ColumnNasir Sherazi

ضمیر کے بعد اختر کی موت .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

مکر کرنا، فریب دینا، بہروپ بھرنا، بری باتیں ہیں ، اہل لاہور نے ان بری باتوں کو رنگ بازی کا نام دے رکھا ہے، لاہور نے بڑے بڑے رنگ باز پیدا کیے ہیں۔ مال روڈ کو ہمیشہ سے لاہور کے دل کا درجہ حاصل رہا ہے۔ جنگ ستمبر 65 کے بعد ریگل چوک میں مسجد تعمیر ہوئی جسے شہدا سے اظہار یکجہتی کے لیے مسجد شہدا کا نام دیاگیا لیکن مرکزیت چیئرنگ کراس چوک کو حاصل تھی، جہاں واپڈا ہائوس، الفلاح بلڈنگ کے بیچ میں پنجاب اسمبلی کی پرشکوہ عمارت قائم تھی۔ ستر کی دہائی سے الفلاح بلڈنگ کے سامنے ایک قدم عمارت اب تک نئی سج دھج کے ساتھ قائم ہے۔ یہاں قومی ایئر لائن پی آئی اے کا دفتر تھا، اس دفتر کے برآمد ے کے ساتھ سروس روڈ پر پان سگریٹ کا ایک کھوکھا تھا جہاں سے مستقل گاہکوں کو چرس اور افیون بھی مل جاتی تھی، چند قدم کے فاصلے پر سبز رنگ کی ایک پرانی شیورلٹ گاڑی نظر آتی تھی جس پر جلی حروف میں زمزمہ تحریر تھا، اس میں نصب ٹینکی اور فوارے سے جعلی اورنج ڈرنک چونی میں دستیاب ہوتا تھا، چلچلاتی دھوپ میں راہ گیر یہاں اپنی پیاس بجھانے کے لیے رکتے تھے۔
پان سگریٹ والے کھوکھے کے مالک کا نام ضمیر اختر تھا، اس نے تہہ بازی والوں سے بچنے کے لیے پیپلز پارٹی کا جھنڈا کھوکھے پر لگارکھا تھا، وہ ہر ماہ لاہور کارپوریشن کے عملے کو پندرہ روپئے نذرانہ پیش کرتا یوں اُس کے کھوکھے کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہ کرتا، زمزمہ کولڈ ڈرنک والے دس روپئے منتھلی دیتے اور سکون کی نیند سوتے، 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں تجاوزات ہٹانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ضمیر اختر کا کھوکھا اور زمزمہ کولڈ ڈرنک گاڑی بھی ہٹادی گئی۔
اسلامی کانفرنس ختم ہوئی تو ضمیر اختر نے اپنا کھوکھا بحال کرانے کی کوششیں شروع کردیں، کارپوریشن کے عملے کو بے بس پاکر وہ اعلیٰ افسروں سے ملا مگر اُسے کامیابی نہ ملی، وہ کھوکھا بحالی کے لیے ہر وزیر، مشیر، ایم پی اے، ایم این اے کے دروازے پر پہنچا سب نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا لیکن اُس کا کھوکھا بحال نہ ہوا، ضمیر اختر دربدر ٹھوکریں کھاتا رہا، بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو ضمیر اس میں پیش پیش تھا، اس نے سبز قمیص پہن لی، سبز ٹوپی اوڑھ لی وہ مال روڈ پر نکالی گئی ہر ریلی میں ڈنڈا اٹھائے صف اول میں نظر آیا، بھٹو حکومت ختم ہوگئی، مارشل لا لگ گیا، ضمیر اختر نے کھوکھا بحالی تحریک ازسرنو شروع کردی، وہ کبھی مارشل لا ہیڈ کوارٹر کے باہر درخواست پکڑے نظر آتا کبھی کسی اخبار کے دفتر کسی صحافی کو اپنی رام کہانی سناتا پایا جاتا۔ مارشل لا ختم ہوگیا کھوکھا بحال نہ ہوسکا، غیر جماعتی انتخابات ہوئے، نئی حکومتوں نے نظام سنبھال لیا، ضمیر اختر ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگیا لیکن اِسے جلد ہی احساس ہوگیا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اُس کا کھوکھا بحال نہیں کراسکتی۔ پس اُس نے اپنا لائف سٹائل بدل دیا، اس نے بال بڑھائے، شیو تو پہلے بھی کئی روز بعد کراتا تھا، اس نے سبز قمیص کے ساتھ گلے میں موٹے موٹے منکوں والی ایک مالا ڈال لی اور ہاتھ میں موٹے موٹے دانوں والی ایک تسبیح پکڑ لی۔ اب وہ مکمل طور پر سیاسی ملنگ بن چکا تھا، میں نے اُسے ایم پی اے ہاسٹل میں مختلف کمروں میں دیکھا، کبھی کسی وزیر کے گھر پر نظر آیا، وہ ان شخصیات کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی ٹانگیں دباتا، اُن کے سر میں تیل لگاکر مالش کرتا، ان کی درازی عمر، صحت و تندرستی ، رزق میں برکت، اقبال بلند ہونے اور روپئے پیسے کی لہریں بہریں ہونے کی دعائیں کرتا۔ یہ تمام شخصیات اُسے خدمت کے معاوضے کے طور پر پچاس روپئے کا نوٹ دیتے، یہ ایم پی اے کی بخشش کا ریٹ تھا، ایم این اے اوروزیر صاحبان اُسے سو روپئے دیا کرتے تھے، وہ رخصت ہونے لگتا تو ازراہ مذاق اِس سے جاتے جاتے پوچھتے، ضمیر اختر! تمہارے کھوکھے کا کیا بنا؟ بس اتنا پوچھنے کی دیر ہوتی، ضمیر اختر رک جاتا اور بھٹو حکومت، اس کے وزرا اور اس دور کے تمام سرکاری افسروں کی شان میں پنجابی زبان اور جھنگ، سرگودھا کے باسیوں کے لہجے میں وہ مغلظات بکتا کہ خدا کی پناہ۔ مغلظات کا دورانیہ پانچ سے دس منٹ تک کا ہوتا جسے سن کر حاضرین خوب محظوظ ہوتے، بعض اوقات میزبان اس سے اپنے کسی مخالف سیاسی شخصیت کا نام لیکر پوچھتا کہ تم فلاں صاحب کے پاس اپنے کام کے لیے گئے تھے تو اس نے کیا کیا تھا، یہ سنتے ہی ضمیر اختر ازسرنو اپنا مغلظات سے بھرا سیاسی بیان جاری کرتا جسے سن کر حاضرین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے اور اسے مزید انعام دے کر رخصت کرتے۔ وقت اور تجربات نے ضمیر اختر کو بہت کچھ سکھادیا، وہ سیاسی ماہر نفسیات بن گیا، اسے خوب اندازہ ہوگیا کہ وہ جس شخصیت کے پاس ملنے جارہا ہے، اِس کا بدترین مخالف کون ہے، پس وہ جاتے ہی بعد از سلام گفتگو یہاں سے شروع کرتا کہ میں کل ایک فلاں حلال زادے سے ملنے گیا تو وہ اپنی بیوی کی فلاں جگہ میں گھسا ہوا تھا، کئی گھنٹے انتظارکرایا اور پھر بھی مجھے نہ ملا نہ میری بات سنی، بعض اوقات وہ بیوی کی بجائے معشوقہ یا رکھیل کا لفظ استعمال کرتا تو اس کے میزبان خوشی سے نہال ہوجاتے پھر چسکے لینے کے لیے اُسی شخصیت کے بارے میں کوئی اور الٹا سوال کرتے تو ضمیر اختر بارہ مصالحے لگاکر مزید چسکے دار جواب پیش کرتا۔
ضمیر اختر اپنے اِس فن کے سبب اتنا مشہور ہوگیا کہ سیاسی محفلوں میں سیاسی شادی بیاہ کی تقریبات میں اسے بطور خاص مدعو کیا جاتا، وہ جاتے ہی میزبان کے قدموں میں بیٹھ جاتا اور اس کے مخالفین کی شان میں بیہودہ قصیدہ گوئی شروع کردیتا، لوگ خوب ہنستے اور اُسے ’’ویلوں‘‘ کی شکل میں معقول آمدن ہوتی، سڑک چھاپ ضمیر اختر کو میں نے موٹر سائیکل پر سوار دیکھا تو مجھے خوشی ہوئی کہ اِس نے ترقی کا ایک زینہ طے کرلیا ہے، بھٹو حکومت کے جانے کے بعد قریباً دس برس اس کا اچھا سیزن لگا، جنرل ضیا الحق کی حکومت ختم ہونے کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو ضمیر اختر نے سبز قمیص اور گلے میں پڑے ہوئے منکے اُتار دیئے اس نے جینز کے ساتھ اٹنگی سے قمیص پہننا شروع کردی، جو ہمیشہ اِس کی جینز یا پتلون سے باہر ہوتی، پائوں میں چپل کی جگہ جاگرز پہن لیے، اب وہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والوںکی محفلوںمیںجاتا، زمین پر بیٹھنے کی بجائے میزبان کے سامنے کرسی پر بیٹھتا اور نظام مصطفی تحریک کے علمبرداروں، شرافت کی سیاست کرنے والوں کی خوب خوب ماں بہن کرتا، شرکا تالیاں پیٹتے اور نعرے لگاتے،’’ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو مسلم لیگ کی حکومت آگئی، ضمیر اختر نے بھی کینچلی بدل لی، اس نے کہیں سے ایک پرانی شیروانی حاصل کرلی وہ گرمیوں، سردیوں اُس شیروانی میں نظر آتا جبکہ سر پر ایک ٹوپی بھی رکھ لی، وہی ٹوپی جو مختلف وزرائے اعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے شیروانی کے ساتھ پہنے نظر آتے ہیں۔
ایک روز مجھے اطلاع ملی کہ ضمیر اختر بہت بیمار ہے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں، میں اس کی مزاج پرسی کے لیے اس کے گھر چلاگیا، گھر کا دروازہ کھلا تھا، وہ کمرے کے ایک کونے میں پڑا تھا، میں نے پوچھا ضمیر اختر تمہارا کیا حال ہے، اس نے نقاہت بھری آوازمیں جواب دیا، ضمیر تو برسوں پہلے مار دیا تھا اب اختر بھی مرنے والا ہے، پھر وہ مر گیا لیکن اس کی لیگسی زندہ ہے، آگے بڑھ رہی ہے، میری مراد ہے ، سیاسی رنگ بازی جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button