Abdul Hanan Raja.Column

کرگسوں میں پلے شاہین .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

اس میں شک نہیں رہا کہ اس مملکت خداداد کے کروڑوں کمزور اور باعزت شہری ہی قانون کی اس چکی میں پستے ہیں کہ جس میں اشرافیہ کی موٹی گردنیں آتی ہی نہیں۔ جتنی پولیس گردی یہاں ہوتی ہے اتنی شاید ہی کسی دوسرے معاشرے میں ہوتی ہو۔ صاحب اقتدار اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا استعمال خوب کرتا ہے اور باہر ہوتے ہی وہی سب اس پر۔یہ انوکھی روایت بھی یہاں ہے کہ ہمارے سیاست دان کارکنان کے لہولہان جسموں کو دیکھ کر قانون شکنی کا لطف لیتے ہیں۔ سیاسی و مذہبی راہنمائوں کا مقصد نہ تو عوام کی فلاح اور نہ خدمت دین ہے، وہ ہر دو طاقت چاہتے ہیں تا کہ آئین کو روند اور قانون کو للکار سکیں کہ انہیں خوب علم ہے کہ مقبولیت کے بعد یہ قانون کی حدوں سے ماورا ہو جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کا یہ وطیرہ بھی اب تک چلا آ رہا ہے کہ آنے والی حکومت اپنے اقتدار کے کئی سال ماضی والوں پر لعن طعن میں گذار دیتی ہے۔ کسی دانشور نے خوب کہا ہے کہ افکار درست سمت نہ ہوں اور قیادت صلاحیت سے عاری ہو تو یہ پھر زبانیں بے لگام اور دامن عمل سے تہی دامن۔
آئین اور قانون کی بالا دستی کتابی اور خطابی باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ ماضی کے انقلابی بھی یہی کچھ کرتے رہے اور حال کے بھی وہی تاریخ دھرا رہے ہیں۔ ہمارے ارد گرد جن معاشروں نے بھی ترقی کی، استحکام پایا ان کی قیادت نے اپنے سیاسی نظام کو پاکستانی طرز کی غلاظتوں سے پاک کیا۔ تب جاکے ترقی کا عمل شروع ہوا۔ کتنی سادگی اور خود فریبی ہے کہ ہمارے ہاں ہر جماعت کا مخلص کارکن صرف اپنی ہی قیادت کو صالح، مدبر، مفکر، مصلح اور باصلاحیت گردانتا اور اس کے لیے وہ اپنے رشتوں سے ٹکرا جانے کو تیاررہتا ہے۔ اپنی قیادت کے علاوہ سب بدکردار۔ ان کو قائد اعظم ثانی منوانے کے لیے تو گویا ایک دوڑ ہے۔ خوش قسمتی ہماری کہ سبھی راہنما آئین و قانون اور اعلیٰ اقدار کی بات بھی کرتے ہیں یہ الگ بات کہ اس پہ عمل اتنا ہی جتنا قومی خزانے میں ہمارے اثاثے۔ مہذب اقوام لغویات، الزامات اور مقدمات کی بجائے عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس اور اپنے منشور پر بات سننے کی عادی ہیں۔ وہاں کسی نام نہاد لیڈر کی جرأت نہیں کہ وہ ان کو بہکاسکے۔ وہاں سیاسی قیادتیں بتدریج عمل سے آگے آتی ہیں اور اپنے وقت پر اپنی ذمہ داریاں نبھا کے رخصت ہوتی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو معیارات ہی الگ ہیں کہ ہم ہیں ہی الگ قوم۔ شو مئی قسمت کہ اس وقت کی تینوں بڑی سیاسی قیادتیں حادثات کی پیداوار ہیں کہ یہ ہمارے بنیادی جمہوری نظام کی چکی میں پس کر کندن ہوئے اور نہ انہیں سیاسیات کے فرائض و تقاضات کا انہیں علم ہے، بس حادثات نے پہلے انہیں سیاست دان بنایا پھر مقبول عام جبکہ مقبولیت کی دوا سب نے ایک ہی مطب سے لے رکھی ہے تو پیچھے ہٹنے اور ریٹائرمنٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا اب جنگ مقبولیت کی ہے، نہ کہ عوام کی۔ عوام کا حال تو یہ روٹی کپڑا اور مکان کے لیے اس وقت بھی سرگرداں تھے اور اب بھی ہیں، فرق یہ ہوا کہ فریب دینے والے بدل گئے مگر فریب کھانے والے وہی ہیں۔
