ColumnNasir Sherazi

لاش ملنے پر اطمینان کیسا تھا! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی خواہش پر صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑی جاچکی تھیں۔ مطالبہ تھا کہ حکومت انتخابات کرائے جب عدالت کے حکم پرانتخابات کی تاریخ دے دی گئی تو ایک نیا مطالبہ سامنے رکھاگیا کہ قومی اسمبلی بھی توڑی جائے اور اس کے انتخابات بھی ساتھ ہی کرائے جائیں۔ فریق ثانی کاموقف تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ مرکز میں کوئی سیاسی انتشار نہیں لہٰذا وہاں انتخابات کی ضرورت ہے نہ کرائے جائیںگے کیونکہ وہاں اسمبلیوں میں موجودممبران عوامی مینڈیٹ رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کا اصرار جاری رہا کہ چونکہ ہماری اکثریتی اسمبلیوں میں ہمارا مینڈیٹ نہیں رہا تو دوسروں کا مینڈیٹ بھی ختم کیا جائے۔
اپنی بات منوانے کے لیے عوام کو سڑکوںپر لانے کے لیے متعددمرتبہ کوششیں کی گئیں، اس حوالے سے متعدد ناکامیوںکے بعد عدلیہ بحالی کے نام پر ریلی نکالی گئی۔ یاد رہے کہ عدلیہ نے خان صاحب اور دیگر لیڈروں کو متعدد مواقعوں پرریلیف فراہم کیا جو ناخوش تھے وہ خوش نہ ہوئے۔
عدلیہ بحالی تحریک نے زمان پارک سے آغازکرنا تھا جبکہ منصوبے کے مطابق عورت مارچ نے ایجرٹن روڈ کی طرف سے بڑھتے ہوئیریلی میں شریک ہوکر اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق رنگِ محل کو دوآتشہ کرنا تھا۔ حکومت نے ریلی کے پروگرام کو چند روز آگے لے جانے کے لیے مشورہ دیا اور بتایا کہ جشن بہاراں کے ساتھ پی ایس ایل کرکٹ میچ جاری ہیں کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ نہ ماننے والے نہ مانے اور ریلی کا آغاز ہوگیا، جسے منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج کی نوبت آئی کیونکہ تحریک انصاف کے کارکن عدلیہ بچانے کے لیے ڈنڈے، سریے اور لاٹھیاں لیکر آئے تھے۔
دن قدرے ڈھل چکا تھا کہ دو افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر آئی جس کے مطابق ایک پولیس اہلکار اور ایک سیاسی کارکن زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج پانچ روز بیت گئے علی بلال عرف ظل شاہ نامی کارکن کی بات ہر فورم پر ہورہی ہے لیکن جاں بحق ہونے والے اہلکار کاذکر کہیں نہیں۔ شاید وہ کسی کا بھائی تھا نہ بیٹا ،باپ تھا نہ کسی گھرانے کا سربراہ، شاید وہ انسان ہی نہ تھا کہ اس کی موت کا کوئی غم کرے۔ مجھے دونوں کی موت کا افسوس ہے، ایک فرائض کی بجاآوری میںدوسرا اپنے سیاسی قائد عمران خان کی محبت میںجان کی بازی ہارگیا۔
تحریک انصاف کی مختلف ریلیوں اور احتجاجی مارچوں میں نصف درجن افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، علی بلال عرف ظل شاہ کا تعلق کارکنوں کے اُس قبیلے سے تھا جو اپنے لیڈروں کی بلٹ پروف گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے، ان کے دروازوں سے لٹکتے اور ڈھول باجوں کے ساتھ اُن کے آگے آگے رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ میدان سیاست کے نمرود جب آگ کا الائو دہکاتے ہیں تو یہ سیدھے سادھے معصوم و مخلص کارکن ان کی محبت میں اس آگ میں کود جاتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی ابابیلیں اپنی چونچ میں پانی لاکر اس آگ کو بجھانے کا فریضہ انجام نہیں دیتیں بلکہ الائو سے دور کہیں آراستہ کمرے میں بیٹھ کر پرس سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ تازہ کرنے میںمصروف ہوتی ہیں۔ یہ لوگ جن کے لیے اپنی جان دے دیتے ہیں وہ اپنی جان کے خطرے کا بہانہ بناکر ان مخلص پروانوں کے جنازوں میں بھی شرکت نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیںان کی جان اثاثہ ہے جبکہ کارکنوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں میں اس اعتبار سے بہت بے چینی ہے کہ عمران خان آج تک کسی کارکن کے جنازے میں شریک نہیںہوئے۔
