ColumnJabaar Ch

ظلِ شاہ .. جبارچودھری

جبارچودھری

 

کسی بھی شخص کی جان اس کی سوچ، عقیدے، فرقے،آئیڈیالوجی ،اصول یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پرنہیں جانی چاہیے۔ یہی پاکستان کا آئین ہے ،یہی قانون ہے اوریہی آج کا کالم۔کوئی بھی ظلِ شاہ گھر سے اپنی جان دینے کے لیے نہیں نکلتااورنہ ہی سیاسی رہنمائوں کو اپنے کارکنوں کو سیاسی ایندھن کے طورپراستعمال کرنے کی اجازت ہے۔ قانون کے محافظوں کا قانون ہاتھ میں لے لینا بھی جرم ہے اور احتجاج کی کامیابی کی ضمانت صرف پولیس کے ساتھ سینگ اڑانے کو قراردینا بھی اول درجے کی بے وقوفی بن گئی ہے۔ہمارے ہاں اگر احتجاج میں املاک کو نقصان نہ پہنچایا۔ کسی پولیس والے پر پتھرنہ مارااور بدلے میں پولیس کی لاٹھی نہ کھالی تو ہمیں وہ احتجاج احتجاج ہی نہیں لگتا۔یہی مائنڈ سیٹ جانیں جانے کا سبب بنتا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیاتھا؟ وہاں جتنے بھی ظلِ شاہ جان سے گئے وہ کونسااپنے گھر سے مرنے نکلے تھے ۔انہیں تو بلایا گیا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر پرپولیس نے حملہ کردیاہے اس لیے قائد کے گھر کو بچانے کے لیے ماڈل ٹاؤن پہنچیں ۔ کارکن پہنچ گئے اس کے بعد بارہ گھنٹے پولیس اور کارکنوں کے درمیان پتھربازی،لاٹھیاں ،آنسوگیس اور آخرکار گولیاں۔چودہ لاشیں گرگئیں لیکن انجام کیا ہوا؟آپ کو یاد ہے نہ ان شہداکے لیے کیا کچھ ہوا۔ دوہزار چودہ کا اسلام آباد کا دھرنا اور پھراس دھرنے میں قادری صاحب کا آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملنا اور اپنی مرضی کی ایف آئی آر۔ا س سانحہ کو آٹھ سال بیت گئے کہاں ہے انصاف؟ مرنے والوں کو ان کے لواحقین اپنے اپنے علاقوں میں لے گئے ۔لوگ دفن ہوگئے ۔ماڈل ٹاؤن کے ایم بلاک میں منہاج القرآن کے مرکز پر ان شہدا کی ایک یاد گار جس میں مرنے والوں کی گرد آلود تصاویر؟
آپ دھرنے کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن پر غم و غصہ دیکھ لیں اور آج کا منہاج القرآن دیکھ لیں۔ وقت کا دھارا سارے زخم مندمل کرگیا۔ کیس کا ٹرائل ابھی تک جے آئی ٹی کی تشکیل پر پھنسا ہوا ہے۔ قادری صاحب کو اُس وقت لگتا تھا کہ کیس کا ٹرائل آہستہ آہستہ چلنا چاہیے تاکہ نون لیگ کی حکومت ختم ہوجائے اور اس کے بعد ان کو بھی معلوم تھا کہ حکومت کس کی آنی ہے اس لیے انہوں نے انتظار کیا یا ان سے انتظار کروایا گیا۔اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا قصاص لینے ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا سے پاکستان آگئے اور نعرہ ماردیا کہ قصاص لیے بغیر یہاں سے جاؤں گا نہیں ۔ اس دوران ان چودہ خاک نشینوں کی سیاسی تجارت شروع ہوئی ۔ عمران خان جس نے دوہزار چودہ کا لانگ مارچ طاہرالقادری کے ساتھ کرنا گوارانہ کیا۔ اسلام آباد میں جاکر بھی الگ پڑاؤ ڈالا۔اسی عمران خان کو ان شہدا پر سیاست کرنے کے لیے منہاج القرآن کے مرکز پربھیجا گیا۔یہاں تک کہ آصف علی زرداری بھی اسی گاڑی کے مسافر بنادیے گئے۔ سب نے مل کرلاہور کے ریگل چوک میں جلسہ کیا۔ ایک ہی اسٹیج پر طاہرالقادری، عمران خان ،آصف زرداری اور شیخ رشید بیٹھ گئے۔
