Columnمحمد مبشر انوار

زندہ دلان لاہور .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

لاہور زندہ دلان کا شہر ہے اورلاہوریوں کی یہ زندہ دلی ہمہ جہتی ہے،کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح نظر آئے گی کہ لاہوریوں کا مزاج اور طرز زندگی کلیتاً مختلف اور زندہ دلی سے بھرپور ہے۔گو کہ اصل لاہوریوں کی تعداد نسبتاً اب لاہور میں خاصی کم ہو چکی ہے اور حکومتی منصوبہ بندی کے شدید فقدان اور قرب و جوار کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے فقدان کے باعث، بہت سے دیگر شہری بھی اب لاہوری بن چکے ہیں جبکہ آبادی میں مسلسل اضافے نے شہر لاہور کی سرحدوں کو قصور تک جا ملایا ہے،درحقیقت یہاں ایک تو آبادی میں اضافہ کا تسلسل اور دوسری نمود و نمائش ،بڑی اور پر آسائش رہائشوں کی بھیڑ چال نے لاہور کا حدود اربع بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ یہی شہر لاہور تھا کہ جس کے شہریوں نے اپنی زندہ دلی کا مظاہرہ 1965کی جنگ میں ،فضاؤں میں طیاروں کی خوفناک جنگ کو اپنی چھتوں سے بے خوف دیکھ کر کیا تھا،یہی لاہورئیے تھے کہ جو اس جنگ میں افواج پاکستان کے کانوائے پر سڑک کے دونوں اطراف سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے، اپنی محبت و حب الوطنی کا اظہار کررہے تھے۔یہی لاہورئیے تھے ،جو افواج پاکستان کے ساتھ رضاکارانہ طور پر،وطن عزیز کی حفاظت کیلئے،مورچوں کی پہلی صف میں شریک ہونے کیلئے بیتاب تھے،ہندو بنئے کو جہنم واصل کرنے کیلئے جنگ کے اگلے مورچوں میں جانے کیلئے تڑپ رہے تھے،اس قدر شدید خواہش کے باوجودنظم و ضبط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی افواج کے پیچھے کھڑے تھے۔یوں تو پورا پاکستان افواج پاکستان کی فتحیابی کیلئے دعا گو تھا لیکن اس محاذ پر بھی لاہوریوں کا انداز نرالا تھااور یہ اس میں بھی باقی پاکستانیوں سے آگے ہی نظر آئے،قطعاً یہ مراد نہیں کہ باقی پاکستانیوں کا جذبہ مختلف تھا لیکن لاہوریوں کا انداز البتہ ہمیشہ مختلف رہا ہے اور اسی وجہ سے انہیں زندہ دلان لاہور کہا جاتا ہے۔
سیاسی و سماجی اعتبار سے لاہور کا اپنا ایک الگ مقام و مرتبہ ہمیشہ سے تاریخ میں محفوظ ہے اور برصغیر میں ہونیوالی سیاسی تحاریک یا سیاسی قوتوں کا ایک بڑا امتحان لاہوریوں کو متحرک کرنا ہے،سیاسی پنڈت یہ سمجھتے ہیں کہ لاہور جس کے ساتھ بھی کھڑا ہوا ہے، کامیابی اس کا نصیب ٹھہرتی ہے۔تحریک پاکستان کا آغاز بنیادی طور پر بنگال سے ہوا اور مسلم لیگ کا قیام بھی بنگال کی سر زمین پرعمل میں آیا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی زندہ دلان لاہور کی اس تحریک میں باقاعدہ شمولیت سے ہی ممکن ہوئی۔ گو کہ مغربی پنجاب کے وڈیروں اور جاگیر داروں کی تحریک پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے تاریخی حقائق مختلف ہیں لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کہ لاہوریوں کی شمولیت نے تحریک پاکستان کو چار چاند لگائے اور یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ بعد ازاں دیگر جمہوری تحریکوں کی سربراہی لاہور کے پاس تو نہ رہی لیکن لاہور نے ان سیاستدانوں کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا اور ان کے منشور پر لبیک کہتے ہوئے ان کا بھرپور ساتھ دیا،اس کی بڑی مثال پیپلز پارٹی کی ہے کہ جو دہائیوں تک لاہور یوں کے مرہون منت پاکستانیوں کے دلوں پر راج کرتی رہی ہے۔ بعد ازاں غیر جمہوری طاقتوں نے پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کیلئے، اس ملک کو لسانیت کی آگ میں جھونکنے سے گریز نہیں کیا جس کا مقصد صرف اور صرف ذاتی مفادات کا حصول تھا،اسی مقصد کیلئے آئی جے آئی بنوائی گئی اور ملکی سیاست کو پراگندہ کرنے کیلئے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا بدنام نعرہ لگایا گیا۔اس نعرے نے ایک طرف ملکی سیاست میں نفرت کی آگ بھڑکائی تو دوسری طرف وفاق کی چھوٹی اکائیوں میں احساس محرومی کو جنم دے کر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر مہر تصدیق ثبت کر دی،یوں وفاقی اکائیوں کے درمیان ایک واضح لکیر ڈال دی گئی،جس کا اظہار آج بھی چھوٹے صوبوں کی سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاًکرتی نظر آتی ہیں۔بے نظیر بھٹو سمجھوتے کرنے کے باوجود،اپنی زندگی کو درپیش سنگین خطرات کے باوجود،پنجاب میں اپنی انتخابی مہم سے کسی صورت پیچھے ہٹتی نظر نہیں آئی اور انہوں نے سب خطرات کو پس پشت ڈال کر اپنی انتخابی مہم پنجاب میں جاری رکھی کہ انہیں علم تھا کہ پنجاب بالعموم اور لاہور بالخصوص اگر ان کے ساتھ ہے ،تو انہیں اقتدار کی دوڑ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔بدقسمتی یہ کہ اس دوران پنجاب میں اس قدر جوہری تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی تھی اور نواز شریف انتخابی سیاست کے حوالے سے اتنے پختہ کار ہو چکے تھے کہ بے نظیر اگر زندہ ہوتی اور لاکھ کوششیں بھی کرتی،تب بھی انہیں پنجاب سے اکثریت میںنشستیں ملنا قریباً نا ممکن ہو چکا تھا،رہی سہی کسر زرداری کی مفاہمانہ سیاست نے پوری کر دی اور پیپلز پارٹی کا وجود پنجاب میں عملا ختم ہو چکا۔
نواز شریف کی سیاسی حیثیت پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ کسی دوسرے سیاسی رہنما میں اتنی سکت نہ تھی کہ اس میں نقب لگا سکے،اس کی ایک وجہ اگر نواز شریف کا لاہوری ہونا تھا تو دوسری اہم ترین وجہ نواز شریف کا اداروں میں اثرورسوخ کے علاوہ انتخابی نتائج کا توقع کے مطابق حصول میں کامیاب منصوبہ بندی بھی تھا۔البتہ نواز شریف کاغذوں میں بھرپور اکثریت کے باوجود کبھی بھی اپنے سیاسی حریفوں کے مقابل کوئی قابل ذکر انتخابی جلسہ کرنے میں کامیاب نہیں رہے البتہ انتخابی نتائج حیران کن طور پر مسلم لیگ نون بھاری اکثریت جیتتی رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے نئے سیاسی لائحہ عمل اور پنجاب سے قریباً مایوس ہونے کے بعد بظاہر میدان مکمل طور پر مسلم لیگ نون کے ہاتھ جاتا دکھائی دیتا تھا لیکن عین اس وقت جب پیپلزپارٹی وفاق میں حکومت بنا کر اورقصر صدارت میں زرداری کے تخت نشینی کے دوران پنجاب میں تحریک انصاف نے بھرپور انگڑائی لی اور پیپلز پارٹی کے پیدا کردہ خلاء کو پرکرنے کیلئے پیش قدمی شروع کر دی۔2011کے تحریک انصاف کے جلسے کے بعد، تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف مجموعی طور پرمسلسل بڑھتا رہا ہے،اس دوران کئی مواقع پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک انصاف اپنی پالیسیوں کے سبب،یا اپنے قائد کی ہٹ دھرمیوں کے باعث اپنی عوامی حمایت سے ہاتھ دھو رہی ہے لیکن انتہائی غیر متوقع طور پر حالات یکدم پلٹا کھاتے رہے اور تحریک انصاف کے تمام تر مخالفین ،بشمول مقتدرہ، تحریک انصاف یا عمران خان کو عوام کی نظروں سے گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔عمران خان اپنی اکلوتی حکومت میں بھی بظاہر کوئی قابل ذکر کارنامہ نہ دکھا سکے اور اپنے منشور کے برعکس مافیاز پرتگڑا ہاتھ ڈالنے میں ناکام نظر آئے،حتی کہ نوازشریف ،ان کے خاندان اور دیگر لٹیروں سے ملکی لوٹی ہوئی دولت کا حصول بھی ان کیلئے شجر ممنوعہ بنا رہا گو کہ یہ کام وزیراعظم کا نہیں لیکن اداروں کی کارکردگی اس حوالے سے کبھی بھی متاثر کن نہیں رہی،اور ریاستی مشینری کی اکثریت شاہی خاندانوں کی وفاداری کرتی نظر آئی یا نادیدہ ہاتھ ملکی دولت لوٹنے والوں کے سروں پر رہے۔