ColumnRoshan Lal

کیسے ادارے اور کیسا احترام؟ .. روشن لعل

روشن لعل

 

پاکستان میں اداروں کے تقدس کی دہائی دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی دی جاتی ہے۔ یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ اداروں کی تضحیک کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اداروں کے اختیارات کے ساتھ ان کے استحکام کا ذکر بھی اکثر سننے میں آتا رہتا ہے۔ اداروں کے تقدس اور احترام کے شور میں کبھی کبھی یہ دبی سی آواز بھی سنائی دے جاتی ہیں کہ بالا دست لوگوں نے یہاں اداروںکے نام پر ایسے ڈیرے بنا رکھے ہیں جہاںیاتو صرف وہ خود بولتے ہیںیا ان کے منظور نظر لوگوں کی باتیں سنی جاتی ہیں ۔ اس حوالے سے طرفہ تماشا یہ ہے کہ اداروں کے احترام کی باتیںایسے ملک میں کی جاتی ہیں جہاں انجمن فلاح ارائیاں، جٹ فیڈریشن، کشمیری ایسوسی ایشن اور انجمن بہبود راجپوتاں جیسی تنظیموں کو بھی ادارے سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہاں اداروں اور تنظیمو ں کو بری طرح گڈ مڈ کرکے ان کی تقدیس کا جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس میںالجھ کر عام آدمی سمجھ ہی نہیں پاتاکہ اسے باادب بنا نے کی کوشش کی جارہی ہے یا بیوقوف سمجھا جارہاہے۔
کوئی ادارہ محترم کیوں ہوتا ہے ، یہ بات اس وقت تک نہیں سمجھی جاسکتی جب تک یہ نہ جان لیا جائے کہ اصل میں ادارہ کہتے کسے ہیں۔ عام مفہوم میں ادارے سے جو بھی مراد لی جاتی ہو مگر خاص معنوں میں کوئی ادارہ اپنے خدوخال، ہیئت، کردار اور معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے تنظیموں سے مختلف حیثیت کا حامل ہو تا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ یہاں خاص مقصد کے تحت قائم کی گئی کسی بھی تنظیم کو اس کے کردار کا جائزہ لیے بغیر ادارہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ یہاں کسی تفریق کے بغیر ہر تنظیم کو یہ کہہ کر ادارے کا نام دے دیا جاتا ہے کہ اس کے قیام کا مقصد مفاد عامہ ہے۔ یاد رہے کہ ادارہ کسی عمارت یا لوگوں کے گروہ کا نام نہیں ہو تااور نہ ہی عمارت اور افراد کے مجموعے سے بننے والی کسی تنظیم کو ادارے کا نام دیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر یہاں کسی بھی تنظیم کے افراد سے تعلق کو ادارے کا نام دے دیا جاتا ہے مگر کسی ادارے کی یہ شناخت کسی صورت مکمل تصور نہیں کی جاسکتی۔ اصل میں کوئی بھی اداراہ سماج کے ساتھ باہمی وابستگی اور باہمی اعتماد کا رشتہ قائم ہونے کے بعد وجود میں آتا ہے۔ کسی ادارے کا کام صرف ہدف مقرر کرنا نہیں بلکہ نافذ نظام کی مقرر کردہ حدودکا احترام کرتے ہوئے اہداف حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ کسی ادارے کا احترام اس نظام کی حرمت سے زیادہ نہیں ہو سکتا جس کے تحت اسے قائم کیا گیا ہو۔اداروں کے کردار کا تعلق اس کے لیے کام کرنے والے لوگوں کے ایسے افعال سے ہوتا ہے جو معاشرے کے کسی ایک جز کے لیے نہیں بلکہ تمام تر سماج کے لیے یکساں قدروقیمت کے حامل ہوں۔ ادارے ایسی روایتوں کو اپنے اندر سموتے رہتے ہیں جومسلسل انسانی عادات و اطوار کا حصہ بنے رہنے کے بعد معاشرتی اقدار کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔
ادارے اور تنظیم کا فرق یہ بھی ہے کہ تنظیمیں لوگوں کو اپنا رکن اورمداح بناتی ہیں جبکہ اداروں کے لوگ پیروکار بنتے ہیں۔ کسی بھی تنظیم کا کردار اس سے وابستہ لوگوں کے رویوںسے عبارت ہوتا ہے مگر اداروں کا کردار ایسے نظام کا عکاس ہوتا ہے جو لوگوں کے رویوں کی اصلاح کے لیے رہنمائی فراہم کرے۔یوں ہر ادارہ سماج سے براہ راست وابستہ ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ ادارے سماج کے اندر سے نمو پانے کے بعد سماجی زندگی کو استوار کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ادارے عوام کو کارآمد افعال کے لیے تیار کرنے کے بعد خود بھی ان کے منظم خیالات اور قابل تقلید اعمال سے مستفید ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اداروں کو اپنے ہی تیار کردہ کارآمد افراد کے ذاتی کردار پر ایک حد سے زیادہ انحصار کرنا پڑ جاتاہے مگر ایسے عارضی حالات میں بھی کسی فرد واحد کے سامنے ادارے کی حیثیت خفیف نہیں ہونی چاہیے۔
