ColumnRoshan Lal

سیاسی انجینئرنگ کہاں تک جاپہنچی؟ .. روشن لعل

روشن لعل

 

جب غیر سیاسی لوگ مخصوص مقاصد کے تحت اپنی خواہشوں کے مطابق سیاسی نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنے عہدوں اورمالی طاقت کے بل پر جوڑ توڑاور سازشیں کرتے ہوئے ریاستی و غیر ریاستی افراد اور محکموںکو ایسے استعمال کریں کہ جس کی محکمانہ ڈسپلن اور آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہ ہو تو اس طرح کی کارروائیوں کو سیاسی انجینئرنگ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ’’ سیاسی انجینئرنگ‘‘ کی بیان کردہ تعریف کے علاوہ بھی کوئی تعارف ہو مگر راقم نے وطن عزیز میں سیاسی انجینئرنگ کے ضمن میں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اسی کا خاکہ پیش کیاہے۔ یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ مخصوص سیاسی نتائج حاصل کرنے کے لیے جو سازشیں اور جوڑ توڑکیا جاتا ہے اسے کوئی اور نام دینے کی بجائے سیاسی انجینئرنگ ہی کیوں کہا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ انجینئرنگ میں بنیادی کام ڈیزائن کا ہوتا ہے ، انجینئرنگ میںکسی ڈیزائن کی تیاری کے بعدہی اس میں ظاہر کیے گئے خاکے اور پیمائشوں کے مطابق تعمیر اور ساخت کے آئندہ مراحل طے کیے جاتے ہیں۔ جب سیاست میں پہلے سے تیار شدہ ڈیزائن کے مطابق جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے تو’’ڈیزائن‘‘ کے مفہوم کی مناسبت سے اس طرح کی کارروائیوں کو سیاسی انجینئرنگ کا نام دیا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کا آغاز پاکستان سے نہیں ہوابلکہ یہاں اس وقت سیاسی انجینئرنگ کو زور شور سے بروئے کار لایا گیاجب دنیا کے دیگر ملکوں میںاس اصطلاح سے وابستہ کارروائیاں متروک ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ پاکستان میں تو یہ بھی ہوا کہ انتہائی دیدہ دلیری سے سیاسی انجینئرنگ کرتے ہوئے وہ کام بھی کر دیئے گئے جن کی دنیا میں کہیں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں جاری و ساری سیاسی انجینئرنگ کی طویل اور انتہائی افسوسناک تفصیل مکمل طور پر تو بیان نہیںکی جاسکتی مگر یہ ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ یہاں سیاسی انجینئرنگ کی کارروائیاں کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہیں۔
سیاسی انجینئرنگ کی جس نمایاں مثال کے بعد پاکستان میں تسلسل کے ساتھ یہ کام کیا گیا وہ ستمبر 1988 میں نو جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا کر قائم کی گئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کے لیے جنرل(ر) حمید گل نے اپنے سرکاری عہدے اور ادارے کی طاقت کا بے دریغ غلط استعمال کیا۔ ان کے اس کردار کا مقصدپیپلز پارٹی کو ہر صورت میں اقتدار سے دور رکھنا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد بنانے سے قبل جنرل(ر) اسلم بیک نے سیاسی انجینئرنگ کے تحت ہی سپریم کورٹ کے ججوں کو پیغام بھیج کر محمد خان جونیجو کی حکومت بحال کرنے سے روکا تھا۔اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کے لیے جو مالی وسائل صرف ہوئے وہ کہاں سے دستیاب ہوئے اس کی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آسکی مگر یہ بات ہر کسی پر عیاں ہے کہ 1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے لیے کی جانے والی سیاسی انجینئرنگ کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنمائوں کو مہران بنک دیوالیہ کرکے بھاری رقوم کی فراہمی کی گئی تھیں ۔ جنرل (ر)اسد درانی کے حلفیہ اقرار کے بعد سیاسی رہنمائوں کو بھاری رقم فراہم کرنے کی تفصیل سامنے آئی۔ 1990 کے عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو شہید کی وزارت عظمیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، ان کی حکومت کے خاتمے اور بحالی کی درخواستوں کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے جیسے امورمیں سیاسی انجینئرنگ کرتے ہوئے مداخلت کی جاتی رہی۔ 