلوکی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ جس میں جذباتی طور پر ناروا رویہ رکھنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ نفسیاتی بد سلوکی ہمیشہ جسمانی استحصا ل کا باعث نہیں ہوتی تا ہم گھریلو رشتوں میں جسمانی بد سلوکی قریباً ہمیشہ ہی ذہنی یا نفسیاتی استحصال کا باعث بھی بنتی ہے۔ عورتوں کے تحفظ کے ساتھ حقوق کی فراہمی کے لیے قانون کے موثر نفاذ اور عمل کی ضرورت ہے۔اگرچہ موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے کام کررہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سوچ بدلی گئی یا اس قانون کے مطابق ان کی تربیت کی گئی۔ کیونکہ جو بھی عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے، اس کا سامنا سب سے پہلے پولیس سے ہوتا ہے اور ہماری پولیس کا رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔پولیس کے بعد ان کا سامنا ڈاکٹروں سے ہوتا ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ایسی خواتین کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کے حوالے سے قانون سازی کے باوجود خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اب پہلے سے زیادہ خواتین جبر کا شکار ہو رہی ہیں اور بد قسمتی سے ان پر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار بھی انہیں ہی ٹہرایا جاتا ہے۔گو کہ ہم ہر سال صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالے تشدد کے خلاف جدوجہد کی سولہ روزہ مہم کا اہتمام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 1999ء میں متعارف کرائی گئی یہ مہم دنیا بھر میں حکومتوں، اداروں اور لوگوں کو صنفی بنیاد پر ہونے والے ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کی ہنگامی ضرورت کی جانب متوجہ کرنے اور اِس سمت میں پیش رفت کرنے کیلئے ایک عالمی پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ دنیا بھر میں صنفی بنیاد پر روا رکھا جانے والا تشدد نسلی، سماجی ،معاشی اور مذہبی بنیادوں سے ماوریٰ ہے۔ یہ بشمول پاکستان اور امریکہ ہر ملک میں ہوتا ہے۔ کرہ ارض پر ہر تین میں سے ایک عورت کو مار پیٹ، جبری جنسی تعلق یا زندگی میں دیگر بدسلوکیوں کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں کم از کم تیس فیصد عورتوں کو اپنے قرابت داروں کے ہاتھوں اِس طرح کے تشدد کا سامنا رہا ہے۔ صنفی بنیاد پر کیا جانیوالا تشدد صرف عورتوں اور لڑکیوں کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔اس سے صحت عامہ، انصاف، معیشت اور بین الاقوامی سلامتی کیلئے کی جانیوالی پیش رفت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تک مظلوم عورت کو مجرم بنا کر پیش کرنے والی سوچ کا خاتمہ نہیں کریں گے،قانون سازی کے اثرات عام عورت کی زندگی میں نظر نہیں آئیں گے۔ دوسری جانب ہمارئے متعلقہ اداروں میں بیٹھے افراد کی سوچ اور ذہنت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button