عوام گرگسوں میں پلے شاہینوں کے رحم و کرم پر ہیں جو عدالتوں اور قانون کے ذریعے مرتبہ شہادت پا کر سیاسی افق پر امر ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ریاست کے اندر اپنی مقبولیت کی بنا پر اپنی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ یہ غیروں سے مانگ کر خودداری چاہتے ہیں۔ یہ انتخابات سے پہلے دکھائے گئے سبز باغ کو بعد از اقتدار جلا دینا چاہتے ہیں۔ یہ جمہور کے نام پر طاقت کے خواہاں مگر بعدازاں انہی کو دبا دینا چاہتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آتے ہیں مگر بعد از اقتدار آمریت چاہتے ہیں۔ یہ اپوزیشن میں ہوں تو اعلیٰ اخلاقیات کے علمبردار اور بعد ازاں مادر پدر آزادی چاہتے ہیں۔ ان کے لیے وعدوں اور دعوئوں سے انحراف بڑی بات نہیں۔ اہل محبت کو تو چھوڑئیے راہنمایان قوم بڑی ڈھٹائی سے اپنے اس فعل قبیح پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ سیاست دان اقتدار ملنے کے بعد اپنے وعدوں سے ایسے مکرتے ہیں جیسے حکمران توشہ خانے سے زیورات لیکر۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی تو فیکٹریاں لگی ہیں۔ جھوٹ کو اتنی ڈھٹائی اور زور دار طریق سے پھیلایا جاتا ہے کہ سچ شرمندگی کے مارے منہ چھپاتا نظر آتا ہے۔ جب معاشرے میں راج ہی جھوٹ کا ہو اور نظام بھی جھوٹ کا تو عوام کو کیا پڑی ہے کہ سچ قبول کرتے پھریں۔ بکتا وہی ہے جس کا سکہ چلتا ہو۔ سو جھوٹ کا سکہ چل رہا ہے اور برسر بازار چل رہا ہے۔ ہم خود فریبی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جانتے بوجھتے جھوٹ، بددیانتی، ناانصافی اور ظلم کو قبول کیے بیٹھے ہیں۔ قائدؒ اور اقبالؒ کے اعلیٰ اقدار ہمارے لیے مشعل راہ ہونے تھے مگر ہماری اقدار اور کردار کو مغربی یلغار کی نظر لگ گئی۔ آڈیو، ویڈیو لیکس نے چھپے چہرے بے نقاب کر دئیے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت جب تک ہمارے نظام کا حصہ رہی معاشرہ ایسی خرافات کا شکار تھا نہ اتنا اخلاقی زوال۔ اب انگریزی تعلیم کا شوق ہمیں جہاں لے جا رہا ہے اس کا سوچ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ دین پر عمل اور عشق رسول ﷺ ہماری دولت ہے مگر اس نام پہ جو انتہا پسندی جاری ہے الاماں الحفیظ، کہ معاشرے کو جنونی معاشرے کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ اختلاف فقہی اور اختلاف علمی کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جا رہی اور ایک دوسرے کے ایمان پر ایسے حملہ آور ہیں کہ جان و ایماں کے لالے پڑنے لگتے ہیں۔ معاف کرنا تو گویا بھلا ہی دیا ہے۔ اعلیٰ اخلاقیات اور کردار قصہ ماضی بن گئے ہیں۔ کرگسوں میں پلے شاہینوں کو رہ و رسم شہبازی کی پرواہ ہے نہ غرض۔ افسوس کہ شکست خوردہ عوام انہی کرگسوں کے رحم و کرم پر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button