ColumnNasir Sherazi

مہلت ختم ہی سمجھئے! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

بات وہیں سے شروع کرتے ہیں، جہاں گذشتہ کالم میں ختم ہوئی تھی مختلف سیاسی جماعتوں کے زمانہ اقتدار میں ان کے ہر اول دستے میں نظر آنیوالا سیاسی کارکن زمانہ زوال میں ہر سیاسی جماعت پر تین حرف بھیجتا نظر آیا لیکن دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ایک تاریخی فقرہ کہہ کر اپنے تمام سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کرگیا۔ فقرہ دہرائے دیتا ہوں، ضمیر اختر سے میں نے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، اس نے نقاہت بھری آواز میں جواب دیا، ضمیر کو تو بہت پہلے میں نے مار دیا تھا اب اختر ہی مرنے والا ہے، پھر وہ مرگیا لیکن اہم سوال پیچھے چھوڑ گیا کہ اُسے اپنا ضمیر مارنے پر کن لوگوں نے مجبور کیا پھر وہ مردہ ضمیر کے ساتھ یا یوں کہہ لیجئے کہ اپنے ضمیر کی لاش اٹھائے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا، سیاسی کارکنوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا ضمیر اختر ایک ایسا کردار ہے جو ہر سیاسی جماعت میں نظر آتا ہے، صرف کارکنوں میں ہی نہیں ممبران پارلیمنٹ میں بھی، ملک بھر میںگنتی کے چند افراد ہیں جنہوں نے جس سیاسی جماعت یا نظریے کے ساتھ جڑ کر سیاسی زندگی شروع کی وہ آج بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں، بیشتر کا معاملہ وہی ہے جو مرحوم ضمیر اختر کہہ گیا ہے، فردوس عاشق اعوان، خرم لغاری، نذیر خان اور دوست محمد مزاری تحریک انصاف چھوڑ چکے۔ اب آتے ہیں حال کے منظر نامے کی طرف۔ لاہور کے بعد اسلام آباد میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان گھمسان کارن پڑ چکا، تحریک انصاف کے کارکن پولیس کی چھترکاری کرتے رہے لیکن عدالتی حکم کی تعمیل کرانے کیلئے آنے والے ایک کے بعد دوسرا رخسار سامنے کرتے نظر آئے ایک حساس ادارے کے افسر سے بے تکلفی ہے، میں نے پوچھا اس خاطر مدارت کے بعد منہ کا ذائقہ کیسا ہے کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے ہم نے ملک کو ایک بہت بڑی سازش اورکشت و خون سے بچایا ہے۔ حیرانی سے پوچھا وہ کیسے، کہنے لگے منصوبہ یہ تھا کہ پولیس اور رینجرز عدالتی احکامات کی تعمیل کیلئے آئیں گے تو یقیناً غیر مسلح ہوں گے، ایسا ہی تھا، کسی کے پاس اسلحہ نہ تھا، ڈنڈے ضرور تھے، زمان پارک سے ملنے والے گولیوں کے خول، کہیں اور سے منگواکر پیش کیے گئے، آنسو گیس اور واٹر کینین ضرور تھا جو استعمال ہوتا نظر آیا، زمان پارک میں داخل ہونے کے بعد خان ہائوس کے اندر سے اطلاع ہی نہیں بلکہ ویڈیو سامنے آگئی کہ گلگت بلتستان سے آئی ہوئی پولیس اور خیبر سے منگوائے گئے کارکن مسلح موجود ہیں، پولیس آگے بڑھتی تو اندر سے گولی چلتی کچھ پولیس والے اور سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے خان ہائوس میں موجود افراد اس کی زد میں آکر مارے جاتے پھر یہ لاشیں صوبہ خیبر لے جاکر بتایا جاتا کہ پنجابیوں نے پختونوں کو بے دردی سے ماردیا ہے، کچھ لاشیں گلگت بلتستان لے جائی جاتیں اور ملک بھر میںسوشل میڈیا کے ذریعے طوفان برپا کردیا کہ مقتولوں کی جانوں اور ان کے خون کا حساب لیا جائے گا اور بات بدلے پر ختم ہوگی، یوںملک فسادات کی لپیٹ میں آجاتا، مزید لاشیں گرتیں اور ہاتھ سے نکل چکی حکومت حاصل کرنے کیلئے صوبہ خیر، گلگت بلتستان کے باسیوں سے اپیل کی جاتی کہ ان بے گناہوں کا انتقام اسی صورت لیا جاسکتا ہے کہ اب ہمیں صد فی صد اکثریت دلائی جائے یوں پاکستان بھر میں کہیں اور حکومت ملتی یا نہ ملتی ان علاقوں اورصوبہ خیبر پختونخوا میں ضرورمل جاتی پھر وہاں بیٹھ کر باقی کا گھنائونا کھیل کھیلا جاتا، پاکستان دشمن ہمسایہ ملک اس میں پورا پورا حصہ ڈالتا، وہاں سے مالی امداد، اسلحہ اور میڈیا کے ذریعے پاکستان میں مزید انتشار پھیلایا جاتا جس کا حتمی اثر پاکستان کی معیشت پر پڑتا اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کو غیر محفوظ ملک ثابت کرتے ہوئے اسے گرے لسٹ میں ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کی جاتی۔