اس جلسے میں ماڈل ٹاؤن کے شہدا کا قصاص لینے کا وعدہ عمران خان نے بھی کیا اورزرداری نے بھی۔ شیخ رشید نے وہ جلادو،مار دو ،آگ لگا دو والی مشہور تقریر کردی۔سب اپنے اپنے گھرچلے گئے، الیکشن میں عمران خان وزیراعظم بن گئے، وہ تین سال چھ ماہ وزیراعظم رہے لیکن انہیں ایک بھی دن سانحہ ماڈل یاد آیا نہ ریگل چوک میں قصاص کے لیے کیا وعدہ یاد رہا بلکہ عمران خان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس افسروں کو دوبارہ نوکریوں پر بحال کردیا۔یہاں تک کہ اس وقت کے مرکزی کردار وزیراعلیٰ شہازشریف کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ تک کو وفاقی سیکریٹری کی پوسٹنگ دے دی اور ڈاکٹر طاہرالقادری جنہوں نے اپنے کارکنوں کی موت کا قصاص لینا تھا وہ ان کارکنوں کا تو دورپاکستان کا ہی راستہ بھول گئے۔آج آٹھ سال بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن صرف کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے۔ نہ اس ملک کی عدلیہ کو کچھ یاد ہے اورنہ ہی اس پارٹی کو۔
مجھے آج سانحہ ماڈل ٹاؤن اس لیے بھی یاد آیا کہ اس دن مرنے والے بھی تو سب ظلِ شاہ ہی تھے۔ سیاسی کارکن،اپنے قائد کی ایک آواز پر جان دینے والے ۔ان کے خون کو بھی اسی طرح خون خاک نشیناں کہا گیا۔ انصاف کے نعرے لگے۔ قصاص جیسے خوشنما الفاظ چنے گئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے کارکن کے ساتھ ایساحادثہ پہلا واقعہ تو نہیں ہے۔ دوہزار چودہ میں فیصل آباد کی ریلی میں جاں بحق پی ٹی آئی کا رکن حق نوازکا بھائی کل ٹی وی پر دہائیاں دے رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا پی ٹی آئی نے۔ان کو خیبر پختونخوا میں نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا۔ پیسے دینے کی بات ہوئی لیکن اسد قیصر جو اس وقت خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر تھے انہوں نے فون سننا بند کردیا۔ مدد کیا کرتے الٹا حق نوازکے لواحقین پر یہ الزام لگادیا کہ انہوں نے نون لیگ سے ڈیل کرلی ہے۔جب کوئی لاش گرتی ہے تو وقت وقتی ابال ایسا ہوتا ہے کہ سب کو لگتا ہے کہ اس کا انتقام لینا تو اب فرض ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ خون صرف اس کے گھر والوں کے لیے رہ جاتا ہے۔پارٹی وقت کے ساتھ سب کو بھول جاتی ہے۔کیا دوہزار چودہ میں ملتان کے جلسے میں پی ٹی آئی کے جو سات کارکن بھگدڑ اور دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے تھے وہ کسی کو یاد ہیں؟کیا شاہ محمود قریشی کو کبھی دیکھا ہے ان کی مدد کرتے؟ کیا وہ اس جلسے میں زندگی قربان کرنے آئے تھے؟
