ColumnNasir Naqvi

زبردستی کی ملاقات .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

کہا جاتا ہے کہ’’ زندہ رہے تو پھر ملیں گے‘‘ لیکن میں کہتا ہوں کہ ملتے جلتے رہو گے تو زندہ رہو گے۔ آپ کے خیالات یقیناً آپ ہی جانتے ہیں تاہم مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ زمانہ جدید کی تیز رفتاری میں ملنا جلنا کچھ کم ہو گیا ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو بھی آدم زادے مفادات کے غلام ہی دکھائی دیں گے یعنی دوستی میں بھی نفع و نقصان کی فکر لاحق ہوتی ہے حالانکہ دوستی کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہوتا، بے لوث دوستی ہی دیرپا ہوتی ہے، پھر بھی لاہور اور کراچی کے انداز سے یکسر مختلف ہیں لیکن جنہیں نبھانا ہوتا ہے وہ کسی بہانے اور حالات کی محتاجی کے سامنے کبھی بھی ہار نہیں مانتے، بلکہ ان کے من مندر میں دوستی کا ایسا معیار موجود ہوتا ہے جو کسی بھی خامی اور خوبی کی پرواہ نہیں کرتا۔ خلوص و محبت اور ایثار و قربانی اس دوستی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ پنجاب میں محاورہ ہے ’’نیا نو دن پرانا سو دن‘‘ اسی اصول پر ہمارے بہت سے دوست برسوں سے قائم و دائم ہیں۔ ایک دوسرے کی صحت و سلامتی کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ ملنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں، یقین جانیے آج کے دور میں بے لوث دوست کسی قدرتی انعام سے کم ہرگز نہیں، کیونکہ فکر معاش، روٹی روزی اور رزق حلال کی تلاش نے سب سے زیادہ حضرت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پھر بھی میں اس سلسلے میں اپنے آپ کو امیر ترین سمجھتا ہوں، اس لیے کہ مجھے بچپن سے پچپن تک بلکہ اب بھی سکول، کالج اور محلے داروں کی قربت حاصل ہے۔ میری تمنا تو کچھ ایسی ہوتی ہے ؎
آئو جینے کے بہانے ڈھونڈیں
پھر کوئی دوست پرانے ڈھونڈیں
الحمد للہ! ہمیشہ نیت مثبت رکھیں لہٰذا مراد بھی پوری ہو جاتی ہے۔ برسوں کے بچھڑے بھی جب ملتے ہیں تو سالہا سال کے فاصلے خود بخود مٹ جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں یقیناً وہ دوست بھی قابل تحسین ہیں جوبھولتے نہیں، زندگی کی بھول بھلیوں میں مشکل اور آسان، اچھے بُرے دن دن آتے جاتے رہتے ہیں لیکن حقیقی دوست وہی ہوتے ہیں جو دوستی کا مان رکھتے ہوئے ان حالات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، مطلب صاف ظاہر ہے ؎
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
دس پندرہ روز پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے ماضی کے صحافی ’’ابن آس‘‘ کا فون آیا، یقیناً بات حیرانگی کی تھی اس لیے کہ ایسی انہونی ہوتی نہیں۔تاہم میں حسب عادت کبھی کبھار صبح سویرے ’’گڈ مارننگ‘‘ کہتا رہتا ہوں، واٹس ایپ کا یہ بڑ ا فائدہ ہے، میرا اس پیغام سے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دوست احباب غم زندگی اور روزگار کے اسیر ہیں۔ قیدیوں کا حال احوال نہ صرف پوچھنا چاہیے بلکہ انہیں اپنے نیک جذبات اور خواہشات سے بھی آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ کچھ لوگ اس عادت سے خوش نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر زندہ ہو تو زندگی کا ثبوت بھی دینا چاہیے۔ ہمیں ناصر کاظمی کا یہ شعر بھی یاد ہے ؎
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
