ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتی مسلمانوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

بھارتی ریاست ہریانہ میں دومسلم نوجوانوں کو اغواء کر کے گاڑی سمیت زندہ جلا دیا گیاجس پر پورے بھارت میں مسلمانوں کاشدیداحتجاج جاری ہے۔ ہندوانتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کے اہلکاروں نے جنید نامی نوجوان پر گائے سمگلنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ درج کروایا تھا جس پرغالب امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسے اور اس کے دوست کو انہی انتہاپسندوں نے شہید کیاہے۔شہید نوجوانوں کاتعلق راجستھان سے ہے، انہیں اغواء کر کے ہریانہ لایا گیااور پھر قتل کر کے گاڑی کو آگ لگادی گئی جس سے انہیں لاشیں بھی ناقابل شناخت ہو گئیں۔بجرنگ دل کا مقامی اہلکار مونو مانیسر جس کی سرپرستی میں یہ سارا کھیل کھیلا گیااس پر پہلے بھی گائے ذبیحہ کا الزام لگا کر مسلمانوں پر تشدد کے مقدمات درج ہیں۔ چند دن قبل بھی بجرنگ دل کے اہلکاروں نے ایک مسلم نوجوان کو گائے ذبیحہ کا الزام لگاکر شہید کر دیاتھا تاہم پولیس نے اسے سڑک حادثہ قرار دے کر کیس ہی داخل دفتر کر دیا تھا۔
بھارت میںپچھلے کچھ عرصہ کے دوران مسلمانوں پر ہندوانتہاپسندوں کے بہیمانہ تشدد کی متعدد ویڈیوسامنے آئی ہیں جس پر ہندوستانی مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔مختلف شہروں میں پیش آنے والے واقعات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر میں انصاف پسند حلقوںنے ہندوانتہا پسندوں کی دہشت گردی کی مذمت کی جس کے بعد تھوڑی دیر کیلئے چند ایک انتہاپسندوں کو گرفتار کیا گیا تاہم کچھ دیر بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا کہ ان کے خلاف کسی نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی اس لیے انہیں حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔ان اہلکاروںکی انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ تصاویراور ویڈیوز بھی ریکارڈ پر ہیںلیکن کسی کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔بھارت میں جب سے شہریت کا متنازع قانون منظور ہوا ہے، اس وقت سے ہندوانتہاپسندوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور بھارتی مسلمان خود کو بہت زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔
بھارت میں ہندو دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ سارا کھیل منصوبہ بندی کے تحت کھیلا جارہا ہے اور زیادہ تر واقعات اترپردیش، ہریانہ ، مدھیہ پردیش، جھاڑکھنڈ، راجستھان،بہار اور دوسری ریاستوں کے ان علاقوں میں پیش آرہے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔ جب سے انڈیا میں ہندوانتہاپسند تنظیم بی جے پی کی حکومت آئی ہے مسلمانوں اوروہاں بسنے والے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور انہیں سازش کے تحت تعلیم، صحت اور دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیچھے دھکیلنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔مودی سرکار کے دور حکومت میں ہندو انتہا پسندی کے واقعات جنہیں ہجومی تشدد کا نام دیا جاتا ہے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہندوانتہاپسند ہتھیاروں سے لیس ہو کر نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیںاور خود ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں تو ہندوستانی عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟نام نہاد قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں غائب ہو جاتے ہیںاورسب کچھ سامنے آنے کے باوجود بھی مجرموں کو گرفتار کر کے سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، ایجنسیوں اور دوسرے اداروں میں ہندوانتہاپسندوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو فسادات پھیلانے والوں کی موقع پر سرپرستی کرتے نظر آتے ہیںاور اگر کبھی تشدد کا شکار مسلمانوں کو تھانوں میں لایا جائے تو وہاں تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہیں بروقت ہسپتالوں تک بھی نہیں پہنچایا جاتا۔ جن انتہاپسندوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اور وہ سینکڑوں مسلمانوں کا قتل کرچکے ہیں انہیں ہندوانتہاپسند تنظیمیں اپنے جلسوں میں بلاتی ہیں اور سٹیج پر بلا کر گل پاشی کی جاتی ہے۔ جب قبیح جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود ان کی یوں حوصلہ افزائی ہو گی اور سزائیں دینے کی بجائے انہیں ہیرو سمجھا جائے گا تو لازمی بات ہے دوسرے انتہاپسند بھی پھر یہی کام کریں گے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں ان دنوں مسلمانوں کے قتل اور انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی باقاعدہ مہم جاری ہے۔ خاص طور پر ان علاقوںمیں جہاں ہندو انتہاپسند لیڈروں کازیادہ اثرورسوخ ہے وہاں بی جے پی کی شہ پر آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشواہندو پریشد ، شیو سینااور ہندوواہنی جیسی تنظیموںکے اہلکار کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کہیں گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کا قتل کر کے فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں مسلم نوجوانوں کو پاکستانی قرار دیکر ان کی داڑھیاں مونڈھ دی جاتی ہیں۔ اسی طرح گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کا قتل بھی آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ انتہاپسند بھارتی وزیر اعظم نے اگرچہ دنیا کو دکھانے کیلئے ایک مرتبہ یہ بیان دیاتھا کہ گائے بچانے کے نام پر انسان کا قتل افسوسناک ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ گائے ذبیحہ یا گوشت رکھنے کے الزام میں پیش آنے والے ستانوے فیصد واقعات بی جے پی کے اسی دور حکومت میں پیش آئے ہیں۔ ہندوستانی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ ہجومی تشدد کے نتیجہ میں گائے ذبیحہ کے نام پر قتل عام روکا جائے مگر بھارتی معاشرے میں جس طرح معصوم بچیوں کی بے حرمتی کے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اسی طرح مذہب کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک برس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوانتہاپسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میںسینکڑو ں مسلمان شہید و زخمی کئے گئے ہیں۔اکثر واقعات ایسے ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی، محض سوشل میڈیا پرمنصوبہ بندی کے تحت کوئی افواہ اڑائی گئی اور پھر مسلمانوں کو نشانہ بنا کر فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی۔ بی جے پی سرکار کے مرکزی لیڈر ،لوک سبھا اور راجیہ سبھاکے ممبران مسلمانوں اور دلتوں کیخلاف تشدد کو اپنی سیاست پروان چڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور ایسی وارداتوں میں ملوث لوگوں کو خاص طور پر تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
بھارت کی وہ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو آئے دن تشدد، قتل و غارت گری اور فسادات برپا کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہاتی اور ان کی املاک کو برباد کرتی آئی ہیں ان کا اب تک یہی نعرہ رہا ہے کہ’’ہندوستان کے ہندو خطرے میں ہیں‘‘اس لیے ہندو دھرم اور اس کے ماننے والوں پر حملوں کے مقابلہ کیلئے اس خطہ میں بسنے والے سب ہندو ایک ہوجائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے یہ سب ہندو انتہا پسند ہندوؤں کے تحفظ کا نعرہ ختم کرکے اب بھارت کو ایک’’ہندو سٹیٹ‘‘میں تبدیل کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ کبھی بہاری مسلمانوں کوبنگلہ دیشی درانداز کہہ کر ان کی عزتوں اور جان ومال پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں بنگلہ دیش نہ جانے کی صورت میں قتل عام کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کبھی ہندوستان میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو ان کا مذہب اختیار نہ کرنے اوراپنے آپ کو مکمل ہندو مذہب کے مطابق نہ ڈھالنے کی صورت میں زبردستی پاکستان دھکیلنے کیلئے دھمکایا جاتا ہے ۔آر ایس ایس، شیو سینا، بی جے پی اور وشواہندوپریشد جیسی تنظیموں کے اہلکارجہاں چاہتے ہیں بھگوا جھنڈا لگاتے ہیں اور ایک چھوٹی سی مورتی رکھ کر پوجا پاٹ کا آغاز کردیتے ہیں۔کسی کی جرأت نہیں کہ انہیں یہاں سے ہٹا سکے بلکہ پولیس بھی مکمل طور پر ان کی سرپرستی کرتی ہے اوران کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے جیلوں میں ٹھونس دیاجاتا ہے۔ بھارت میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مسلمان تمام بھارتی جیلوںمیں ہندوئوں سے کہیں زیادہ تعداد میں جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ خاص طور پرپڑھے لکھے نوجوان جو آنے والے کل میں مسلمانوں کیلئے کچھ کر سکتے ہیں انہیں خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔مسلم نوجوانوںکو روزگار میسر ہے اور نہ ہی سرکاری دفاتر میں نوکریاںملتی ہیں۔ بھارتی تفتیشی ایجنسیاں اور اے ٹی ایس مسلم نوجوانوں کیلئے قاتل ثابت ہوئے ہیں۔بے گناہ مسلم نوجوان سالہا سال تک بغیر کسی مقدمہ کے جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں لیکن ہندوانتہاپسندوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت میں نہتے مسلمانوں پر ظلم و دہشت گردی کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اٹھائے اور مسلمان ملکوں اور عالمی اداروں کے ذریعے مودی سرکار پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ بے گناہ مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد ، قتل و غارت گری اور ان کی املاک برباد کرنے جیسے واقعات پر قابو پائے۔ بھارتی مسلمانوں کی زندگیاں اور ان کے جان و مال کے تحفظ کیلئے زوردار آواز بلند کرناانتہائی ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button