Editorial

قومی ایپکس کمیٹی کا اجلاس

 

دہشت گردی، معیشت اور سیاسی عدم استحکام اہم بحران کے طور پر ہمارے زیر بحث آتے ہیں کیونکہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہم ارباب اختیار سے یہی تقاضا کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا جائے۔ معیشت سے متعلق بُری خبر آئے تو بھی ہم معیشت کی بحالی کے لیے مطالبات اور اقدامات کی طویل فہرست انہی سطور میں بیان کردیتے ہیں اور پھر جب کسی معاملے پر سیاسی قیادت ایک دوسرے کے خلاف دائو پیچ آزماتی ہے تو ہم ملک و قوم کا واسطہ دیکرانہیں داخلی اور خارجی مسائل کی جانب متوجہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمارا بنیادی مقصد ہی ملک و قوم کے وسیع مفادات کا تحفظ کرنا اور بوقت ضرورت اِس کے لیے آواز بلند کرنا ہے، لہٰذا دہشت گردی، معیشت اور سیاسی عدم استحکام کو بڑے بحرانوں کے طور پر لیتے ہوئے ہم زیادہ زیادہ جسارت اور لب کشائی ہی اسی لیے کرتے ہیں ۔ جمعہ کے روز وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف کی زیر صدارت ہونے والے قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ، معاشی بحالی اور سیاسی استحکام باہم جڑے ہوئے ہیں، پاکستان داخلی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا، قومی یکجہتی ، اتحاد اور اجتماعی جدوجہد وقت کی ضرورت ہے، ان اہداف کے حصول کی خاطر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اس میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات خاص طورپر 30 جنوری 2023کو پشاورپولیس لائنز مسجد اور 19 فروری کو کراچی پولیس چیف آفس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور ان کے بعد کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیااور حساس اداروں کے نمائندوں نے سکیورٹی کی مجموعی صورتحال، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر شرکاکو بریفنگ دی۔ بطور عارض ہمیشہ ہم دہشت گردی کے خاتمہ اور معاشی استحکام کو سیاسی استحکام سے جوڑتے ہوئے سیاسی قیادت و ارباب اختیار سے درخواست گذار رہے ہیں کہ بے چینی کے اِس ماحول کو فی الفور اجتماعی سوچ اور کاوشوں سے ختم کیا جائے، ہمہ وقت کا دست و گریباں ہونا نہ آپ کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے۔ مگر اگلے ہی لمحے حوصلہ شکنی کا کوئی عملی نمونہ سامنے آجاتا ہے، جس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی فریق سیاسی عدم استحکام اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین بحرانوں کو اُس سنجیدگی سے نہیں لے رہا جس سنجیدگی کے وہ متقاضی ہیں یہی وجہ ہے کہ معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیںاور بسا اوقات سولہویں صدی کے سیاسی مفکر نیکورلومیکائولی کی کہی ہوئی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ آزادی، حقوق، مذہب یا اخلاقی اقدار کی سیاست میں گنجائش نہیں ہے، بلکہ آہنی ہاتھوں کی پالیسی ہونی چاہیے کیونکہ ہماری سیاست میں بظاہر یہی سب کچھ ہوتا نظر آتا ہے، غیر شائستہ زبان، تنقید برائے تنقید، کج بحثی، ادلے کا بدلہ اور ایسی ہی دوسری چیزوں نے حُسن معاشرت کو بری طرح متاثرہ کیا ہے اور درحقیقت ہم نے ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ معاشرہ، تعلیم، تہذیب، ترقی، خوشحالی، صحت، رواداری غرضیکہ ہرشعبے میں ہم تنزلی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اِس کا ذمہ دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ تمام فریق اِس معاملے میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کے درپے ہیں مگر کوئی بھی سمجھنے کو تیار نہیں کہ تمام ترقی یافتہ ممالک نے جب تعمیر وترقی کا تہیہ کیا تھا تو سبھی اپنے اپنے محاذ پر معاشرے کی تربیت، تعلیم، تہذیب، معیشت، خوشحالی سمیت تمام درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ڈٹ گئے تھے جبھی آج وہ قابل قدر اور خوشحال معاشروں کے طور پر دیکھے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم سیاست برائے خدمت کی بجائے سیاست برائے ذاتی مفاد کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، کوئی سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اِس کج بحثی اور فضول کاموں نے ہمیں کہاں لاکھڑا کیا ہے، دہشت گردی اور معیشت کی تباہی اسی لیے آج ہم بھگت رہے ہیں کیونکہ جتنی توجہ اِن بحرانوں پر دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی بلکہ تمام کوششیں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں ماضی میں بھی صرف کی گئیں اور اب بھی کی جارہی ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ، معاشی بحالی اور سیاسی استحکام باہم جڑے ہوئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہر ذی روح جانتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو دہشت گردی، معیشت اور دوسرے بڑے چیلنجز کا مقابلہ توجہ اور قومی یکجہتی کے ذریعے ہوگا لہٰذا ہوتو یہ رہا ہے کہ ایک طرف سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دیاجارہا ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیارکیا جارہا ہے۔ سیاسی عدم برداشت کے ایسے ایسے مظاہر پیش کیے جارہے ہیں جوقوم کی تشویش میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بن رہے ہیں اور اسی روش میں ریاست کا کوئی ستون محفوظ رہا اور نہ ہی اِس کو قابل اعتماد رہنے دیا گیا ہے۔جو رویے پچھلے ستر سال سے سنتے آرہے تھے وہی آج دیکھنے پڑ رہے ہیں پچھلے ستر سال میں اٹھائے گئے نقصانات ہمیں سبق سکھانے کے لیے ناکافی ثابت ہورہے ہیں کیونکہ کوئی بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں لہٰذا ہر کوشش اور قربانی رائیگاں ہوتی نظر آرہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کو اِسی طریقے سے بڑھایاجاسکتا ہے جس طرح بڑھایا جارہا ہے مگر اِس کو ختم کرنے کے لیے ریاست کے تمام ستونوں کو آگے آنا پڑے گا وگرنہ بطور قوم ہمیں نئے نئے بحرانوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا کیونکہ جب قوم میں تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گذر رہی ہو تو ایک کے بعد دوسرے بحران کا آنا یقینی ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button