1990 کے انتخابات میں پہلے میاں نوازشریف کو سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے وزیر اعظم منتخب کروایاگیا اورپھر 1993 میں ان کی حکومت کا خاتمہ تھی سیاسی انجینئرنگ کے تحت ہی ہوا۔ میاں نوازشریف کی پہلی حکومت کے خاتمے سے قبل ہونیوالی سیاسی انجینئرنگ کے دوران طاقتور ریاستی محکموں، عدلیہ ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے جو لوگ کل پرزوں کے طور پر کام کرتے رہے ان کے ایسا کرنے میں ذاتی مفادات کے حصول کے علاوہ ایک خاص قسم کے فہم اور نقطہ نظر سے ان کی وابستگی کا بھی عمل دخل تھا۔ خاص قسم کے نقطہ نظر سے وابستگی اور مالی مفادات کی وجہ سے ضیا دور میں یہاں بااثر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا جو اتحاد بنا تھا وہ میاں نوازشریف کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد تقسیم ہونا شروع ہوگیا۔ میاں نوازشریف قبل ازیں یہاں سیاسی انجینئرنگ کرنے والے اتحاد کا اہم جزو تھے،ا مگر اپنی حکومت ختم کیے جانے پر انہوں نے اس اتحاد سے الگ ہو کر خود سے سیاسی انجینئرنگ کا کام کرنا شروع کردیا۔ جن الزامات کے تحت 1990 میں بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت توڑی گئی تھی ویسے ہی الزامات کے لگا کر1993 میں میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا مگر یکساں الزامات کے باوجود جن ججوں نے بے نظیر کی حکومت کے خاتمے پر تصدیق کی مہر ثبت کی تھی، انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت بحال کردی۔ بے نظیر بھٹو شہید نے میاں نوازشریف کی حکومت کی بحالی کے فیصلے کو چمک کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کہ اس بیان سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ اب یہاں سیاسی انجینئرنگ صرف محکموں کی طاقت ہی نہیں بلکہ دولت کی طاقت کے بل پر کرنا بھی ممکن ہو گیا ہے۔ گو کہ اس وقت دولت کے مقابلے میں طاقت کا پلڑا بھاری ثابت ہوا اور میاں نوازشریف کو اپنی حکومت کی بحالی کے حق میں آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بھی مستعفی ہونا پڑا مگر اس کے بعد سیاسی انجینئرنگ کے لیے شیروشکر ہو کر کام کرنے والے اتحاد میں تقسیم کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقسیم در تقسیم کی طرف چل نکلا ۔
پہلے پہل تو یہاں طاقتور ریاستی محکموں ، عدلیہ ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے مل کر سیاسی انجینئرنگ کا کام کیا ۔ اس کے بعدان شعبوں کے کلیدی لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کو شعبے کا مفاد قرار دے کر الگ حیثیت میں بھی سیاسی انجینئرنگ کرنا شروع کردی۔ اس طرح سیاسی انجینئرنگ کے کام میں پہلے مختلف شعبے تقسیم ہوئے اور پھر ان شعبوں کے اندر تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو گیا۔ زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد کے لیے سرکرداں ہونے کے باوجود سیاسی انجینئرنگ کا کام کیونکہ مختلف شعبوں کے ایک دوسرے سے تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اس لیے سیاسی انجینئرنگ کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ مجبوراً تعاون کرتے نظر آنے والوں میںتقسیم واضح طور پر دکھائی نہ دے سکی۔ حالیہ صورتحال یہ ہے کہ تقسیم صرف مختلف شعبوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ شعبوں کے اندر موجود لوگوں کے بیچ بھی نمایاں طور پر نظر آنے لگی ہے ۔ یہ بات اب ہر کسی پر عیاں ہے کہ کلیدی عہدے رکھنے والے ہی نہیں بلکہ ان کے ماتحت بھی موقع ملنے پر ذاتی مفاد کے لیے ذاتی طور پر سیاسی انجینئرنگ کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ قصہ مختصر یہ کہ سیاسی انجینئرنگ کے لیے مشہور شعبوں کے لوگوں میں تقسیم اس حد پہنچ چکی ہے کہ ان کی باہمی چپقلش ملک کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے ۔ عجیب بات ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے عمل نے کہاں سے کہاں پہنچ کر ملک کے وجود تک کو چیلنج کر دیا ہے مگر پھر بھی یہاں لوگ سیاسی انجینئرنگ سے گریز کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button