دنیا فانی ہے جو آیا اس کے آنے کی ایک لازمی شرط واپسی ہے یعنی یہ ایک ایسا وزٹ ویزا ہے جس کی معیاد صرف ویزا اور یہ تحفہ زندگی دینے والے کو پتا ہے۔ دنیا کی ریاستیں بھی اسی اصول پر وزٹ ویزا کاغذات مکمل ہونے پر دے تو دیتی ہیں لیکن شرط لازم واپسی ہی ہوتی ہے لیکن زندگی کا ویزا دینے والا خود کسی دستاویزات کا پابند نہیں، اس لیے اس نے اپنی مرضی بحیثیت مالک جان و جہان لاگو کر رکھی ہے جس سے فرار ممکن نہیں، پھر بھی آپ اتفاق کریں یا اختلاف یہ آپ کا حق ہے۔ سب میرے جیسے نہیں مجھ سے بہت اچھے ہیں لہٰذا میں اپنا یہ شعر پڑھ کر دل کو تسلی دے لیتا ہوں ؎
ناصر کرے گا کون تیری سادگی پسند
سارا جہان مبتلائے رنگ و بو ہے
شاید یہی سادگی اور میری ادائیں ابن آس کو پسند ہیں اس لیے انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ ایکسپو سنٹر میں ہونے والے کتاب میلہ میں آ رہے ہیں لہٰذا اس مصروفیت میں وہ 2مارچ سے 10مارچ تک لاہور میں پڑائو ڈالیں گے، اس لیے ملاقات ہونی چاہیے۔ جواب ملا یقیناً،میں نے صرف تین دوستوں کو فون کیا ہے جس میں سے دو پبلشر ہیں۔ پھر فرمانے لگے ’’میں بھی اب پبلشر بن گیا ہوں‘‘۔
میں فوراً بولا یہ تم نے گھاٹے کا سودا کیوں کر لیا ؟
کہنے لگے جناب بہترین ہے۔ آپ کو کسی نے جھوٹ کہا ہے، تھوڑی محنت اور منصوبہ بندی ہے کاغذ ضرور مہنگا ہے لیکن ابھی بھی اچھی کتاب کے چاہنے والوں کی کمی نہیں۔
مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ لاہوری پبلشرز کچھ اور کہتے ہیں، جس کی مرضی تلاشی لے لیں اس کا رونا ہی ختم نہیں ہو گا بلکہ بات چھیڑ کر ان کے آنسو پونچھنے کیلئے تولیہ درکار ہو گا۔ ہمارے ایک حوصلہ مند پبلشر مقبول ملک آف مقبول اکیڈمی تھے۔ اللہ مغفرت کرے۔ اب ان کے ایک شاگرد خاص علامہ عبدالستار عاصم شعبہ پبلشنگ میں فتوحات میں مصروف ہیں۔ باقی سب استاد دامن کی وصیت پر کام کر رہے ہیں۔ ’’وچوں وچوں کھائی جا۔۔ اتوں رولا پائی جا‘‘ ۔
میں نے یکم مارچ کو ذمہ داری سے ابن آس کو فون کر کے آمد کا شیڈول جاننا چاہا، بولے ہم لاہور میں آ چکے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ مہمان اللہ کی رحمت آ گئے۔ اسی لمحے میں نے پوچھامیں آ جائوں، ہوٹل کس میں ہیں؟ ایڈریس بھیج دیں، کہنے لگے میرے ساتھ تین شخصیات اور بھی ہیں، ابھی تو ہم شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد وغیرہ کی سیر کیلئے نکل رہے ہیں کسی وقت فون کر کے آ جائیں۔
میں نے کہاآپ کے پاس جب فرصت ہو، مجھے طلب کر لیں، میں آ جائوں گا۔
انہوں نے وعدہ کر لیا، میں نے کئی روز انتظار کیا، پھر سوچا ان کی کاروباری مصروفیات میں مخل نہ ہو جائوں لیکن 5مارچ کو صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، ڈر تھا کہ برسوں بعد ملاقات کا بہانہ ضائع نہ ہو جائے، قریباً صبح کے دس بجے تھے، ڈرتے ڈرتے فون کیا کہ ابھی تو سو کے نہیں اٹھے ہوں گے۔ پھر دل نے کہا مصلحت پسندی چھوڑو، چانس لے کر دیکھو، پہلی ہی بیل پر ابن آس بولے ’’آہا–ناصر بھائی‘‘۔
میں نے کہاآپ کا فون ہی نہیں آیا، بولے ’’مصروفیت بہت تھی‘‘۔
میں نے پوچھا ’’سو کر اٹھ گئے ہیں تو آ جائوں؟‘‘
بڑے چہک کر بولے ’’بالکل آ جائیں۔ ہم جانے کی تیاری کر رہے تھے، آپ سے مل کر چلے جائیں گے۔‘‘