حکام نے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا ملک ایک بڑے خون خرابے سے بچ گیا، لیکن سازشی عناصر ابھی اپنے مذموم ارادوں سے باز نہیں آئے وہ ملک دشمن ہاتھوں میںکھیل رہے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والی جھڑپوں میں سترسے زائد پولیس اہلکار زخمی ہیں،ان پر پٹرول بم پھینکے گئے جس کا ذکر تحریک انصاف کی سابق وزیر صحت اپنے فون پر کرچکی ہیں صدر پاکستان سے ان کی گفتگو منظر عام پر آچکی ہے کسی نے یہ نہیں کہا کہ فیک کال ہے، یاسمین راشد کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اوردیگر کئی لیڈر خان صاحب کے سامنے سچی بات کہنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ وہ کسی کی نہیںسنتے اور اختلاف کرنے والے کو اس کی تمام تر بے لوث وابستگی کے باوجود اپنے سے دور کرنے میں ایک لمحے سے زیادہ وقت نہیں لگاتے، وہ سمجھتے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ عقلمند ہیں وہی دوربین نگاہ رکھتے ہیں اور وہی ملک کے مقبول ترین لیڈرہیں، ان باتوں کی قلعی ایک اور آڈیو لیک سے کھل جاتی ہے جس میں یاسمین راشد یہ بتارہی ہیں کہ خان کا حکم ہے کہ بندے لیکر آئو لوگ گھروں سے نہیں نکل رہے، جو لیڈر بندے لیکر نہیں آئے گا وہ اس کو ٹکٹ نہیں دیں گے، ایک مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ لاہور میں ہزاروں ساتھی زمان پارک نہیں پہنچے، اس لیے گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر سے لوگوں کو لایاگیا، تحریک انصاف کے ملنگ بلال عرف ظل شاہ کی موت کے بعد مائوں نے اپنے بیٹوں اور بہنوں نے اپنے بھائیوں کے قدموں میں دو پٹے ڈال دیئے کہ ہم تمہیں موت کے منہ میں نہیں جانے دیں گے، تم تو خان کی جان کی حفاظت کرو گے تمہاری جان کی حفاظت تو بہت دور کی بات، تمہارے جنازوں میں بھی خان نہیں آئے گا۔
زمان پارک میں سیاسی کارکنوں اور پولیس کے درمیان پہلے روزہونے والے تصادم کے بعد زمان پارک کی سیاسی رونق کو دوبالاکرنے والے سیاسی آنٹیاں پھر وہاں نظر نہیں آئیں، وہ کئی کلو میٹر دورکھڑے ہوکر اپنی سیلفیاں بنابناکر سوشل میڈیا پر ڈالتی رہیں اورکارکنوں کے حوصلے بڑھاتی رہیں جبکہ بیشتر کارکن بھی گھر بیٹھ کر اسی انداز میں جدوجہد کرتے نظر آئے، وقت کتنی جلدی بدل گیا ہے، کل تک عمران خان کہتے تھے میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، آج کہتے ہیں یہ سب مجھے نہیں چھوڑیں گے، وہ چھبیس سال قانون کے احترام اور سب امیروں اور غریبوں کیلئے ایک قانون کی بات کرتے رہے، آج وہ قانون کے سامنے پیش ہونے سے گریزاں ہیں، عدالت انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے درجنوں موقعے دے چکی ہے مگر وہ کہتے ہیں میں عوامی عدالت کے فیصلے پر یقین رکھتا ہوں، اب کہتے ہیں مجھے ماردیا جائے گا،وہ کچھ زیادہ ڈر گئے ہیں یا اپنے ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ایسی باتیں کرتے ہیں، انہیں آج نہیں تو کل بہرحال اپنے آپ کو عدالتوں کے روبرو پیش کرنا ہوگا، فنڈنگ کیس ان کی مخالف حکومت نے نہیں بنایا بلکہ تحریک انصاف کے فائونڈر ممبر نے بنایا ہے اور دس برس پرانا ہے، تحریک انصاف دس برس سے التوا لیتی رہی ہے مگر اب مہلت ختم سمجھئے، ان کے وکلا الیکشن کمیشن کے روبرو اپنا جرم تسلیم کرچکے ہیں پھر معافی کیسی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button