ColumnImtiaz Aasi

فیصلہ سازی کا فقدان ۔۔ امتیاز عاصی

امتیازعاصی

فیصلہ سازی کا فقدان

پنجاب کی موجودہ کشیدہ صورت حال میںیہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پنجاب حکومت میں فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔عوام کے مقبول سیاسی رہنما کی گرفتاری کے لیے رینجرز، پولیس جانے کون کون سی فورسزجمع کرکے تماشا لگانے کی کیا ضرورت تھی ۔عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی ورکرز اور گلگت بلتستان کی پولیس کی موجودگی کے باوجو دو تین اعلیٰ پولیس افسران سفید پارچات میں عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں گرفتاری دینے کے لیے قائل کر سکتے تھے۔پنجاب حکومت نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن کا طریقہ کار اختیار کرکے صورت حال خراب کرنے میں پہل کی۔ ایک مقبول رہنما کی گرفتاری کے لیے کوئی پرامن راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان کی رہائش گاہ 3پر دھاوا بول کر حالات کو کشیدہ کئے ورنہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران میں اہلیت ہوتی تو حالات کبھی کشید ہ نہ ہوتے اور عمران خان گرفتاری دے دیتے۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک تمام سیاسی رہنما کسی نہ کسی مقدمہ میں گرفتار ہوئے جنہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پر امن طریقہ سے گرفتاری دے دی ۔ عمران خان بوجہ علالت برضمانت تھے جنہوں نے ریلی کی قیادت کرکے علالت کا عذر غلط ثابت کر دیاجس کے بعد عدالت کو ان کے وارنٹ گرفتاری نکالنے پڑے ۔ تعجب ہے کہ عمران خان کے مشیران کی فوج ظفر موج انہیں درست اور قانونی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے ۔عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار کے باوجود عدلیہ انصاف کے تقاضوں پر ملحوظ رکھتے ہوئے مقدمات میں ضمانتیں دے رہی ہیںجس کامطلب جج صاحبان جانتے ہیں حکومت عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے پر تلی ہوئی ہے لہٰذا ایسی صورت حال میں سابق وزیراعظم کو کواپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں وزیرآباد کے جلسہ میں جس طرح ان پر گولیاں چلائی گئیں اور ملزمان باہر پھر رہے ہوںاور حکومت ان کی سکیورٹی کے لیے تیار نہ ہو تو ایسی صورت حال میں ان کا ہر روز عدالتوں میں پیش ہونا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے ۔دراصل حکومت الیکشن کرانے کو تیار نہیں تھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کو موخر کرنے کا حکومت کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔اب دونوں صوبوں میں امن وعامہ کی خراب صورت حال کا بہانہ بنا کر وزیراعظم شہباز شریف نے ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال دی ہے۔تعجب ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے وفاق اورصوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں ہیں اور امن وامان قائم رکھنا انہی کی ذمہ داری ہے ایسے میں الیکشن کمیشن حالات کو درست رکھنے کے ذمہ داری کیسے اٹھا سکتا ہے؟
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کسی صورت میں انتخابات نہیں کرائیں گے بلکہ جے یو آئی کے امیر فضل الرحمان نے پہلے کہہ دیا تھا کہ حکومت کی مدت میں توسیع ہو سکتی ہے گویا پی ڈی ایم کے سربراہ کا یہ بیان نتخابات نہ کرانے کی طرف واضح اشارہ تھا۔یہ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کی تاریخ حکومت کی مجبوری بن گیا ورنہ حکومت کسی صورت میں الیکشن کرانے کو تیار نہیںتھی پی ڈی ایم کی تینوں بڑی جماعتیں جمہوریت کی علمبردار ہیں بدقسمتی سے ان جماعتوں میں جمہوریت والی ایک بات بھی نہیں۔پارٹی انتخابات دیکھ لیں عشروں سے پارٹیوں کی باگ ڈور انہی خاندانوں کے ہاتھ میں ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندرونی حالات ایسے ہوں تو اقتدار میں آنے کے بعد وہ انتخابات کا راستہ کیسے اختیار کر سکتے ہیں؟بشمول پی ٹی آئی کے کوئی جماعت ایسی نہیں جو مقتدرہ کی حمایت کے بغیر اقتدار میں آئی ہو۔
مستقبل قریب میں یہی صورت حال رہی تو جمہوریت اور انتخابات کا ڈرامہ رچانے کی چنداں ضرورت نہیں۔دونوں صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل اور وفاق میں ایون سے استعفیٰ دینے کے باوجود پیسوں کا بہانہ بنا کر الیکشن نہ کرانے کا عذر پیش کرکے عوام کو بیوقوف بنایاجا رہا ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے پے درپے اقتدار میں رہ کر عوام کو یرغمال بنائے رکھا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جدوجہد کے نتیجہ میں ملک کے غریب عوام کودونوں جماعتوں کے چنگل سے نکلنے کا راستہ بتا دیا جس میں وہ بہت حد کا میاب ہوئے ہیں۔ حالات اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے پاس عمران خان کے بیائنے کا کوئی قابل قبول توڑ نہیں ہے ۔ عوام ان دونوں جماعتوں چنگل سے نکلنے کے خواہاں تھے انہیں عمران خان کے علاوہ کوئی اوررہنما دور دور تک نہیں دکھائی دے رہا تھا جو ملک وقوم کے مسائل کا کوئی شافی حل نکال سکے۔ عمران خان کو گرفتاری سے بچنے کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر طعنہ دینے والوں کو اپنے محبوب لیڈر کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے جو کئی سالوں سے مفرور ہے۔نواز شریف کو گرفتاری کا خوف نہ ہوتا وہ کب کا وطن واپس آچکا ہوتا جیل جانے کے خوف نے اسے بیرون ملک رہنے پر مجبور کردیاہے۔
سیاست دان آئین اور قانون کی باتیں کرتے ہیں۔ آئین اور قانون پر عمل کا وقت آئے تو اس پر عمل نہ کرنے کی تاویلیں نکالنے سے گریز نہیں کرتے۔ سیاست دانوں نے آئین اور قانو ن کو گھر کی لونڈی بنا لیا ہے جب چاہیں اس پر عمل کرلیں اور عمل نہ کرنے کے لیے بہانے تراشنا سیاست دانوں کا وطیرہ بنا گیا ہے۔عدالت نے عمران خان کو18 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے دوسری طرف الیکشن میں تاخیر کی صورت میں عمران خان نے تحریک چلانے کا اعلان کیا اور خدشہ ظاہر کیا ہے ان کی گرفتاری عدالت میں پیشی کے لیے نہیں بلکہ انہیں مارنے کے لیے ہے ۔عوام کا ایک مقبول لیڈر جب بار بار دہائیاں دے رہا ہے اسے قتل کر دیا جائے گا تو اسے زندگی کا تحفظ دینا بھی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔بہرکیف پنجاب حکومت میں فیصلہ سازی کی اہلیت ہوتی تو حالات کبھی کشیدہ نہ ہوتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button