ColumnM Anwar Griwal

مچھر اور مچھر دانی! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

مچھر کا ظہور کب ہوا؟ اِس بارے میں ہماری معلومات ناقص اور ادھوری ہیں، اگریہ کہا جائے کہ ہم نے اس سلسلے میں کوئی زیادہ تحقیقات کی بھی نہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ گمان یہی ہے کہ جب ہمارے جدّ ِ امجد جناب آدم علیہ السلام ملعون ابلیس کی اُکساہٹوں پر جنت سے نکالے گئے ، تو جِن آفاتِ ارضی نے اُن کو خوش آمدید کہا ہوگا ، مچھر بھی اُن میں سے ایک ہوگا اور کائنات کے پہلے انسان کی مشکلات میں اضافے کا موجب بنا ہوگا۔ انسان زمین پر ہے تو اُس کے بے شمار دُشمن بھی اِسی دھرتی کے باسی ہیں۔ انسان اپنے غیر انسان دشمنوں سے بچنے کے اسباب سوچتا اور بندوبست کرتا آیا ہے۔ کسی دشمن کو لاٹھی سے بھگانے کی ضرورت ہے تو کسی کو محض پائوں زمین پر مارکر ڈرانے کی اور بہت سے دشمن ایسے بھی ہیں کہ اُن کو ڈرانے یا بھگانے کی بجائے انسان کو خود ہی ڈرنا یا بھاگنا پڑ جاتا ہے۔ ترقی کے مراحل طے کرتے کرتے اب آدم ؑ کی یہ اولاد دشمنوں پر قابو پاتی جارہی ہے۔ مچھر کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں، اِس کو تو ایک پھونک مارنے سے بھی اپنے سے دور کیا جاسکتا ہے۔ جب بات ہو مچھر کے پَر کی ، تو اِس سے ہلکی، بے وزن اور بے وقعت چیز اور کیا ہوگی؟ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کیلئے مچھر کے پر کے برابر بھی اہمیت نہیں دی،یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں کشش اتنی ہے کہ ہم سمجھتے نہیں۔
مچھر چھوٹا اور بے حیثیت ہونے کے باوجود انسان کو بے بس کرکے رکھ دیتا ہے، گرمیوں میں رات ہوتی گئی، یہ اپنے’سازو سامان‘ کے ساتھ آدھمکتا ہے۔ اندھیرے میں دکھائی بھی نہیں دیتا، اور ہر طرف سے حملہ آور ہوتا ہے، انسان اگر بے دھیانی میں کسی کھلی جگہ پر بیٹھا ہے تو کچھ ہی دیر میں ٹخنے پر کُھجلی شروع ہو جائے گی، جہاں موصوف نے ٹیکا لگا دیا وہاں دسیوں منٹ تک تو خارش نہیں جاتی۔ ابھی پہلی خارش جاری ہوتی ہے کہ دوسرے پائوں پر بھی کارروائی کر گیا۔ تھوڑی دیر میںہاتھ کی پشت پر آپ کو خارش کی مصروفیت مل جائے گی۔ اِس کی آمد کی اطلاع صرف اُس وقت اور اُس صورت میں ہوتی ہے جب یہ کان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے، ہاتھ، پائوں اور چہرے پر تو یہ وار کرتا رہتا ہے، مگر اِسے خود بھی صدیوں کی ریاضت کے بعد یہ انداز نہیں ہو سکا کہ وہ انسان کے کان کے پاس نہ آئے، بہرحال کان کے پاس آنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسان زور سے ایک ہوائی تھپڑ رسید کرتا ہے، اگر مچھر کو لگ گیا تو وہ دور تک جائے گا اور نہ لگا تو کوئی بات نہیں یہی تھپڑ بسا اوقات خود اپنے کان پر بھی لگ جاتا ہے۔
انسان کو بڑا بہادر اورذہین ہونے کا زعم ہے، مگر ایک نہایت ہلکے اور کمزور مچھر نے اِسے لاچار کرکے رکھ دیا ہے۔ مچھر سے بچائو کیلئے اور تو وہ کچھ نہ کر سکا، آخر مچھر دانی کا ایک سُوتی قلعہ تیار کیا، خود کو اُس کے اندر بند کر لیا۔ جالی دار کپڑے کا ایک چھوٹا سا کمرہ، کہ جس کا سائز چارپائی کے برابر ہی ہوتا ہے۔ اس کے چاروں کونوں کے ساتھ ہلکے وزن کے ڈنڈے باندھے جاتے ہیں، جنہیں چارپائی کے چاروں پائیوں کے اندر کی طرف مخالف سمت میں پھنسا دیا جاتا ہے، جس سے مچھر دانی تَن جاتی ہے، اس کی اونچائی اتنی ہی ہوتی ہے کہ چارپائی پر بیٹھے (دبکے) ہوئے انسان کا سر بھی مچھر دانی کی چھت سے لگ رہا ہوتا ہے۔ اپنے قلعے کی فصیلیں یوں محفوظ بناتا ہے کہ مچھر دانی کے تمام کنارے اپنے بستر کے نیچے دباتا ہے، کہ کہیں سے کوئی مچھر اندر داخل نہ ہو نے پائے۔ خود ہمارے ساتھ ایک مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ چھت پر چارپائی رکھ کر ہم نے مچھر دانی لگائی اور سو گئے، بس نیند آئی ہی تھی کہ مچھر نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا ، اِدھر ٹخنے پر خارش، اُدھر ہاتھ پر کھجلی، اِدھر پائوں پر ٹیکا ، اُدھر ماتھے پر حملہ، یہاں سے وہاں تک حملے ہی حملے، خارش ہی خارش۔ خُدا خُدا کرکے رات گزاری، صبح دیکھا تو مچھر دانی کے اندر چاروں کونوں میں موٹے موٹے مچھر جمع تھے،( یہ کہانی الگ ہے کہ وہ رات بھر ہمارا خون پی پی کر مشکیزا بن رہے تھے) اور مچھر دانی کی قید سے چھٹکارا پانے کیلئے باہر جانے کیلئے کوشاں تھے۔ اب ہماری باری تھی، بس مچھر دانی کو کھول کر سمیٹنے کی بجائے بس یوں ہی چھوڑ کر چھت سے اتر آئے، اور اپنے کام پر چلے گئے، رات کو بس بستر اور مچھر دانی جھاڑ کر دوبارہ تان لی، کہ اُن غاصبوں میںسے کوئی مچھر بھی زندہ نہ بچا تھا۔
اس بات پر ہماری حیرانی نہیں جاتی کہ مچھر دانی کے وزن پر سُرمے دانی، چائے دانی، نمک دانی، صابن دانی وغیرہ میں تو وہی چیز پائی جاتی ہے جس کے نام سے وہ مشہور ہے، مگر مچھر دانی میں تو مچھر نہیں پایا جاتا، بلکہ یہ تو مچھر سے بچائو کیلئے بنائی گئی ہے، پھر اسے مچھر دانی کس معنی میں کہا جاتا ہے؟ ممکن ہے کسی محقق نے اِس تحقیق پر اپنا قیمتی وقت لگایا ہو، مگر ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی اور نہ ہی ایسی کوئی تحقیق ہماری نظر سے گزری ہے۔ مچھر دانی کی کہانی بھی اُس وقت تھی جب دیہات میں بجلی نہیں ہوتی تھی، لوگ کھلے صحنوں یا پھر چھت پر سوتے تھے اور مچھر میاں کو حملہ آور ہونے کی دعوتِ عام ہوتی تھی، وہ سونے والوں کا خوب خون چوستا تھا، سوائے اُن کے جو مچھر دانی کی پناہ میں ہوتے تھے۔ اب تو بجلی کے پنکھے چلتے ہیں، جو مچھر اور گرمی دونوں کو بھگانے کے کام آتے ہیں۔
حضرتِ انسان نے مچھر سے بچائو کیلئے بہت سی زہریلی ادویات کے ساتھ ساتھ بجلی سے استعمال ہونے والے ایسے آلات ایجاد کر لیے ہیں جو مچھر کو پکڑنے، مارنے یا کم از کم بے ہوش وغیرہ کردینے کا کام کرتے ہیں۔انسان کے ان انتظامات کے پیشِ نظر مچھر نے بھی بہت ترقی کر لی ہے، پہلے تو مچھر کے کاٹنے سے کہا جاتا تھا کہ ملیریا ہوگیا، کبھی ملیریا بگڑ جاتا تو ٹائیفائیڈ بن جاتا یا ٹائیفائیڈ بگڑنے پر حالات مزید خراب ہو جاتے۔ مگر اب جب انسان مچھر دشمنی میں بہت آگے تک چلا گیا ہے، مچھر نے بھی بہت سی پیش بندی کر لی ہے، اب وہ ڈینگی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور جس کو لڑتا ہے، اُسے اگلی منزل دکھا دیتا ہے۔ کئی برس سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ حکومت بھی اِس کی روک تھام کیلئے بہت سے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ بندوبست کر رہی ہے، مگر ڈینگی مچھر بھی بہت سنجیدگی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ڈینگی زدہ مریضوں کو جب ہسپتال داخل کروایا جاتا ہے تو وہاں وارڈ میں بھی مچھر دانی تانی جاتی ہے، یعنی مچھر سے بچائو کیلئے اب بھی آخری اور اصلی حل مچھر دانی ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button