Editorial

توشہ خانہ، کوئی رہ تو نہیں گیا؟

وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا 2002ءسے 2023ءتک کا 21سالہ چار سو چھیالیس صفحات پر مشتمل ریکارڈویب سائٹ کے ذریعے جاری کردیاہے۔ ریکارڈ کے مطابق آصف علی زرداری کو 181،نوازشریف کو 55، شاہد خاقان کو27،عمران خان کو 112اورپرویز مشرف کو 126تحائف ملے ۔وزیراعظم شہباز شریف واحد شخصیت ہیں جنہوں نے کوئی قیمتی تحفہ اپنے پاس نہیں رکھا۔توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور،سابق وزرائے اعظم،وفاقی وزرا،فوجی عہدیداران اورسرکاری افسروںکے نام شامل ہیں۔پرویز مشرف،آصف علی زرداری، ممنون حسین،ظفراللہ جمالی، محمد میاں سومرو، شوکت عزیز، جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی،سید یوسف رضا گیلانی،شاہد خاقان عباسی، میاں نواز شریف،راجہ پرویز اشرف، عمران خان، نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی،وزیر خزانہ اسحاق ڈار،مریم اورنگزیب،بلاول بھٹو،نوید قمر،خواجہ آصف، فواد چودھری،شیخ رشیداحمد، اسدعمر،جہانگیرترین،حفیظ شیخ،سابق وزیر خارجہ عبدالستار، ڈاکٹر عطا ء الرحمن،الطاف ایم سلیم، انور محمود، بریگیڈیئر ندیم تاج،سینیٹرطارق عظیم اور سکندر حیات بوسن قومی توشہ خانہ سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں، توشہ خانہ دراصل ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں ، تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یاپھر کابینہ کی منظوری سے انہیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔2001 کے قوانین کے تحت جن تحائف کی قیمت کا تخمینہ 10 ہزار روپے تک لگایا جاتا ہے ایسے تحائف کو مفت حاصل کیا جا سکتا تھا۔ 10 ہزار روپے سے زائد مالیت کے تحائف کے لیے سرکاری عہدیدار 15 فیصد رقم ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھ سکتے تھے تاہم 2011 میں اس رقم کو 20 فیصد کر دیا گیاتاہم 2018 کے قوانین کے تحت جن تحائف کی قیمت کا تخمینہ 30 ہزار روپے لگتا ہے وہ مفت حاصل کیے جا سکتے ہیںمگر اس سے اوپر کے تحائف کے عوض پچاس فیصد ادائیگی لازم قرار دی گئی ہے۔ توشہ خانے کا معاملہ سیاست دانوں، اُن کے قریبی خاص افراد تک ہی محدود رہتا اگر عدالت عالیہ اسلام آباد اور عدالت عالیہ لاہور اِس معاملے پر کارروائی نہ کرتے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کا 2002ء سے پہلے کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کے توشہ خانہ سے متعلق اجلاس کے میٹنگ منٹس بھی طلب کر لیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ایک روز قبل ہی 2002 سے 2023 تک کا ریکارڈ پبلک کیا تھاتاہم پیر کے روز عدالت عالیہ میں جسٹس عاصم حفیظ نے قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کی درخواست پر سماعت کی اور حکم دیا کہ توشہ خانہ کا 2002ء سے پہلے کا ریکارڈ جس شکل میں بھی موجود ہے پیش کیا جائے، عدالت مکمل جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔ توشہ خانہ کا ریکارڈ منظر عام پر لائے جانے سے پہلے کئی ماہ سے بحث جاری تھی، خصوصاً اِس بحث میں سابق وزیراعظم عمران خان کو ٹارگٹ کے طور پر سامنے رکھاگیا تھا اور شاید بحث یا کوئی ایسا پہلو باقی نہ چھوڑاگیا جس کو اب بھی مخفی