ColumnJabaar Ch

زمان پارک ۔۔ جبار چودھری

جبار چودھری

زمان پارک

سارے فساد کی جڑیہ پیشی ہے جس کے نتیجے میں عمران خان پر فردجرم لگنی ہے ۔عمران خان توشہ خانہ کے کرپٹ پریکٹسزکے کیس میں فرد جرم سے بچنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔وہ جتنا چاہے کہتے رہیں کہ حکومت ان کو گرفتارنہیں بلکہ مارنا چاہتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ عمران خان کو اب تک تمام مقدمات میں چاہے وہ سادہ ہوں یا انسداددہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہوئے سب میںہی ضمانت ملی۔ کسی عدالت نے حفاظتی ضمانت دی تو کسی نے کیس ہی ختم کردیا ۔جس کیس کی وجہ سے زمان پارک کودومرتبہ میدان جنگ بنایا گیا اس میں آپ کو لگتا ہوگا کہ پولیس غلط ہوگی ۔عین ممکن ہے کہ پولیس طاقت کے استعمال میں غلط ہو لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اس طاقت کے استعمال کا جواز توعمران خان نے ہی دیا ہے۔
عمران خان چاہتے تو اس پتھربازی سے بچا جاسکتا تھا۔ آگ کے کھیل سے محفوظ رہا اوررکھا جاسکتا تھا۔ بس وہ اس کیس میں بھی باقی مقدمات کی طرح کم از کم ایک بار پیش ہوجاتے ۔ اپنی حاضری لگواتے فرد جرم سنتے اس کی صحت سے انکار کرتے اور واپس آجاتے باقی کیس تو ان کے وکلا نے ہی لڑنا ہے وہ لڑتے رہتے لیکن ان کو معلوم ہے کہ فرد جرم لگ گئی تو ٹرائل کا آغازہوجائے گا اورجس تسلی بخش رفتار سے یہ مقدمہ آگے بڑھ رہا ہے اور پی ٹی آئی کی طرف سے سیشن جج ظفر اقبال صاحب کے خلاف زہر آلود مہم شرو ع ہے اس سے لگتا ہے کہ اس کیس کا نتیجہ کوئی اچھا نہیں نکلنے والا۔ یہی وہ کیس ہے جس میں الیکشن کمیشن عمران خان کو مجرم قراردے کر ان کو نااہل کرچکا ہے ۔اب عمران خان پر کرپٹ پریکٹسز کا فوجداری مقدمہ چلایا جارہا ہے، اس مقدمے کی سزا کم ازکم تین سال قید اور پانچ سال کے لیے سیاست سے نااہلی ہے ۔ یہ مقدمہ فی الحال عمران خان کی دُکھتی رگ ہے اس لیے وہ فرد جرم سے فرار کی راہ تلاش کررہے ہیں ۔
اخلاقیات کا اندازہ آپ یہاں سے لگالیں کہ جو عمران خان اس وقت فرد جرم سے بھاگ رہے ہیں وہی عمران خان، شہبازشریف کی فرد جرم سے بھاگ دوڑ کا مذاق اڑاتے تھے ۔ ان کی کمر دردکا مذاق بناتے تھے اب وہی عمران خان فرد جرم سے بچنے کی کوشش میں زمان پارک کو پٹرول بموں کے حوالے کرنے تک آگئے ہیں۔آج اٹھارہ مارچ ہے اور آج عمران خان کی پیشی کی تاریخ ہے۔اب عمران خان کے پاس عدالت سے فرار کا کوئی ظاہری راستہ بچا نہیں کیونکہ جمعرات کے دن انہوں نے لاہور سے لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر وہاں سے دوبارہ اسی عدالت تک بھاگ دوڑجاری رکھی لیکن کسی بھی عدالت نے انہیں ریلیف دیا اور نہ ہی وارنٹ منسوخ یا معطل ہوئے۔آخری فیصلہ بھی عمران خان کے خلاف ہی آیا اس لیے اب انہیں پیش ہونا ہے۔
میرے مطابق تمام ترپچاسی مقدمات کے باوجود عمران خان کے پاس بہت سے قانونی راستے موجود تھے اور قانون ان کو راستہ دے بھی رہا تھا۔ ان پر مقدمہ ہوتا تو وہ حفاظتی ضمانت کے لیے جس عدالت میں جاتے انہیں ضمانت مل جاتی۔ حکومت کے پاس مقدمے درج کرانے کا اختیار تھا وہ اس کو استعمال کیے جارہی تھی عمران خان کے پاس عدالتی ریلیف کا راستہ تھا وہ اس کو استعمال کیے جارہے تھے۔معاملہ یہاں آکرخراب ہواجب توشہ خانہ کے کیس میں انہوں نے پہلی بارپیشی سے انکارکیا۔ ایک بار عمران خان نے میڈیکل سرٹیفکیٹ دیا عدالت نے مان لیا۔ دوسری بار پھر عمران خان نے کہا کہ ان کی ٹانگ ابھی ٹھیک نہیں ہوئی ۔عدالت نے تھوڑی سختی دکھائی لیکن مہلت دے دی۔مارچ کے آغاز میں عدالت نے سختی شروع کردی۔ عدالت نے تیرہ مارچ کے لیے ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کو اس کیس کی تپش محسوس ہونا شروع ہوگئی ۔