Columnمحمد مبشر انوار

پیغامِ پاکستان ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

مملکت خداداد کو اللہ رب العزت نے ایک طرف بے شمار قدرتی و معدنی نعمتوں سے نوازا ہے تو دوسری طرف ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے نواز رکھا ہے کہ اس پر اللہ رب العزت کا جتنا شکر بھی ادا کیا جائے ،کم ہے،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عنایات اس قدر ہیں کہ جب ان عنایات پر غور وفکر کرتا ہے تو سرتاپا لرز جاتا ہے کہ میرے انفرادی و اجتماعی اعمال کے باوجودرب کریم نے کس قدر نوازشات کر رکھی ہیں اور کیا میں ان کا شکر کماحقہ ادا کر سکا ہوں؟یقیناً اس سوال کا ،کم از کم میں اپنی ذات کی حد تک دیکھوں تو جواب نفی ہے تاہم اس کے باوجود امید و گمان یہی ہے کہ اللہ رباالعزت اپنے رحم و کرم سے مجھ گنہگار کی بخشش فرمائے گا،ان شاء اللہ۔ ضیاء دور میں پی ٹی وی پر ایک انتہائی خوش الحان قاری ،انتہائی خشوع و خضوع سے چند بچوں کو قرآنی تعلیم سے منور کرتے نظر آتے اور ان کی رہنمائی میں بہت سے پاکستانیوں نے اپنی قرآت کی نوک پلک ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر سنواری،جس کا اجر یقینی طور پر محترم کو ملے گا۔ اتنی پرسوز آواز کہ قرأت فرماتے تو مسلمانوں پر ان کی آواز وجد و رقت طاری کر دیتی، اس نابغہ روزگار شخصیت کو اللہ رب العزت نے خوبصورت آواز سے نوازا اور محترم نے اس آواز کا حق بھی ادا کیا،ممکنہ طور پر یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کی آواز میں آج بھی وہی سوز،وہی گداز،وہی لوچ اور وہی کشش موجود ہے کہ سننے والوں پر وجد و رقت طاری کر دیتی ہے۔ قاری سید صداقت علی شاہ ،پرائیڈ آف پرفارمنس (جو فقط ایک دنیاوی اعزاز سمجھتا ہوں)،آج بھی دنیا بھر میں اپنی خوبصورت میں آواز میں قرأت کیلئے مدعو کئے جاتے ہیں،جہاں شمع توحید کے پروانے ان کی قرأت پر کسی دوسری دنیا میں جا پہنچتے ہیں۔ قاری سید صداقت علی شاہ تواتر سے سعودی عرب تشریف لاتے ہیں اور اپنے دوروں کے دوران اکثر اوقات سفارت خانہ پاکستان کے توسط اور ذاتی احباب کی بدولت تارکین وطن سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں اور ان محافل میں نہ صرف قرأت بلکہ ثنائے رسولﷺ سے بھی مستفید فرماتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایسی ہی ایک تقریب میں قاری سید صداقت علی شاہ سے ملاقات ہوئی،جس کا اہتمام سفارت خانہ پاکستان نے کیا تھا،جہاں قاری صاحب نے پیغام پاکستان کے حوالے سے فرمایا کہ ان کی زندگی کا مشن اب پیغام پاکستان ہے اور وہ اس کیلئے دنیا بھر میں اپنی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پیغام پاکستان درحقیقت ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے محققین نے 26مئی 2017کو اس وقت کے صدر جناب ممنون حسین کی زیر صدارت ہونیوالے سیمینار بعنوان ’’میثاق مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیل نو‘‘ پیش کیا تھا،جس کا مقصد پاکستان میں رائج قوانین کی اسلامی قوانین سے مطابقت و نیز معاشرے کی اسلامی قوانین کے مطابق تشکیل نو پر اپنی گذارشات پیش کی تھی۔ اس دستاویز میں محققین نے ایک طرف ملک میں نافذ العمل قوانین کو 95 فیصد اسلامی قوانین کے تابع قرار دیا تھا جبکہ باقی ماندہ قوانین کی اصلاح کیلئے اپنی تجاویز و آراء سے آگاہ کیا تھا،یہاں یہ امر برمحل ہے کہ اس تحقیق میں پاکستان کے نامور اور جید علماء کے دستخط موجود ہیں اور وہ سب اس تحقیق اور بعد ازاں پیش کی جانے والی تجاویز سے متفق ہیں۔معاشرے میں پھیلتی ہوئی فرقہ واریت ہو یا طاقت کی بنیاد پر قوانین کی خلاف ورزی ہو، اختلاف رائے کی بنیاد پر نے مسلک یا مسالک ہوں،ان سب پر مفصل گفتگو کی گئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف فقط مذہبی خیالات یا آراء کی بنیاد پر ،قرآنی حوالوں سے قتل وغارت کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اسلامی اقدار اور بالخصوص دین اسلام کا مطلب و تشریح انتہائی مفصل انداز میں کی گئی ہے اور اسلام کو امن و سلامتی کا مذہب دینی حوالوں اور ابتدائی دور حکومت سے ثابت کیا گیا ہے اور دور جدید میں بھی اس کی ضرورت پر شدید زور دیا گیا ہے،منکرین یا خوارجیوں کی تشریح کرکے ان کی علامات کو بیان کیا گیا ہے، ان کے مقاصد کی تشریح تاریخی حوالوں سے کی گئی اور موجودہ دور کے خوارجین سے سختی سے نپٹنے کا اعادہ کیا گیا ہے تا کہ دین کو ان سے پاک کیا جائے اور اسے اس کی اصل روح میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ خطبہ جمعہ میں معاشرتی و سماجی مسائل پر روشنی ڈالی جائے اور اسلام معاشرے کے خدوخال کو نہ صرف واضح کیا جائے بلکہ عوام کو اسلامی معاشرے کی تعلیم دی جائے تا کہ وہ اس کے عین مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں۔
