ColumnImtiaz Aasi

سانحہ بارکھان اور عوامی ردعمل .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ایک زمانہ تھا جب پنجاب کے مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگ محنت مزدوری کیلئے بلوچستان جایا کرتے تھے۔پاکستان بننے کے بعد کئی سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔وقت گذرنے کے ساتھ لسانی مسائل سے حالات نے پلٹا کھایا اور یہاں کے لوگوں نے حصول ملازمت کیلئے جانا بند کردیا ورنہ ون یونٹ سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلوچستان کے مختلف محکموں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ 75 برس گذرنے کے باوجود آج بھی وہاںکے غریب عوام قبائلی رسم ورواج کے تابع ہیں۔ ملک وجود میں آیا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بلوچستان کی ان ریاستوںکاپاکستان سے الحاق کرنے کی جدوجہد کاآغاز کیا جو برطانوی حکومت کے زیرتسلط تھیں۔ریاست قلات کے نواب احمد یار خان اور قائد کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس پر وائسرے لارڈ ماونٹ بیٹن نے بھی دستخط کئے ۔ معاہدے کی رو سے بلوچستان کی ریاست مکران، قلات، لسبیلہ اورخاران کا الحاق پاکستان سے ہوگیا معاہدے میں طے پایا تھا کرنسی ، خارجہ امور اور دفاع کے محکمے وفاق کے پاس ہوں گے جبکہ دیگر امور صوبے کے زیر انتظام ہوں گے۔کبھی کوہلوضلع سبی اور بارکھان ضلع لورالائی کا حصہ تھے ۔انگریز سرکار کو فارورڈ افغان پالیسی کیلئے سڑک اور ریلوے لائن کی ضرورت تھی تو انہوں نے سبی اور لورالائی خان آف قلات سردار مہراب خان سے 96 ہزار روپے میں سو سال کی لیز پر حاصل کرلیے۔قیام پاکستان کے بعد یہ علاقے بلوچستان ایڈمنسٹریشن کے زیر انتظام آگئے۔
بارکھان کے واقعہ سے قبل صوبے میں اس طرح کی بربریت کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ بلوچستان جو گذشتہ کئی عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے ایسے میں یہاں کے رہنے والے غریب عوام کے ساتھ وہاں کے سرداروں اور وڈیروں کا غیر انسانی سلوک اس امر کا عکاس ہے کہ وہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ایک قبائلی سردارکا وہاں کے رہنے والے غریب عوام کے ساتھ وحشیانہ سلوک بربریت کی انتہاہے۔غریب لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو کنوئیں میں پھینک دینااور نوجوان لڑکی سے زیادتی کے بعد اس کے چہرے پر تیزاب ڈال کر لاش کو مسخ کرنے والوں کو آخر ت کی جواب دہی کا ذرا خیال نہیں آیا۔یہ جانتے ہوئے کہ قتل کرنے والے کون تھے اور انہیں اغوا کرکے حبس بیجا میں رکھنے والے کیاملکی قانون سے بالاتر ہیں؟اس دلخراش سانحہ کے بعد صوبے کے عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ عوام کا ردعمل اور حقیقت جاننے کے باوجود گمنام ایف آئی آر کااندراج بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاق میں حکمرانی کرنے والوں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔بلوچستان سے آنے والی دستیاب ویڈیو میں عوام عبدالرحمان کھیتران کو مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں تمہار ا برا وقت شروع ہو چکا ہے بگٹی قوم تمہیں نہیں چھوڑے گی۔حکومت کب تک تمہاری مدد کرے گی ایک روز غریب لوگ تمہیں چیرکر رکھ دیں گے۔ہمیں کسی کی کوئی مدد نہیں چاہیے سردار خیر بخش مری اور بالاچ مری کے ہوتے ہوئے تمہاری ٹانگیں کانپتی تھیں۔اے عبدالرحمان کھیتران تمہاری سرداری پہ لعنت ہے۔
پاکستان نظریاتی پارٹی کے صدر شہید حیدر ملک نے کہا ہے کہ عبدالرحمان کے خلاف تحریک جاری رہے گی۔بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے اعلان پر وکلاء نے اس سانحہ کے خلاف عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سانحہ کی انکوائری کیلئے ڈی آئی جی لورالائی کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جو تیس روز کے اندر اپنی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔تعجب ہے پولیس کاموقف ہے کہ مغوی خاندان کی طرف سے کسی نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست نہیں کی حالانکہ حقیقت یہ ہے اس طرح کے سانحات میں کوئی مدعی نہ بھی ہو تو پولیس خود مدعی بن جاتی ہے۔ فوجداری مقدمات میں مدعی ریاست ہوتی ہے جسے اسٹیٹ کیس کہا جاتا ہے۔سردار عبدالرحمان کو گرفتار کیا جا چکا اور وہ ریمانڈ پرہے ،سوال ہے یہ جانتے بوجھتے کہ قتل اور اغوا کرانے والا صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران تھا تو اسے ایف آئی آر میں نامزد کیوں نہیں کیا گیا۔بلوچستان لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والوں کو وہاں کے سرداروں کا غریب لوگوں سے روا رکھا جانے والا ناروا سلوک دکھائی نہیں دیتا ؟۔ویسے تو بی ایل پی والے بلوچستان کے حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں انہیں بلوچستان کے سرداروں کا وہاں کے غریب لوگوں سے غیر انسانی سلوک نظر نہیں آتا۔
حقیقت تو یہ ہے آج اگر بلوچستان ترقی کے معاملے میں ملک کے دیگر صوبوں سے پیچھے ہے اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کے سرداروں اور نوابوں کی اجارہ داری کا نتیجہ ہے۔بلوچستان ملک کاواحد شورش زدہ صوبہ ہے جہاں سب سے پہلا ملٹری آپریشن جنرل ایوب خان نے شروع کیا جس کے بعد جنرل یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق اور آخر میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا۔سانحہ بارکھان سے یہ کہنا غلط نہیںہوگا بلوچستان میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔اتنی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد وہاں کے عوام اور وکلاء کے احتجاج کے بعد صوبائی وزیر کو قانون کے حوالے کرنا پڑا۔بارکھان کا واقعہ صوبائی حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس ہے ایک طرف صوبائی وزیر اور علاقے کا سردار دوسری طرف غریب عوام اب دیکھتے ہیں بلوچستان حکومت اس کیس کوکس طرح ہینڈل کرتی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جے آئی ٹی کو ایک ماہ کا وقت دینے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے صوبائی حکومت ہر قیمت پر اپنے وزیر کو بچانے کی کوشش کرے گی۔صوبائی حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ مغویان کو برآمد کرنے کی ذمہ داری پولیس کی بجائے لیویز کو دی گئی جس نے مغویان کو سردار عبدالرحمان کے ڈیرے سے برآمد کیا مغویان کی عبدالرحمان کھیتران کے ڈیرے سے برآمدگی اس امر کا واضح ثبوت ہے مقتولوں کوقتل کرانے والاصوبائی وزیر تھا۔بارکھان اور کوہلو بلوچستان ایڈمنسٹریشن کے زیر انتظام ہیں لہٰذا اس سانحہ کو جرگہ کے حوالے کرنے سے مظلوم لوگوں کی داد رسی ممکن نہیں بلکہ اس کیس کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلا کر ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button