ColumnMazhar Ch

فیسٹیول اورکتاب میلے .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

یوں تو پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میںسارا سال ہی ادبی و ثقافتی سرگرمیاں اور تقریبات منعقد ہوتی ہیں لیکن فروری کے آغاز سے ایسی سرگرمیوں اور تقریبات میں بہت تیزی آ جاتی ہے اور قریباً اپریل کے وسط تک شہر کے مختلف حصوں میں ادبی فیسٹیول اور ثقافتی تقریبات کا انعقاد معمول سے کچھ زیادہ ہی دیکھنے میں آتا ہے۔فروری سے اپریل کے وسط تک جاری رہنے والی ان غیر معمولی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میںپاکستان لٹریری فیسٹیول ،فیض امن میلہ،فیض فیسٹیول، لاہور لٹریری فیسٹیول، لاہور انٹرنیشنل کتاب میلہ، جشن بہاراںفیسٹیول اور پنجاب یونیورسٹی کتاب میلہ زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں جہاں ایک طرف لاہور میں بہار کا موسم عروج پر ہوتا ہے وہیںادب و ثقافت کے رنگوں سے سجے فیسٹیول اور کتابی میلے لاہور کی ادبی اور ثقافتی رونقوں کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ علمی و ادبی فیسٹیول میں جہاں علمی وادبی ذوق رکھنے والے سامعین کو روشن ذہن ادیبوں کے پر مغز مکالمے اور بصیرت افروز گفتگو سننے کا موقع ملتا ہے وہیں کتاب میلوں میں ایک ہی چھت تلے مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں کتب بینی کا ذوق رکھنے والے افرادکی علمی وادبی تشنگی بجھانے کا سامان لیے ہوتی ہیں۔ اس بارفروری کے مہینے میں الحمرا آرٹ کونسل لاہور میں ہونے والے دو فیسٹیول انتظامیہ کی نا سمجھ داری کی وجہ سے قدرے متنازعہ بھی ہو ئے ۔آئندہ کے لیے کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسی بھی فیسٹیول میں کسی بھی ادیب یا شاعر کو سیاسی بنیادوں پر ترجیح نہ ملے، اس کے علاوہ ابھی فیسٹیول میں ادیبوں اور شاعروں خاص طور پر بھارت سے آئے ادیبوں کی حاضرین محفل کے ساتھ بنا سوچے سمجھے براہ راست مکالمے کی راہ ہموار نہیں ہونی چاہیے۔کوئی شک نہیں کہ براہ راست مکالمہ غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے اور پاکستان اور بھارت میں امن کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے دونوں طرف کی حکومتوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا تاہم اس عمل کی ابتدا میں ادیبوں کو خود پر انتہا درجے کا کنٹرول رکھتے ہوئے مثبت اپروچ کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہوگا۔ادیب اگر حاضرین محفل کے جذباتی لیول پر جا کر جواب دینے کی کوشش کریں گے تو ایسے مکالمے غلط فہمیوں میں کمی کی بجائے کنفیوژن اور تنائو کی کیفیت کو بڑھانے کا باعث بنیں گے۔اس حوالے سے اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن فی الوقت اس بحث کو یہیں پر موقوف کرتے ہوئے لاہور میں جاری 36ویں کتاب میلے پر بات کرتے ہیں۔
لاہور انٹرنیشنل بک فیئرکو پاکستان بھر میں کتاب میلوں کی روایت کا بانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔گزشتہ تین دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ منعقد ہونے والا یہ بین الاقوامی کتاب میلہ پاکستان کے بڑے ایونٹس میں شمار ہوتا ہے۔اس کتاب میلے میںہر سال لاکھوں شائقین کتب کروڑوںروپے مالیت کی کتابیں خریدتے ہیں۔ اس کتاب میلے کی انفرادیت یہ ہے کہ پورے پاکستان سے نہ صرف پبلشرز حضرات اس کے انتظار میں ہوتے ہیں بلکہ کتابیں لکھنے والے ادیب و شاعراور کتب بینی کا ذوق رکھنے والے افراد بھی بڑی بے تابی سے ایکسپو سینٹر لاہور میں لگنے والے پانچ روزہ کتاب میلے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ جیسے مشاعروں پر شاعروں سے تازہ کلام سننے کی فرمائش ہوتی ہے بالکل اسی طرح کتاب میلے پر پبلشر حضرات ادیبوں سے ایک آدھ نئی کتاب کی اشاعت ممکن بنانے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں۔ کتب بینی کا زوق رکھنے والے افراد بھی نئی کتابوں کے انتظار میں رہتے ہیں۔گذشتہ چند سالوں سے معروف پبلشرزنامور ادیبوں سے ملاقات کا سیشن رکھنے لگے ہیں جن سے نہ صرف کتاب میلوں میں آنے والے شائقین کتب کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ کتابوں کی فروخت بھی بڑھتی ہے۔ کتاب میلوں میں شائقین کتب کو اپنے پسندیدہ ادیبوں کی کتابیں ان کے آٹو گراف کے ساتھ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔رواں برس بک کارنر جہلم کے سٹال پرایک طرف معروف لکھاری عامر ہاشم خاکوانی اپنی نئی کتاب وازوان کے ہمراہ جلوہ گر ہوں گے تو دوسری طرف مشہور و معروف ادیب حسن نثار صاحب اپنی دو بیسٹ سیلر کتابوں بلیک اینڈ وائٹ اور آدم خور نظام کا نوحہ کے ساتھ شائقین کتب کے درمیان ہوں گے۔ تین مارچ کوبک کارنر جہلم پر معروف نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر اپنی کتاب میری کہانی میری زبانی کے ہمراہ موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔شائقین کتب کتاب میلے کے آخری روز’’داڑھی والا‘‘کے مصنف حسنین جمال سے ان کی نئی کتاب ’’سوچتے ہیں‘‘آٹوگراف اور تصویر کے ساتھ حاصل کر سکتے ہیں۔عکس پبلی کیشنز نے بھی کئی ایک نامور ادیبوں کی اہم کتابیں اور ناولز شائع کیے ہیں جن میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی’’عورت بھی خواب دیکھتی ہے‘‘ عاصمہ شیرازی کی’’کہانی بڑے گھر کی‘‘ نعیم بیگ کا ناول ’’خواب انگارے‘‘ خالد فتح محمد کا ناول’’نیا گھر‘‘اور نوشی بٹ کی کتاب ـ’’ہمارے جسم تمہاری مرضی‘‘ زیادہ نمایاں ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ حالیہ کچھ سالوں سے بک کارنر جہلم اور عکس پبلیکشنزسمیت کئی اشاعتی ادارے بہت سے نئے لکھنے والوں کو نہ صرف کتابوں کی اشاعت کی طرف لائے ہیں بلکہ ان کی تحریک کے نتیجے میں کئی سالوں کے بعد ایک آدھ کتاب لکھنے والے ادیب اب قریباً ہر سال ایک سے دو کتابیں شائع کروارہے ہیںلیکن اس کے تناسب سے کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اگرچہ معاشرے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے نفوذ کی وجہ سے کتابیں خرید کر پڑھنے کے رجحان پر منفی اثر ڈالا ہے لیکن آبادی میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خواندگی کی شرح میں بتدریج اضافہ کتب بینی کے رجحان میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔بڑے پیمانے پر منعقد ہونے والے کتاب میلوں کا فائدہ کتب بینی کے شوقین لوگوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے پیمانے پر کتابوں کا کاروبار کرنے والے افراد بھی اٹھا لیتے ہیں کہ انہیں ایک ہی چھت تلے مختلف زبانوں اور موضوعات کی کتابیں ارزاں ترین نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ کتاب میلوں کے تسلسل کے ساتھ انعقاد سے معاشرے میں کتب بینی کا رجحان فروغ پاتا ہے اور کتب بینی کا کلچرمعاشرے میں علم ، رواداری اور امن کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔کتب بینی کی شرح میں اضافے کے باوجود پاکستان میں کتابوںکی صنعت متعدد مسائل کا شکار ہے۔ پاکستانی تناظر میں فلسفے، تاریخ،سیاسیات، نفسیات اور سوشیالوجی جیسے موضوعات پر معیاری اور سنجیدہ کتابیںشائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رجحان فرقہ وارانہ مذہبی کتابوں کی طرف زیادہ ہے۔ حکومتی سطح پرکتابوں کی صنعت کی سرپرستی کر کے کتب بینی کے فروغ کے ساتھ ساتھ معیاری کتابوں کی اشاعت بھی ممکن بنا سکتی ہے۔ حکومتی سطح پر معیاری پبلشرز کو سبسڈی دے کرسکولز اور کالجز کی سطح پر کتاب میلے منعقد کرانے سے نئی نسل میں کتب بینی کے رجحان کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button