خلاصہ پیش کروں تو اس کا مقصد قرآن کی دو آیات میں سمٹ جاتا ہے اور اگر اس کی تشریح کی جائے،محل وقوع،حالات و واقعات کو مد نظر رکھا جائے تو موضوع ایسا ہے کہ سمٹنے کا نام ہی نہ لے۔ان آیات میں پہلی اور سب سے اہم ترین آیت ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو‘‘جبکہ دوسری عدل و مساوات کے حوالے سے ہے کہ قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرو،کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ اس سے بالعموم مراد یہی تصور ہوتی ہے کہ معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کی حیثیت کا تعین اسلامی قوانین کے مطابق کر دیا گیا ہے اور ان سے معاملات اسی حوالے سے طے کئے جائیں ،کسی بھی طاقتور کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر فیصلہ کرتے ہوئے،ملکی قوانین کو پس پشت ڈال کر ،ذاتی خواہشات کے زیر اثر کسی کی حق تلفی کرے یا ناانصافی کا مرتکب ہو۔اس دستاویز نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان ریاست مدینہ کے بعد قائم ہونے والی پہلی ایسی ریاست ہے کہ جہاں اسلامی قوانین کا احیاء دورجدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہونا تھا ،یہاں پر قوانین کی بنیاد بے شک اسلامی قوانین اور قرارداد مقاصد پر رکھی گئی کہ جس کی رو سے مملکت خدادا د پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کی تسلیم کی گئی ہے جبکہ یہاں پر قوانین قرآن و سنت کی روشنی اور ان کے تابع بنائیں جائیں گے۔ آئین یا کسی بھی دوسرے قانون کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ قوانین کی تیاری میں ان بنیادی اصولوں کو کارفرما رکھا گیا ہے لیکن کیا اسلامی قوانین بنانے سے معاشرہ بھی اسلامی کہلا سکتا ہے؟کیا قوانین اس امر کے ضامن ہیں کہ ان کے بنائے جانے کے بعد،اسلام نافذ ہو گیا ہے یا جب تک ان قوانین پر ان کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوتا،اسلامی معاشرے کی تشکیل ممکن ہی نہیں؟صرف قوانین بنانے سے کوئی بھی ریاست اسلامی نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ ان قوانین پر بلا امتیاز عملدرآمد نہ کروایا جائے،جو حاکم وقت کی ذمہ داری ہے،اسلامی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ جب بھی حاکم وقت نے قوانین کا نفاذ اپنی ذات پر کیا ہے، معاشرے میں اس کے اثرات نچلی سطح تک پہنچتے ہیں اور عوام الناس اپنے حکمرانوں کی پیروی کرتی ہے۔ نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس نے قوانین کے نفاذ سے قبل اپنی ذات پر ان قوانین کو نافذ کرکے دکھایا،جس کے بعد نہ صرف عرب بلکہ دنیا کے کئی خطوں میں اسلام پھیل سکا۔کیا پاکستان میں قوانین موجود ہونے کے باوجود کسی بھی بااثر یا سیاسی و سماجی شخصیت کے خلاف قانون اسی طرح حرکت میں آتا ہے،جس طرح کسی غریب،مجبور و بے کس کے خلاف قانون کی پھرتیاں دیکھی جا سکتی ہیں؟کیا آج معاشرے میں عدل و انصاف ہو رہا ہے؟معاشرے میں بے راہروی و قانون کی خلاف ورزی اسی وجہ سے ہے کہ عدل و انصاف اور مساوات عنقا ہے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں،وہ خود کو قانون سے مبرا رکھے ہوئے ہیں،لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ہمارا معاشرہ ،اسلامی معاشرے کی عکاسی کرے البتہ دعا ہے کہ پیغام پاکستان کی ترویج کرنے والوں کو اللہ ان کے مقصد میں کامیاب کرے اور پاکستان عالمی برادری میں ایک خودمختار اور باعزت مقام حاصل کر سکے،جو اس دستاویز کا منشا ہے،آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button