ColumnNasir Naqvi

آئی ایم ایف ،ٹھاہ! .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

پاکستانی عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کا وعدہ کرکے برسراقتدار آنے والی اتحادی حکومت ناکام اور پاکستان ڈیفالٹ۔ یہ دونوں خبریں میری یا عوام کی جانب سے ہرگز نہیں بلکہ حکومتی ذمہ دار وزراء کی جانب سے دی گئی ہیں۔ حکومت مخالف تالیاں بجا رہے ہیں اور حکومتی شوروغوغا ہے کہ یہ کرامات سابقہ عمرانی حکومت کی غلط منصوبہ بندی، آئی ایم ایف معاہدہ، معاہدے کی خلاف وزری اور مجبوراً شرائط تسلیم کرنا ہیں یعنی دو جانب سے الزامات کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔ یہ الزامات کی لڑائی اور خطرناک آگ اگر سیاسی حلقوں تک رہتی تو کسی حد تک برداشت ہو سکتی تھی لیکن ا س نے ریاستی اداروں اور ان کے سربراہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ایک محب وطن پاکستانی کی نظر سے تجزیہ یا موازنہ کیا جائے تو حمام میں سب ننگے دکھائی دیں گے۔ کچھ اقتدار کی ہوس میں اور کچھ اقتدار کے غم میں، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اپنی اتحادی حکومت کا دفاع نہ کر سکے، بول پڑے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حالات سے مجبور ہو کر پھٹ پڑے تو بے جا نہ ہو گا اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ خود جذباتی ہو کر بولے کہ انہیں کسی منصوبے کے تحت جذباتی کرنے کا ٹیکہ لگایا گیا۔ شک کی گنجائش، محض اس لیے ہے کہ وہ سیاست دان ہوتے ہوئے پورا سچ کیونکر بولے؟ حکومت، اتحادی اور ارسطو وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ہم نے سخت، مشکل اور ناپسندیدہ فیصلے کر کے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، ڈالر تھوڑا کمزور پڑا اور آئی ایم ایف بھی آن پہنچی لہٰذا ایک معمولی سا تاثر نکلا کہ شاید معاملات بہتر ہونے کی امید پیدا ہو گئی، ایسے میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سچ بول کر ’’بھانپڑ‘‘ بال دئیے کہ ہم دیوالیہ ملک کے شہری ہیں۔ پاکستان دیوالیہ ہو چکا۔ ہمارے مسائل کا حل آئی ایم ایف کے پاس بھی نہیں، ہمیں خود کچھ کرنا ہو گا۔ دو سال پہلے یہاں دہشت گردی کو بسایا گیا لہٰذا اب دہشت گردی مقدر بن چکی ہے، خاتمہ چاہتے ہیں تو جانی و مالی قربانیاں دینا ہوں گی۔ حالات کو سنوارنے کے لیے صدق دل سے اپنے گریبانوں میں جھانک کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار صرف سیاستدان ہی نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی بھی شامل ہے۔ ان کا یہ بھاشن مصیبت کے مارے غریب لوگوں کو پسند آیا کہ حکومتی ایوان میں کسی نے تو درد محسوس کیا لیکن یوٹرن کے زمانے سے متاثر ہو کر دوسرے دن ہی فرمانے لگے کہ ہمارا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا۔ ڈیفالٹ کی صورت نہیں بن رہی۔ ملک کی آدھی آبادی غربت اور آدھی عیاشی کی زندگی گزار رہی ہے۔ا نہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ ریکارڈ کے مطابق ایف بی آر اور ادارے ریونیو جمع کرنے میں ناکام ہیں۔ حقیقت میں بڑے بڑے ادارے اور کمپنیاں ڈیفالٹ ہو چکی ہیں۔ ملک کے لیے زرمبادلہ بنانے والی چیزوں کے مقابلے میں نئے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ ہم نے مال روڈ لاہو رپر سینکڑوں کنال پر محیط کلب صرف چار ہزار روپے کرایہ پر اشرافیہ کودے رکھا ہے اور غریب بستیوں پر بلڈوزر چلا کر ان کی غربت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ دو عملی ہمیں کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دے گی۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی باتوں سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا ، مگر ان بیانات کی روشنی میں جو سوال ابھرتے ہیں ان کے جواب بھی خواجہ آصف اور ہمنوائوں کو دینے چاہئیں۔ پہلی بات قوم آئی ایم ایف سے نجات چاہتی ہے ان کی حکومت نے ہی اس کے قرضے کو لائف لائن اور تریاق قرار دیا۔ اب جان چھڑانے اور اپنی مدد آپ کی بات کر رہے ہیں۔ واضح فرمان جاری کیا کہ ہمارے مسائل کا حل آئی ایم ایف کے پاس نہیں، تو بتائیں منت ترلے کیو ں کئے، پائو ں پکڑنے کی نوبت کیوں آئی؟ کیا یہ سب کچھ عوام کے دبائو میں کیا گیا؟ کیا عوام نے حکومت کے سخت اور ناپسندیدہ فیصلے قبول نہیں کئے؟ حل بتائیں۔ پاکستان نہیں، سیاستدان اور سیاسی مفادات میں مصلحت پسندی کا مظاہرہ نہ کریں۔ آپ کے لیڈر نے ماضی میں ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ تحریک چلائی تو عوامی معاونت تاریخی تھی لیکن نہ اس کا کوئی نتیجہ نکلا، نہ ہی ملک و قوم کو بننے سنورنے کی راہ دکھائی دی۔ فارن کرنسی اکائونٹ بحق سرکار ضبط کر لیے گئے۔ کسی نے کوئی احتجاج اس لیے نہیں کیا کہ ایسا اجتماعی مفادات میں کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ پاکستان کا ہر شہری ملکی سلامتی اور خوشحالی و ترقی کے لیے ہر قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے لیکن اعتماد تو بحال کیا جائے اور یہ ذمہ داری حکومت اور منتخب نمائندوں کی ہے کہ عوام کو آگاہی دے کہ نفع و نقصان کیا ہے؟ قوم تو ایک اشارے پر ’’آئی ایم ایف ،ٹھاہ‘‘ کہنے کو تیار ہے، اسے پتا ہے کہ یہ انٹرنیشنل ٹھگوں کا ٹولہ ہے لیکن اس بات کا جب تک حکمرانون کو ادراک نہیں ہو گا کچھ نہیں ہو سکے گا۔
اب معاملہ یہ زیر بحث ہو سکتا ہے، ایسی مشکل صورت حال میں ہو کیا سکتا ہے اور کیسے؟ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ٹیکس غریب نہیں، امیر دیں گے۔ تمام تر بوجھ اشرافیہ پر ڈالا جائے گا لیکن بکریاں تو بکریوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ حکمران نمائندے ضرور غریب عوام کے ہیں پھر بھی تعلق تو اشرافیہ ہی سے ہے۔ لہٰذا اس وعدے پر بھرپور انداز میں عمل درآمد نہیں ہو سکا تاہم جو کچھ ہو سکا اس میں بھی شامت غریب اور متوسط طبقے ہی کی آئی ہے۔ آپ صرف معمولی سی بات سے اندازہ لگا لیں، حکومتی دعویٰ تھا کہ غریب کے محافظ بنیں گے، وہ پہلے ہی پسا ہوا ہے اسے زندہ رہنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن ’’منی بجٹ بم‘‘ نے اس کی سفید پوشی کو بھسم کر دیا۔ اب کوئی کسی سے موٹر سائیکل یا سگریٹ مانگے تو اچھے بھلے برسوں کے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں اور مانگنے والا زیادہ بضد ہو جائے تو غیر کا نہیں، اپنے پیاروں کا ہاتھ گریبان تک پہنچ جاتا ہے۔ مانگنے والا دعویدار ہے کہ تجھے اپنا سمجھ کر مانگا، دینے سے انکار کرنے والے کا اصرار ہے کہ تم نے میری سفید پوشی پر حملہ کیا ہے۔ بڑی مشکل سے زندگی گزار رہا ہوں اور تم میری سفید پوشی کا بھانڈا چوک چوراہے میں پھوڑنا چاہتے ہو۔ پھر اس صورت حال سے نجات کیسے ملے گی؟ اپنے وسائل میں رہ کر منصوبہ بندی سے، قرضوں پر انحصار چھوڑ کر، ایسا پاکستانی بننا ہو گا جو صرف پاکستانی مال پر گزارا کرے یعنیBe Pakistani by Pakistanوقت کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے اللے تللے چھوڑ کر ’’بنو پاکستانی، خریدو پاکستانی‘‘اچھا دور کچھ عرصے کے لیے بھول جائیں، بُرے دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے محدودہو جائیں، محتاط ہو جائیں۔ پھر سوال آئے گا کہ ’’ہم اور آپ‘‘۔ حکومتی کابینہ تو مختصر ہو نہیں سکی۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی نہیں ہو سکی، حالانکہ سب کچھ ممکن ہے لیکن بغیر اچھے قائد اور رہنما کے نہیں ہو سکتا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے لیڈر، اِدھر کے ہوں کہ اُدھر کے، جہاں ہیں جیسے ہے کی بنیاد پر سیاست کھیل رہے ہیں اور سیاست بھی ان کے ہاتھ سے نکل کر عدالت میں پہنچ چکی ہے۔ عوام ہر کام کے لیے حکومتوں کی محتاج ہوتی ہے اور اب حکومت ہی نہیں، منتخب ارکان بلکہ تمام سیاستدان عدالتی رحم و کرم کی محتاج صرف اس لیے ہو گئے ہیں کہ انہوں نے نہ آئین پاکستان کو پڑھا اور نہ ہی اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ اپنے اپنے مفاد میں معنی و مطالب نکال کر کام چلاتے ہیں انہیں انتخاب جیتنے کے بعد ووٹرز اور عام آدمی کی پرواہ نہیں، حالانکہ سرحد پار ’’عام آدمی‘‘ اور اس کی پارٹی کی جدوجہد سے نکلنے والے مثبت نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ قومی عزت و وقار دائو پر لگا ہے پھر بھی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ معاشی و سیاسی بحران کے بعد آئینی بحران کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ نہ ہی کوئی حالات سے یہ سیکھنے کو تیار ہے کہ ادھار اور قرض سے گھر نہیں چلتے تو ملک کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں عوامی سطح پر آئی ایم ایف ’’ٹھاہ‘‘ کا نعرہ لگانا بھی لاحاصل ہی رہے گا لہٰذا قومی یکجہتی اور جذبہ حب الوطنی کی ضرورت اس وقت پہلے سے بہت زیادہ ہے لیکن ذمہ دار، ذمہ داری کا مظاہرہ کر ہی نہیں رہے اور جنہیں یہ احساس ہے آئی ایم ایف سے جان چھڑا کر روکھی سوکھی پر گزارا کرنے کو تیار ہیں۔ ان کی کوئی رائے نہیں، آواز نہیں پھر ’’آئی ایم ایف ٹھاہ‘‘ کا زور دار نعرہ کون لگائے گا۔ یوں میری ’’جمع تفریق‘‘ پاکستان کے تمام بحرانوں کا حل صرف اور صرف خود انحصاری، اپنے وسائل اپنے لیے، غیر ملکی اشیاء ضروریہ سے دوری اور کفایت شعاری کی ایمرجنسی ازخود لگائیں اگر پوری قوم مشکل حالات میں یہ مشکل فیصلہ کر لے تو ہمیشہ کے لیے نعرہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹھاہ۔ ’’آئی ایم ایف۔۔ ٹھاہ‘‘ ورنہ ان سود خوروں کی غلامی میں ہی زندگی گزارنی پڑے گی اور مشکلات کبھی بھی کم نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button