آٹھ مارچ کو پی ٹی آئی نے لاہور میں ریلی کا اعلان کیا تو دفعہ چوالیس لگادی گئی ۔اس دن پولیس اورپی ٹی آئی کے کارکنوں میں مدبھیڑ ہوئی جس کے نتیجے میں ظل شاہ بھی جاں بحق ہوا۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں وارنٹ چیلنج کردیے ۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست مان کر تیرہ مارچ کی پیشی کی یقین دہانی پرمہلت دے دی۔تیرہ تاریخ آئی ۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عمران خان پھر غیر حاضر پائے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یقین دہانی کے باوجود عمران خان اسلام آباد نہ گئے ۔ اس دن انہوں نے لاہور میں ریلی نکال لی۔عدالت کا غصے میں آنا فطری بات تھی۔سیشن جج نے اٹھارہ تاریخ کے وارنٹ جاری کردیے ۔اب پولیس حق بجانب تھی کہ وہ عمران خان کو گرفتارکرکے پیش کرے۔اسلام آباد پولیس آئی۔اب سب سے آسان اور تمام مشکلات سے بچنے کا حل تو یہی تھا کہ عمران خان جو دو نہیں ایک پاکستان کے داعی ہیں۔ قانون کی بالادستی کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ہمیں ریاست مدینہ کا درس دیتے
ہیں۔ خود عمران خان اس پر عمل کرتے ۔قانون غلط کررہا تھا یا ٹھیک اس کو بعد میں دیکھتے پہلے قانون کے سامنے سرجھکاتے۔ سرنڈر کرتے اور سامنے آکر اپنی گرفتاری پیش کردیتے ۔ اگر کوئی جذباتی کارکن گڑبڑکرنے کی کوشش کرتا تو اس کو منع کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔انہوں نے قانون کے سامنے سرجھکانے کے بجائے اپنی تعلیمات اور تبلیغ کے بالکل الٹ فیصلہ کیا۔ زمان پارک پہنچو کی آوازیں شروع کردی گئیں۔ ٹکٹوں کے بدلے لوگوں کو بلانا شروع کردیا۔ اب الیکشن کے لیے ٹکٹیں تو سب کوچاہئیں اس لیے کارکن آتے گئے ۔اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ گلگت بلستان کی پولیس گیٹ کے باہر۔ خیبر پختونخوا سے ان کے سخت جان کارکن ۔پٹرول بم بنانے اور چلانے کے ماہر لوگ۔ پولیس نے کوشش کی لیکن جو ان کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے۔زمان پارک آگ و خون کی بارش۔ سانس لینا مشکل ۔پولیس دو قدم آگے چار قدم پیچھے ۔رینجرزتک آگے آگے اور کارکن پیچھے پیچھے۔سب کچھ چوبیس گھنٹے تک چلتا رہا لیکن عمران خان نے کوئی کوشش نہیں کی کہ اس معاملے کو ختم کریں ۔ان کو مزاحمت سُوٹ کرتی تھی سو انہوںنے وہ راستہ لیا۔ریاست کے سامنے کھڑے ہوگئے۔خود پیچھے خواتین اور باقی کارکن آگے۔ لاہورہائی کورٹ میں گئے تو عدالت نے پولیس کو روک دیا۔دوسرے دن بھی روک دیا ۔اس سارے قصے میں جھگڑا صرف ایک عدالتی حاضری کا تھا۔ اگر حاضری ہوجاتی تو نہ کوئی پولیس اہلکار عمران خان کے گھر آتا، نہ عمران خان کے وارنٹ نکلتے اور نہ ہی زمان پارک میں آگ اورخون کا تماشا لگایا جاتا۔جو بھی ہوا انتہائی افسوسناک تھا۔کسی کو بھی اس بات سے اختلاف یا اتفاق ہوسکتاہے کہ عمران خان پر مقدمے ٹھیک ہیںیا غلط۔یہ قانونی معاملہ ہے اور اس کا راستہ بھی قانونی طورپرہی نکالا جانا چاہئے تھا لیکن قانون کے راستے میں تشدد کو حائل کرنا قطعاً جائز نہیں تھا۔نہ یہ اس وقت جائز تھا جب سانحہ ماڈل ہوا۔ نہ اس وقت جائز تھا جب فیض آباد میں ٹی ایل پی کا دھرنا تھااور نہ ہی اس وقت جائز تھا جب ٹی ایل پی نے عمران خان کے دورمیں احتجاج کیے ۔
آپ ریاست کو طاقت کے استعمال میں غلط کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ طاقت کے استعمال کو دعوت عمران خان صاحب نے دی ہے۔ جو کچھ زمان پارک میں ہوا اس سے ملک کی بہت ہی بری اور بھیا نک تصویر پوری دنیا میں گئی ۔ یہ بہت غلط ہوا ۔کیا ہم غلطیوں پر غلطیاں کرنے کے لیے ہی محنت کرتے رہیں گے۔ کیا ہماری نسلیں انہی دائروں کے سفر میں رہیں گی ۔۔۔؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button