اداروں کی قدرو اہمیت، افادیت اور کار گذاری کو آسانی سے سمجھنے کے لیے تنظیم اور ادارے کے فرق کی مزید وضاحت ضروری ہے۔ اس فرق کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی کاروبار کا آغاز کرنے والی کارپوریشن اس وقت تک ایک تنظیم ہی رہتی ہے جب تک عوام اسے قابل بھروسہ تصور کرتے ہوئے بے دھڑک اس کے ساتھ کاروباری لین دین کا سلسلہ شروع نہ کر دیں ۔ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی صرف اسی وقت تنظیم سے ادارہ بنے گی جب عوام اس اعتماد کے ساتھ اسے اپنی آمدورفت اور سامان کی نقل وحمل کا ذریعہ بنائیں گے کہ اس کی سروس ہر لحاظ سے محفوظ ، وقت کی پابند اور قابل جواز کرائے کے عوض فراہم کی جاتی ہے۔اسی طرح امتحانوں کے عوض ڈگریاں بانٹنے والی کوئی یونیورسٹی کو محض تنظیم ہی سمجھا جاتا ہے مگر جامعہ تحقیق سے مزین علم فراہم کرنے کا مسلسل عمل یونیورسٹیوں کو ادارے کی شناخت فراہم کرتا ہے۔ منافع کے حصول کے لیے کارباری سرگرمی کے طور پر شروع کیا گیا کوئی اخبار اس وقت تنظیم سے ادارہ بنے گا جب اس کی اشاعتوں کو صحافتی اقدار کے عین مطابق تعصب، تفریق اور ہر قسم کی جانب داری سے پاک تصور کیا جائے گا۔ بڑے بڑے ناموں والے ڈاکٹروں اور بھاری فیس وصول کرنے والے کسی ہسپتال سے کسی خاص طبقے کے لوگ چاہے جتنی بڑی تعداد میں کیوں نہ مستفید ہوتے ہوں ، انہیں کسی صورت ادارہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ ادارہ صرف وہ ہسپتال تصور ہو گا جس میں عام مریضوں کے شفایاب ہونے کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو گی۔ ادارے اور تنظیم کے فرق کی بات چل نکلی ہے تو یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ کوئی محکمہ اپنے تفویض کردہ بنیادی کام کی بجائے کاروبار، تجارت، بینکاری ، رئیل اسٹیٹ یا پھر امدادی سرگرمیوں جیسے عظیم کاموں میں چاہے جتنی بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہر ہ کیوں نہ کرے ، اس محکمے کو اس وقت تک ادارہ نہیں سمجھا جائے گا جب تک اس کا ان کاموں میں ریکارڈ بہتر نہیں ہوگا جو اس کے وجود کا بنیادی جواز ہوں۔
پاکستان سمیت دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں جس شعبے کو آئینی طور پر ماورائے توہین قرار دیا گیا ہے وہ عدل کا شعبہ ہے ۔ عدل کی فراہمی پر مامور اس شعبے کو عدلیہ کہا جاتا ہے ۔جس طرح ڈگریاں بانٹنے والی ہر یونیورسٹی کو ادارہ نہیں کہا جاسکتا اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر ملک کی عدلیہ کو ادارہ تسلیم کیا جاسکے۔ ادارہ کہلانے کا حق اس ملک کی عدلیہ کو ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا جس کے فیصلہ سازی کا حق رکھنے والے لوگوں کو صرف اس وقت تک قابل احترام سمجھا جائے جب تک وہ عدل کے ایوانوں میں کرسیوں پر براجمان رہیں۔ ادارہ کہلانے کا حق صرف اس ملک کی عدلیہ کو ہوگا جس کے فیصلہ ساز چاہے کرسیوں موجود یا ریٹائر ہو چکے ہوں مگر ان کے افعال اور کارکردگی کی بنا پر ان کی آخری دم تک عزت کی جائے اور کسی بھی موقع پر انہیں منہ چھپا کر زندگی نہ گزارنا پڑے۔ اگر کسی عدلیہ میں سے سراٹھا کر جینے والوں کی بجائے منہ چھپا کر زندگی گزارنے والے لوگ ہی برآمد ہوتے رہیںتو پھر ایسی عدلیہ کو کیونکر ادارے کا درجہ حاصل ہوگا اور کیسے اسے قابل احترام سمجھا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button