اس ناکامی پر مقتدرہ سمیت،گو کہ موجودہ وزیراعظم اس امر کا ببانگ دہل اظہار کر چکے ہیں کہ 2018کے انتخابات کے بعد وہ اپنی کابینہ تک مقتدر حلقوں سے فائنل کرچکے تھے،تاہم بوجوہ اقتدار عمران خان کودیاگیا،لیکن رجیم چینج کے وقت وہ وجوہات پس پشت ڈال کر موجودہ حکومت کو اقتدار تک رسائی دی گئی تا کہ وہ اپنے مقدمات سے نکلنے کا سامان کر سکیں وگرنہ حقیقت تو یہ تھی کہ جس رات رجیم چینج آپریشن ہوا،اگلے دن فرد جرم عائد ہونا تھی۔ بہرکیف یہ تمام حقائق ہماری سیاست کا بدنما داغ رہیں گے کہ کس طرح اس ملک میں جمہور کی آواز کو دبایا جاتا ہے اور ذاتی مفادات ،ضد و انا میں حکومتیں بنائی او رگرائی جاتی ہیں،عوام کی جمہوری و سیاسی سوچ کا کس طرح گلا گھونٹا جاتا ہے،اس کے مظاہر اس وقت بھی پاکستان کی سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں کہ ایک طرف انتخابی مہم کی کھلی چھٹی ہے اور حکومتی انتظامات میں مہم ’’زوروں‘‘ پر ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کیلئے انتخابی مہم چلانا محال کر دیا گیا ہے۔ رہی بات انتخابات کی تو ابھی تک غیر یقینی ہے کہ جس طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں،لگتا نہیں کہ نگران حکومتیں اور ان کے پشتیبان تحریک انصاف کی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ،انتخابات کا انعقاد کریں۔ تحریک پاکستان کے نتیجہ میں حاصل ہونیوالی ریاست جغرافیائی طور پر آزاد ہو چکی لیکن جمہور،جمہوریت اور سیاسی اقدار کے حوالے سے یہ ہنوز غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہے،سیاسی رہنماؤں نے عوامی حقوق کیلئے اپنی تحاریک کا آغاز لاہور سے کیا اور اس وقت عمران خان بھی ’’حقیقی آزادی‘‘ کیلئے لاہور سے تحریک کا آغاز کر چکے ہیں،تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود ،رکاوٹوں کے باوجود، زندہ دلان لاہور نے اپنی سیاسی سوچ کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔زندہ دلان لاہور نے بہت عرصہ کے بعد ایسی بھرپورسیاسی انگڑائی لی ہے،ریاست اگر یہ سمجھتی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہ اس سیاسی سوچ کو دبا لیں گے،دو چار لاشیں گرا کر اس تحریک کا مکو ٹھپ دیں گے یا جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے گا،تو موجودہ حالات میں یہ اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ حکومت میں موجود سیاستدان پھر اس حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ کسی جمہوری حکومت میں شہریوں کی لاشیں گرانے سے صرف انتخابات ملتوی نہیں ہوتے بلکہ جمہوری عمل بھی رک جاتا ہے،سیاسی شہادت کے خواہشمندوں کیلئے لاشیں گرنا نیک فال ہو سکتا ہے لیکن ملک و قوم کے لئے نہیں۔ رہی بات لاشیں گرنے کی تو ،زندگی موت پر اللہ کا اختیار ہے تاہم عمران خان میدان میں موجود ہے اور اب زندہ دلان لاہور ،زندہ دلی کے ساتھ اس کی حفاظت میں دیوار بنے نظر آتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button