Editorial

سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نئی بحث

 

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔ہمارے مطابق یہ پٹیشن تین کے مقابلے میں چار سے مسترد ہوگئی ہے، فاضل جج صاحبان نے فیصلہ دیا ہے کہ ہائی کورٹس فیصلہ کریں۔ دو ججز نے واضح کہا کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللہ سے اتفاق کرتے ہیں، دو ججز نے کہا کہ یہ درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، یہ درخواستیں چار تین کے تناسب سے مسترد ہوگئی ہیں، دو ججز نے خود کیس سننے سے معذرت کی۔ چیف جسٹس نے 2 ججز کے نوٹ کو فیصلہ جان کر ان کو بینچ میں شامل نہیں کیا، 5 رکنی بینچ کے 3 ججز نے زمینی حقائق دیکھ کر 9 اپریل سے آگے لے جانے پر مشاورت کا کہا، دونوں ہائی کورٹس میں درخواستیں ابھی تک زیرسماعت ہیں، فیصلے کی تشریح وہاں بھی ہوسکتی ہے، جو آئینی اور قانونی بات ہے وہی ہونی چاہیے، اس فیصلے میں نظر ثانی والی بات نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی والی بات نہیں ہوتی، اگر کسی کو اختلاف ہوا تو جا کر تشریح کرا لیں گے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیرپر ازخود نوٹس کیس میں دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دیاتھا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک روز قبل محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، جس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا موقف سامنے آیا ہے۔ بہرکیف عام فہم یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ سے نوے روز کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے اور عدالت عظمی نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا اور بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔ فیصلے میں 5 رکنی بینچ کے دو ممبران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیاتھا لیکن وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اتحادی حکومت کے بعض رہنمائوں کی گفتگو سے تاثر ملتا ہے کہ یہ پٹیشن تین کے مقابلے میں چار سے مسترد ہوگئی ہے،یوں ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ بھی متنازعہ اور مبہم بنادیاگیا ہے۔ ’’روکو مت جانے دو‘‘ کے مصداق اِس فیصلے کو لیا جارہا ہے، درخواست گزار اور حکومتی اتحاد کا موقف اور دلائل ایک دوسرے کے موقف کی نفی کررہے ہیں،لہٰذا دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے آئینی بحران ختم نہیں ہوا بلکہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آئینی بحران شروع ہی اب ہوا ہے، ہر کوئی اپنی نظر سے دیکھ رہا ہے اور اپنا نقطہ نظر ہی درست سمجھ رہا ہے لہٰذا دونوں صوبوں میں آئینی مدت نوے روز کے اندر اندر انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ابہام اور بحث کی نذر ہوگیا ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کج بحثی کی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آئی، اس کے نتیجے میں اقتدار ایک سیاسی جماعت سے اتحادی جماعتوں کو منتقل ہوا تب تک آئین و قانون کی پاس داری سب سے اہم تھی، ایوان کی توقیر کا سوال تھا مگر تحریک عدم اعتماد کے بعد سے سیاسی میدان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تشویش ناک نہیں تو اورکیا ہے۔ ملک میں قریباً ایک سال سے غیر یقینی کی صورت حال ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اتحادی حکومتوں نے کرونا وائرس اور دیگر بحرانوں کے باوجود قریباً پونے چار سال سڑکوں پر گزارا، ایسا ہی جواب تحریک انصاف نے اقتدار چھن جانے کے بعد دیا اور ابھی تک نئے سے نئے طریقے سے اتحادی حکومت پر دبائو بڑھایا جارہا ہے، پہلے رابطہ عوام مہم تھی، پھر لانگ مارچ شروع ہوا، پھر سابق وزیراعظم عمران خان حملے میں زخمی ہوئے، پھر لانگ مارچ شروع ہوا، پھر دونوں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کی گئیں، پھر جیل بھرو تحریک شروع اور ختم ہوئی حالانکہ اس دوران پنجاب میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے کئی بار کوششیں ہوئیں اور آئینی بحران پیدا ہوئے پھر معاملہ بالآخر عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ تک پہنچا ایک فریق نے فیصلہ بخوبی قبول کیا تو دوسرے نے وہی کچھ کیا جو عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کے بعد ہورہا ہے۔ جب سیاست دان ایوان کو سب سے بالا و اعلیٰ سمجھتے ہیں توسڑکوں پر کیا لینے آتے ہیں، کیوں جلسے اور لانگ مارچ اور امن و امان کی خرابی جیسے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، ایوان کا تقدس اور احترام ہر جمہوری معاشرے میں ہوتا ہے، ہم بھی کرتے ہیں بلکہ ہر پاکستانی کرتا ہے مگر ایوان کے بعد ریاست کے باقی ستون بھی اتنے ہی اہم اور محترم ہیں جتنا کوئی ایک ستون ہے، ریاست چار ستونوں پر کھڑی ہے یہ کسی کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سیاست دان آپس کے معاملات ایوان میں نمٹائیں تو عوام کو بھی اچھا پیغام جائے مگر جب سیاست دان ہی ایوان کی بجائے سڑکوں پر عدالتیں لگائیں گے تو پھر بلاشبہ ایوان کا وقار مجروح ہوگا۔ جو ایوان میں ہوتے ہیں وہ اپنی سہولت اور مفاد کے لیے آئین میں ردوبدل کرتے ہیں اور جب حزب اختلاف کو اقتدار ملتا ہے تو وہ اپنے مفادات اور آسانیاں مدنظر رکھتے ہیں۔ 1973 کا آئین متفقہ آئین تھا ہمارے اسلاف نے اس کو اتفاق رائے سے منظور کیا تھا مگر آج ہر چیز اپنے جگہ سے کھسکائی جارہی ہے جو بلاشبہ خطرناک اور افسوس ناک ہے۔ ہر ادارے اور ہر معاملے کو متنازعہ بنانے سے خرابیاں پیدا ہوں گی اور لوگوں کا نظام سے اعتماد اُٹھ جائے گالہٰذا سنجیدگی اور دانائی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کب تک اداروں اور معاملات کو متنازعہ بناکر اپنے آپ کو اُن سے الگ رکھ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button