وہ اپنے بتیس برس کے ساتھی، دست راست اور اپنی حکومت میں اپنے چیف آف سٹاف نعیم الحق کے جنازے میں بھی شریک نہ ہوئے۔ وہ اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے، اس وقت انکی جان کو کیا خطرہ تھا، سینکڑوں افراد ان کی حفاظت پر مامور تھے مگروہ نہ گئے اس حوالے سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اور ان کے ساتھیوں نے اچھی مثال پیش کی وہ عبدالستار ایدھی کے علاوہ متعدد شہدا کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے وہ ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرتے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے اور بعد ازاں ان کی خبرگیری کرتے نظر آتے۔
عمران خان نے تعزیت کا نیا انداز متعارف کرایا ہے وہ مرنے والے کے اہل خانہ کو اپنے گھر طلب کرکے اظہار کرتے ہیں، انہوں نے نعیم الحق مرحوم کے اہل خانہ کوبنی گالہ بلایا انہیں لان میں بٹھاکر فاتحہ پڑھی اورانہیں وہیں سے اُسی وقت رخصت کردیا،علی بلال کے والد کوبھی اسی اندازمیں بلاکر اظہار تعزیت کیاگیا ہے۔
علی بلال کی موت کے حوالے سے روز اول کہاگیا کہ وہ پولیس تشدد سے مارا گیاہے، کہانی کو خوب ہوادی گئی، راز اس وقت کھلا جب لاہور کینٹ میں شیرپائو پل کے پاس ایک گاڑی کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے شخص کی ویڈیو منظر عام پر آئی پھر اس کی لاش کو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے راجہ شکیل اور اس کے سٹاف نے فٹ پاتھ سے اٹھاکر ہسپتال پہنچایا اور غائب ہوگئے۔
یہ علاقہ میرے گھر کے بہت قریب ہے، میں دن میں چارمرتبہ یہاں سے گذرتا ہوں یہاں سڑک کے آر پار ہر گھر کے باہر کیمرے لگے ہیں جبکہ قریب ہی سکیورٹی کا مستقل ناکہ بھی ہے۔ یہاںسے ملنے والے ثبوت کہانی کو واضح کردیں گے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلی کے دوران پولیس نے کچھ پُرتشدد مظاہرین کو گرفتارکیا جنہیں بعد ازاں کچھ دور لے جاکر چھوڑ دیاگیا جس کے بعد ایک گاڑی نے فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چلتے علی بلال کو ٹکر ماری وہ اچھل کر قلابازیاں کھاتا دور جاگرا اور جاں بحق ہوگیا۔ پی ٹی آئی کی سابق وزیر صحت یاسمین راشد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی کہ علی بلال کوفٹ پاتھ کے کنارے سے اٹھاکرہسپتال پہنچانے والا گاڑی کا مالک راجہ شکیل اور اس کا سٹاف ہے۔ یاسمین راشد واقعے کے دو روز بعد تک خاموش رہیں، انہوں نے اس حوالے سے کسی کو کچھ نہ بتایا لیکن بات کھل جانے کے بعد وہ یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئیں لیکن انہوں نے دو روز تک اپنے خاموش رہنے کی کوئی معقول وجہ بیان نہیںکی۔اب ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسا تو نہیں کہ پولیس نے علی بلال اور دیگر کارکنوں کو ہدایت کے مطابق رہا کردیا لیکن اس کے بعد کسی اورنے انہیں اپنی گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کردیا تاکہ الزام حکومت اور پولیس پردھرا جاسکے اوریوں حکومت مخالف تحریک میں جان ڈالی جاسکے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اسی وجہ سے دو روز خاموش رہیں، وہ ڈاکٹر ہیں انہیں تو اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی بذات خود ہسپتال پہنچنا چاہیے تھا وہ دو روز کس کے کہنے پر اورکیوں خاموش رہیں، ایک لاش ملنے پر یہ اطمینان کیسا تھا، لاش بھی اس کارکن کی جو گذشتہ کئی ماہ عمران خان سے ملنے کی کوشش کرتا رہا اس کی آنکھیں آخری لمحے تک اس کی منتظر رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button