Editorial

سانحات سے سبق سیکھیں!

 

دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوریت کسی نہ کسی سطح یا شکل میں موجود ہے وہاں طریقہ انتخاب اور پارلیمان کم و بیش ایک سا ہے۔ بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میںجمہوریت کو وہ مقام حاصل ہوتاہے جس کا ترقی پذیر ممالک میں تصور بھی ممکن نہیں ہوتا ، اُن جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور انتخابات سے قبل عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں جس میں اُس جماعت کے منصوبے، پروگرام، داخلی و خارجی حکمت عملی، غربت کا خاتمہ، تعلیم و صحت اور دفاع جیسے اہم امور شامل ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں کے ووٹرز تمام جماعتوں کے منشور سامنے رکھ کر بہتر منشور والی پارٹی کو ووٹ دیکر کامیاب بناتے ہیں اور پھر وہ جماعتیں اپنے وعدے کے مطابق اپنے منشور پر من و عن عمل کرکے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اپنی راہ ہموارکرتی ہیں دوسری طرف ہم اور ہمارے جیسے کئی ممالک میں منشور تو عوام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں لیکن کم و بیش اُن کے تمام ہی نکات ناقابل عمل ہوتے ہیں ایک تو منشور کتاب کی شکل میں سامنے لایا جاتا ہے تو دوسرا زبانی کلامی اور جذباتی منشور ہوتا ہے اِس منشور میں سیاسی مخالفین کو سڑکوں پرگھسیٹنے، اُن کے پیٹ پھاڑ کر قوم کی پائی پائی برآمد کرنا اور چوراہوں پر اُلٹا لٹکانے اور حزب اختلاف کے دور میں اُن پر ظلم ڈھانے والے افسران کو نشان عبرت بنانے جیسے نکات شامل ہوتے ہیں۔ ماضی کو دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے کتابی منشور کبھی پورے نہیں ہوئے، کبھی ووٹرز کو لبھانے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا لالچ دیا جاتا ہے۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کیے جاتے ہیں توکبھی ملک کے غریبوں کو امیروں کو برابر لاکھڑا کرنے کے سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں، لہٰذا دیکھا جاسکتا ہے کہ اُن منشوروں میںکیا وعدہ کیا تھا اور آج ہم کن حالات سے گذر رہے ہیں۔ سبھی جذباتی نعرے اور ووٹرز کو لبھانے والی باتیں ہوتی ہیں لیکن قریباً دو دہائیوں سے ہمارے سیاست دانوں نے خطرناک طرز عمل اختیار کرلیا ہے، دوسرے کے خلاف وطن سے غداری اور اِس جیسے خوفناک الزامات لگانا اور اشتعال انگیز تقاریر سے جذباتی اور کم علم ووٹر کو متوجہ کرنے کی روش انتہائی خطرناک ہوچکی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگوں میں نچلی سطح پر عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے اور لوگ نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر سامنے والے کے خلاف کسی بھی حد پر چلے جاتے ہیں اور بسااوقات سیاسی قیادت اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لانگ مارچ اور دھرنے جیسے جمہوری عمل کو اپناتی تو ہے مگر مہذب ممالک اور معاشروں کے برعکس ہمارے یہاں وہ جمہوری عمل پُرتشدد شکل اختیار کرجاتاہے۔ ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی پر کتنی بار اور کس کس نے کارکنوں کے ساتھ لشکر کشی نہیں کی ، جمہوری روایات کو روندتے ہوئے ہجوم آئینی ادارے کی دیواریں پھلانگتا ہے، سکیورٹی ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے آگے آئیں تو پھر تصادم۔ خدانخواستہ جانی نقصان اور پھر ملک گیر سطح پر احتجاج، جلائو اور گھیرائو۔ یہی نہیں ایسے پُرتشدد واقعات کی بھی کمی نہیں جس میں بے چارے ورکر ایندھن بنتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہورمیں رونماہوا اورچودہ افراد پولیس کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے لقمہ اجل بنے، قومی اسمبلی اور اسلام آباد میں قومی اداروں کی عمارات پر یلغار ہوئی تب بھی ورکر ہی لقمہ اجل بنے لہٰذا فیض آباد کا دھرنا ہو یا پھر زمان پارک۔ پہلے تو ایسے واقعات کا رونما ہونا ہی ہمارے لیے افسوس ناک ہے،ایسا کونسا تنازع ہے جس کو افہام و تفہیم اور سیاسی رواداری کے ذریعے حل نہیں کیاجاسکتا مگر جب فریقین کسی بھی حد تک جانے کے لیے بضد ہوں تو پھر سانحہ ماڈل ٹائون اور فیض آباد جیسے سانحات رونما ہونا یقینی ہوتا ہے۔ اب سوشل میڈیاکا جدید دور ہے، اور ایک پل میں پوری دنیا کے سامنے سب کچھ عیاں ہوجاتا ہے، آٹھ مارچ کو زمان پارک میں جو کچھ ہوا اِس کو قطعی سیاسی طرز عمل نہیں کہا جاسکتا، ظل شاہ کی قیمتی جان چلی گئی، وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور پولیس کے سربراہ اپنا موقف پیش کرچکے، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر مرکزی رہنما بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ظل شاہ حادثے کا شکار ہوا یا اِسے تشدد کے ذریعے مارا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی قوتوں کو عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ ایسے واقعات کی ضرورت رہتی ہے؟ ظل شاہ اور اِس سے پہلے کتنے ہی سیاسی کارکن اپنی قیادت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے واقعات کا تصور بھی نہیں ہوتا مگرہمارے یہاں ہمیشہ ایسی صورتحال اور اُس کے نتیجے میں ایسے افسوس ناک واقعات کا رونما ہونا جیسے لازم ہوچکا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ فیض آباد اور سانحہ زمان پارک سمیت جتنے بھی ایسے سانحات ہوئے ہیں ان میں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ سیاسی طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف اِس حد تک آگے نہیں بڑھناچاہیے جتنا اب تک بڑھاجاچکا ہے، یاد رکھیے ماضی میں میاں محمد نوازشریف، احسن اقبال ، عمران خان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ بعض واقعات تو جان لیوا تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے قوم کو بڑے سانحے سے بچایا، احسن اقبال کو بازو میں گولی لگی، عمران خان بھی وزیرآباد میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے جبکہ بینظیر بھٹو ایسے ہی ایک حملے میں شہید ہوگئیں۔ لہٰذا سیاسی قوتوں سے التماس ہے کہ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے ، اِس لیے اپنے دور اقتدار میں سیاسی مخالفین کو انتقام کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے اپنے اپنے منشور پر عمل درآمد کرکے عوام میں جائیں ، مہذب معاشروں میں لاشوں کی سیاست کا تصور بھی نہیں اور ہر سیاسی جماعت منشور کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر ہمارے یہاں مرحوم و مقتول کے نام پر دہائیوں تک سیاست کی جاتی ہے اور سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کے ہیں انہیں اپنی جماعت کے اندر بھی عزت اور جائز مقام ملنا چاہیے اور اِس کی معاشرے میں بھی عزت ہونی چاہیے، نہ کہ کارکنوں کو دور اقتدار میں فراموش کردیاجائے اور جب اقتدار سمیت سب کچھ چھن جائے تو کارکنوں کے صدقے واری جایا جائے۔ ظل شاہ کا تعلق اگرچہ تحریک انصاف کے ساتھ تھا مگر ہر سیاسی پارٹی میں ایسے سینکڑوں اور ہزاروں ’’ظل شاہ‘‘ ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت سیاسی ایندھن بن جاتے ہیں اور اِن کا کچھ عرصے کے بعد نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ ہماری سیاسی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ کب تک سیاسی ورکرز کی جگہ ایسے ’’ایندھن‘‘ کو جمع کیا جاتا رہے گا، ہم کیوں منشور کو قابل عمل نہیں بناتے اور پھر اُس پر عمل کرتے؟ سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی غیر پارلیمانی باتیں کرکے سادہ لوح ورکرز کو اُکساتے ہیں۔ سیاسی قیادت کو اپنے طرز عمل میں مثبت تبدیلی لانی چاہیے اور ہمہ وقت مدنظر رہنا چاہیے کہ آج حزب اقتدار جو کچھ کرے گی کل کو اُس کا ویسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ترقی اور خوش حالی کی انتہا ہو تو کون نفی کرے گا مگر سیاسی مخاصمت کی انتہا اور عدم برداشت بے حد خطرناک ہے۔ ظل شاہ مرحوم کے قتل پر سبھی کو افسوس کرنا چاہیے، ایک غریب کارکن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ملک میں تبدیلی اور خوشحالی کا خواہاں تھا لیکن سیاست کی ہی نذر ہوگیا۔ خدارا اپنا طرز عمل بدلیں یہی روش برقراررہی تو کل کلاں کسی کے لخت جگر، کسی کے بھائی، کسی کے شوہر کے ساتھ بھی وہی سب کچھ ہوسکتا ہے جو مرحوم علی بلال عرف ظل شاہ کے ساتھ ہوا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button