دورکیا جانا دوسال پہلے اسی لاہورمیں تحریک لبیک کے کارکن پولیس سے لڑتے جاں بحق ہوگئے تھے تو کیا ٹی ایل پی والوں نے آسمان کھینچ کر زمین پر رکھ دیا ہے؟مرنے والوں کے جنازے اور ان پر چند جذباتی نعروں کے اور کیا کسی کو کچھ یاد ہے؟یاد رکھیں لاشوں کے باوجود یہی رہنما ان پر سیاست کرلیتے ہیں ۔خون کا سودا کردیا جاتا ہے ۔ احتجاج ہے تو اس کو بھی کچھ شرائط پر ختم کرنا پڑتا ہے۔ سیاست چلتی رہتی ہے لیکن جس گھر ماتم ہوتا ہے ،جس کا بیٹا مرتا ہے دکھ صرف اسی باپ کو بوڑھا کرتا ہے۔
ظل شاہ کے والد کو بھی اس کے بیٹے کا دکھ مزید بوڑھا کردے گا۔پی ٹی آئی والے آج جذباتی نعرے ماررہے ہیں کہ یہ خون کسی کو بھولنے نہیں دیں گے ۔کیا نہیں بھولنے دیں گے؟ آپ کوخود کچھ یاد رہے گا تو بھولنے نہیں دیں گے نا؟ایک بار الیکشن ہوگئے آپ کی حکومت بن گئی تو آپ وزیرمشیربننے کی دوڑمیں خود اتنا مصروف ہوجائیں گے کہ اپنا آپ یاد نہیں رہے گا کسی کے خون کو کیا یاد رکھیں گے آپ؟میں یقین کرلیتا اگر شہید حق نواز آپ کو یاد ہوتا ۔ ملتان کے جلسے میں مرنے والے آپ کویاد ہوتے۔پچیس مئی کے لانگ مارچ میں راوی کے پل سے گر کر مرنے والا بچہ آپ کو یاد ہوتا ۔ظل شاہ بھی سیاست کا ایندھن بنے گا اور آپ آگے نکل جائیں گے۔
پھر ظل شاہ کو تو سیاست کی بھینٹ چڑھا ہی دیا ہے سب نے۔یہ تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کن حالات میں مارا گیا۔اگر اس کو اتفاق ہی سمجھ لیا جائے کہ ظل شاہ کی لاش سڑک کنارے پڑی تھی اور اس کو کسی اور نے نہیں دیکھا بلکہ نظر بھی پڑی تو پی ٹی آئی کے رہنماکی۔گاڑی بھی پی ٹی آئی کی تھی اٹھانے والے بھی پی ٹی آئی کے تھے ۔ہسپتال چھوڑ کرفرار ہونے والے بھی پی ٹی آئی کے ہی لوگ تھے۔ چلیں یہ اتفاق ہوسکتا ہے لیکن یہ کب سے ہونے لگا ہے کہ پاکستان ہو، لاہورشہرہو اور کوئی لاش سڑک کنارے پڑی ہو اور اس لاش کو دیکھ کر کوئی ریسکیو ون ون ٹوٹو کو کال نہ کرے؟کوئی خود سے کسی لاش کو اٹھانے کی ہمت پکڑ لے؟پولیس کو کال نہ کرے؟خود ہی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال لے جائے لیکن پولیس کو خبر نہ کرے؟پی ٹی آئی کا نائب صدرہو یہ بھی معلوم ہو کہ ظل شاہ ان کا ہی کارکن ہے پھر بھی شور نہ کرے؟ سڑک بند کرکے احتجاج نہ کرے ؟اور ہسپتال میں جاکر آسمان سر پر اٹھانے کی بجائے پتلی گلی سے نکل جائے؟اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے علم میں ہو کہ ان کی پارٹی کے کالے ڈالے کی سی سی ٹی وی چینلز پر چل رہی ہے پولیس اس کو تلاش کررہی ہے لیکن پوری پارٹی پر سکوت مرگ طاری ہوجائے؟
سوال دونوں طرف ہیں۔ اگر پولیس پر سوال ہیں تو پی ٹی آئی پر بھی بہت سے سوال ہیں۔اگر کسی نے یہ سوچا کہ لاش مل گئی ہے جیسے بھی گری ہو لاش تو ہے اس پر کھیل لیتے ہیں تو یہ ظلم صرف ظل شاہ پر نہیں ہے بلکہ ہر اس سیاسی کارکن پر ظلم ہے جو تاریک راہوں پہ مارا گیا۔اللہ مرحوم ظل شاہ کے والد کو صبر جمیل عطافرمائے اور ان کو انصاف دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button