پہلو تصور کیا جاسکے، ملکی سیاست اور معاملات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے متذکرہ ریکارڈ اِس حد تک تو نیا ہوسکتا ہے کہ اِس رپورٹ میں تحائف، اُن کی اصل مالیت، ادا کی گئی رقم، استفادہ حاصل کرنے والوں کے نام کے ساتھ دی گئی ہے، وگرنہ توشہ خانہ سے کس دور میں کس حکمران نے استفادہ نہیں کیا ، چونکہ اتحادی جماعتوں کی حکومت نے ریکارڈ کو عام کیا ہے لہٰذا اس کو بعض سیاسی شخصیات یا خاندانوں کے خلاف سازش بھی نہیں کہا جاسکتالیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پہلے توشہ خانہ کی بنیاد پر صرف عمران خان کو ہی تنقید کا سامنا تھا لیکن اب تنقید کرنے والوں کی صفوں میں بھی توشہ خانہ سے استفادہ حاصل کرنے والے نکل آئے ہیںمگر یہ امر اطمینان بخش ہے کہ توشہ خانہ سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں کوئی عام اور غریب پاکستانی شامل نہیں ہے، مگر جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں توشہ خانہ سے اونے پونے داموں اشیا خریدی ہیں وہ تو خود اُن ریاستوں کی مالی مدد کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں سے تحائف ملے تھے، وگرنہ وہ حکم کریں تو اُن کے کارکنان اُن کے سامنے ایسی اشیا کا ڈھیر لگادیں، دیکھا جائے تو ان تحائف میں کوئی بھی چیز دنیا کا عجوبہ نہیں تھی جس کے حصول کے لیے اتنا دل مچلتا، مگر چونکہ اختیار بھی تھا اور خواہش کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی لہٰذا وہ کرتے گئے اور ہم اب پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بلاشبہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کا عکاس ہوتا ہے، ہماری ریاست کے سربراہ جب بھی کسی غیر ملکی مہمان یا شخصیت کو تحفہ دیں گے تو اُس کی خریداری قومی خزانے سے ہوگی مگر جب بدلے میں تحفہ ملے گا تو وہ اونے پونے سے بھی کم داموں میں توشہ خانے کی ’’برکت‘‘ سے اپنا ہوجائے گا۔ توشہ خانہ سے متعلقہ وزارت کے اعلیٰ افسران کی جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ ایسے تحفے کی قیمت جائز اور حقیقی لگائے جس پر سربراہ ِ مملکت کا دل آیا ہو۔ ممکن ہی نہیں ، لہٰذا کاغذات اور حکمرانوں کے پیٹ بھرے گئے، جس حکمران کے جی میں آیا انہوں نے غیر ملکی دورے کے دوران خرچ بھی کیا اور ملنے والے تحائف من مرضی کی قیمت ادا کرکے اپنی ملکیت بھی بنائے۔ پوری فہرست میں ایک عام پاکستان یا غریب پاکستانی کا ذکر کیوں نہیں؟ کیا کبھی نیلامی ہوئی ہو اور لوگوں نے دلچسپی ظاہر نہ کی ہو، ایسا ہوسکتا ہے؟ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمیشہ تحائف کی فہرست جاری کی جاتی اور ملک میں ہی ان تحائف کا نیلام عام کیا جاتا اور جو پیسہ ملتا وہ کسی بہتر کام میں خرچ کیا جاتا ، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھلے ہمارے لیے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ان کو ہم انسانیت کا دشمن اور نجانے کیا کچھ نہیں کہتے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ریاست کے سربراہ کے طور پر ایسے تمام تحائف زیادہ سے زیادہ قیمت میں نیلام کیے اور پھر اسی رقم کو غریبوں، یتیموں اور مساکین کی بھلائی پر خرچ کیا۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا پھرسوشل میڈیا دیکھئے، اُس ہندو بنیا اور ہمارے درمیان فرق صاف معلوم ہوجائے گا۔ کوئی ایسی مثال دی گئی ہے کہ ہمارے فلاں سربراہ نے اپنی جمع پونجی سے عامۃ الناس کی بھلائی کے لیے فلاں کام کیا ہو یا توشہ خانہ کی مہنگی ترین گاڑی یا زیورات بیچ کر عام لوگوں کی بیماری یا بیٹیوں کو بیاہنے کے لیے خرچ کیے ہوں، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی مگر بھارت اوردیگر ممالک میں ایسی مثالیں عام ہیں شاید وہاں کے حکمران توشہ خانہ کی جانب دیکھ کر شرمساری محسوس کرتے ہوں۔ عوامی اجتماعات میں خود کو صادق اور امین کہنے والے ریاست کو ملنے والے تحائف گھر لے گئے وہ بھی مفت کے برابر قیمت ادا کرکے۔ حکومتی عہدے پر فائز شخص کو ملنے والا تحفہ اپنی ملکیت میں رکھنے پر رسول اللہﷺ نے تنبیہ فرمائی ہے اور احادیث مبارکہ کے مطابق حکومتی عہدیداروں کو ملنے والے تحائف ریاست کے خزانہ میں جمع ہونے چاہئیں کیونکہ وہ تحائف ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں ان کو اونے پونے سے بھی کم داموں خریدنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ یہ تحائف انہیں ان کی اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں ملے بلکہ سربراہ مملکت ، حکومتی عہدہ دار ہونے کی وجہ سے ملے ہیں۔ سربراہان مملکت کو ملنے والے تحائف ان کی نہیں بلکہ ریاست کی ملکیت ہوں گے اور ان تحائف کوچھپانا خیانت کے زمرے میں آتا ہے جس کی وعید حدیث مبارک میں آئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ دیگر ممالک کے سربراہان جب وطن عزیز کا دورہ کرتے ہیں تو ان کو تحائف ریاست کے خزانے سے دئیے جاتے ہیں مگر اُن کی جانب سے ملنے والے تحائف خود رکھ لیے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں خود احتسابی کا اخلاقی یا قانونی نظام رائج نہیں ہے اسی لیے حکمران یا طاقت ور طبقے جو بھی کریں گے وہ بالکل صحیح ہی گردانا جائے گا لیکن اگر کو چلو بھر گندم چوری کرتے پکڑاگیا تو اس کا انجام جیل کی سلاخیں ہوں گی۔ بہرکیف توشہ خانے کا معاملہ چند ماہ میں جتنا پکایاگیا اور آنچ بڑھائی گئی اب اس میں پوری طرح اُبال آگیا ہے، عدالت عالیہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ ریاست کی ملکیت ہیں لہٰذا دیکھتے ہیں کہ کون کون ازخود یہ قیمتی تحائف واشگاف اعلان کے ساتھ واپس کرتا ہے کہ اِن تحائف پر اُن کا حق نہیں تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں ایسی کوئی مثال ماضی میں دیکھنے کو ملی اور نہ ہی مستقبل میں دیکھے جانے کی توقع ہے کہ کوئی بھی صاحب اقتدار یا طاقت ور اپنی غلطی کا برملا اعتراف کرے اور اُس کا ملال بھی عوام کو آبدیدہ کرے ۔ چونکہ سابق وزیراعظم کے خلاف توشہ خانہ کا معاملہ اٹھایاگیا تھا مگر عدالتی احکامات کے بعد یہ معاملہ کہیں اور ہی نکل گیا ہے، اِس لیے کہا جاتا ہے کہ جوش میں ہوش کو نہیں کھونا چاہیے، توشہ خانہ کی زیر بحث فہرست میں ایسی شخصیات کے بھی نام شامل ہیں جنہوں نے توشہ خانہ کے معاملے پر تنقید کے پے درپے نشتر چلائے ہوئے تھے۔ توشہ خانہ کو مثال بناکر اگر ہم اسی طرح ایک ایک معاملے کو پوری دیانت داری سے پرکھیں تو شاید ہر معاملے ہی توشہ خانہ ہی لگے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button