مجھے غصّہ تو بہت آیا لیکن بعض حالات میں ’’مہمان ہی نہیں، میزبان بھی بے زبان ہوتا ہے‘‘ پھر ہم ٹھہرے لاہوری زندہ دل، لہٰذا غصّہ تھوکا اور لاہوری ناشتہ لے کر پہنچ گئے، کراچی کے پہلوانوں نے لاہوری ناشتے سے انصاف نہیں کیا، میری مدد بھی مانگی لیکن ہمارا ہاتھ ہلکا رہا اس لیے کہ ناشتے پر ناشتہ کسی نئی مصیبت کا باعث بن سکتا تھا۔ ہم نے چائے کی فرمائش کی، خود کافی لی۔۔۔میرا تفصیلی تعارف پہلے سے ہی تھا۔ تین دوستوں کا تعارف کرایا گیا۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ باریش سید عرفان علی یوسف صحافی ہی نہیں، اب بچوں کے ناول نگار اور مترجم بھی ہیں۔ ان کے تازہ ناول نیلے پہاڑوں کا سراغ اور پوتن کی بائیوگرافی کتاب میلہ میں ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ بڑے ہی خوش مزاج اور خوش گفتارشخصیت کے مالک ہیں۔ دوسرے شرارتی آنکھوں والے ، معنی خیز نظر کے مالک خالد دانش تھے۔ وہ بھی قلم کے غازی ہیں، دکھائی بڑے دیتے ہیں لیکن شخصیت میں ان کے اندرکے بچے کی ادھم چوکڑی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ انہیں بھی بچوں کا ادیب کہنا درست ہے۔ چار ناول نسل نو کیلئے لکھ چکے ہیں جن میں موج میں دریا، تدبیر اور تقدیر اور جن کا استاد انتہائی پسند کی جا چکی ہیں جبکہ تیسرے نادر شاہ تھے وہ عمر میں چھوٹے ضرور ہیں لیکن کام کے حوالے سے خاصے بڑے ہیں۔ ہدایت کار ایس سلیمان کے اسسٹنٹ رہنے کے بعد ایک ممتاز ٹی وی چینل کیلئے مختلف سیریلز کر چکے ہیں۔ انہیں سفرنامہ ’’پناہ‘‘ اور کاریگر عورت کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ابن آس ایک ممتاز جریدے ’’رابطہ‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ اس وقت ہمارے انٹرویو اور تحریریں بھی رابطہ کی زینت بنی، اب بھی ہم انہیں گھر کی مرغی سمجھ رہے تھے لیکن وہ ابن آس اپنا پبلشنگ ادارہ چلا رہے ہیں ان دوستوں کے ساتھ مل کر۔ جدید دور میں اگر گوگل یا وکی پیڈیا پر انہیں دیکھا جائے تو ان کے کریڈٹ پر 250سے زائد ڈرامے اور 21ناولوں کے معروف مصنف پائے جائیں گے۔ ان میں سے بہو رانی، رانی بیٹی راج کرے گی، چوکھٹ، کلموہی، بابل کی دعائیں لیتی جا اور وجہ تم ہو، نجی چینلز پر کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔ شخصیت کے مطابق اتنے بھاری بھرکم ہرگز نہیں، لیکن کام کا حوالہ ہی نہیں، کامیابیاں متعدد نامور لوگوں سے زیادہ ہیں یعنی ان کی تحریر اور مکالموں سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔ اب پبلشر بننے کے بعدلولی وڈ میں چھلانگ لگانے کیلئے نادر شاہ کے ساتھ کمر کس لی ہے۔ ہمارے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ابن آس ہمارا چھوٹا بھائی ہے۔ اس زبردستی کی ملاقات میں احساس ہوا کہ یہ گینگ آف فور ادب و ثقافت کے میدان میں بہت کچھ نیا کرنے کا عزم رکھتا ہے، اللہ انہیں نظر بد اور حاسدین سے محفوظ رکھے۔ ملاقات قریبا دو گھنٹوں پر محیط تھی لیکن ایسا لگا کہ یہ میرے پرانے دوست و احباب ہیں کیونکہ کوئی کسی سے کم نہیں تھا اور سب کے سب ملنسار ، بات کرنے کا سلیقہ اور گفتگو کے طریقے سے واقف کیوں نہ ہوتے، آخر اہل زبان تھے۔ مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں اور بھی ہو سکتی تھیں لیکن خیال آیا کہ ان لوگوں نے بائی روڈ جانا ہے اس لیے باقی باتیں پھر سہی، میں نے اخلاقی روایات کے مطابق یہ کہہ دیا ’’بہت مختصر ملاقات تھی، تشنگی رہ گئی‘‘۔ ابن آس نے جھٹ سے فرما دیا’’جناب اتنی گفتگو تو ہم نے کسی سے کی نہیں؟ میں نے فوراً جواب دیا ’’آپ کی احسان نوازی کا شکریہ۔‘‘ ایک زوردار قہقہہ لگا اور ہم نے سیلفی سیشن کے بعد انہیں ’’الوداع‘‘ کہہ دیا۔ یہ تھی زبردستی کی ملاقات، زندگی نے وفا کی تو پھر ملیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button