ColumnJabaar Ch

رانجھا رانجھا کردی۔۔۔۔ .. جبارچودھری

جبارچودھری

 

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کا سلسلہ درازہوا تو سپریم کورٹ نے سو موٹولے لیا۔سوموٹو کیا تھا ایک پینڈوراباکس ہی کھل گیا۔نورکنی بینچ کے اندرسے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ معاملہ الیکشن کی تاریخ کا تھا لیکن دو معزز ججز نے اسمبلیوں کی تحلیل کا ہی سوال اٹھا دیا۔اب کیس کس طرف جائے گا ابھی پیش گوئی کرنا مشکل ہے،لیکن گیم اوپن ہے اورمعاملہ اسمبلیوں کی بحالی کی طرف بھی جاسکتا ہے اوراسمبلی بحال ہونے کا مطلب چودھری پرویزالٰہی ایک بار پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔
چودھری پرویز الٰہی کی سیاست پرویز مشرف کے جانے کے بعد ایک کٹی پتنگ جیسی ہوگئی تھی۔ دوہزار آٹھ میں ان کی پارٹی کوپنجاب میں بری طرح شکست ہوئی اور پنجاب میں حکومت نون لیگ نے بنالی توچودھری پرویزالٰہی نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑکرقومی اسمبلی کی سیٹ اپنے پاس رکھ لی۔قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی حکومت بن گئی۔نون لیگ اورپیپلزپارٹی میں میثاق جمہوریت کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ دونوں میں کوئی جماعت اقتدارمیں آئی تھی۔نوازشریف سے میثاق جمہوریت پر دستخط کرانے والی بے نظیر بھٹوشہید ہوچکی تھیں،لیکن آصف علی زرداری نے بھی اس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کوحکومت میں ساتھ آنے کی دعوت دیدی۔نوازشریف نے ججز بحالی کی شرط رکھتے ہوئے کابینہ میںآنے کی دعوت قبول کرلی۔ججز کی بحالی کیلئے معاہدہ بھوربھن کیا گیا۔ اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ نون نے بھی پیپلزپارٹی کو حکومت میں شامل کرلیا۔
ججز بحال نہ ہونے پرنون لیگ حکومت سے باہر آگئی اور ججزبحالی کی تحریک میں شامل ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کو جانے کیا سوجھی کہ آصف علی زرداری نے دوہزارگیارہ میں قاف لیگ کو حکومت میں شامل کرلیااس طرح چودھری پرویزالہٰی وفاقی وزیربن گئے۔سب حیران تھے کہ چودھری پرویزالہٰی کو پیپلزپارٹی کیسے اقتدارمیں شامل کرسکتی ہے جبکہ بے نظیر بھٹو نے اپنے قتل سے پہلے جن لوگوں پر شک کا اظہارکیا تھا ان میں چودھری پرویزالٰہی کا نام بھی تھا لیکن ضرورت ایجاد کی ماں بنی اورزرداری صاحب نے چودھری پرویزالٰہی کیلئے ڈپٹی وزیراعظم کاعہدہ تراش لیا۔چودھری پرویز الٰہی پیپلزپارٹی کی حکومت میں ملک کے ڈپٹی وزیراعظم بن گئے۔یہ نمائشی عہدہ پرویزالٰہی کے پاس ایک سال تک رہا ۔
دوہزار تیرہ کے انتخابات میں مسلم لیگ نون نے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنالی اوریہ پانچ سال چودھری پرویزالٰہی نے خاموشی سے گزارے۔ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح کے سامنے آئے کہ پرویزالٰہی کی پارٹی پنجاب میں حکومت سازی کیلئے لازمی ہوگئی۔نون لیگ حکومت بناتی تو بھی قاف لیگ کی ضرورت تھی اور پی ٹی آئی کوبھی قاف لیگ کی ضرورت ۔فیصلہ یہی تھا کہ مرکز اور پنجاب میں اقتدارعمران خان کو دیاجائے گا اس لیے پرویزالٰہی کو بھی ادھر ہی جانے کا حکم ملا۔ پرویز الٰہی نے اپنے لیے بہترین ڈیل کی۔پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ لے لیا لیکن مرکز میں اپنے بیٹے مونس الٰہی کو وزیرنہ بنواسکے ۔عمران خان نے مجبوری میں پرویزالہٰی کو سپیکر توبنادیا لیکن دل سے پرویز الہٰی کوقبول نہ کیا۔پرویزالٰہی ہر صورت مونس الٰہی کو وفاقی وزیربنوانا چاہتے تھے۔اس مقصد کیلئے وہ عمران خان کے خلاف بیانات دیتے رہتے تھے۔
مجھے یاد ہے یہ بیس نومبر دوہزار انیس کا دن تھاجب چودھری پرویزالٰہی نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیا ۔اس انٹرویو میں پرویزالٰہی نے انکشاف کیا کہ سابق ڈی جی آئی جنرل پاشا نے ان کی پارٹی توڑ کر پی ٹی آئی بنائی ہے۔پرویز الٰہی نے یہ بھی الزام لگایاکہ پاشا نے ان کو بھی کہا کہ وہ عمران خان کو جوائن کرلیں اور انہوں نے پاشا کی شکایت اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کوبھی لگائی تھی۔یہ ایک ایسا الزام تھا جس کی گرمی عمران خان نے بھی محسوس کی۔پرویز الٰہی کے الزامات کی رفتار بڑھی توعمران خان جھکنے پر مجبورہوئے تو انہوں نے چودھری برادران کو دل سے تو قبول نہ کیا لیکن حکومت بچانے کیلئے مونس الٰہی کو کابینہ میں شامل کرلیا۔پرویزالٰہی سکون میں آگئے۔معاملات آگے بڑھے تو عدم اعتماد کا مرحلہ آگیا۔یہ ایسا موقع تھا جس کو پرویزالٰہی نے بھرپورطریقے سے کیش کرانے کا فیصلہ کیا۔پی ڈی ایم پنجاب میں بھی کامیابی چاہتی تھی اس لیے پرویز الہٰی کے دس ایم پی ایزمانگ لیے۔پرویزالٰہی کی تو جیسے لاٹری نکل آئی۔
پرویز الٰہی نے پی ڈی ایم سے ڈیل کرلی ۔پی ڈی ایم نے پرویز الٰہی کوپنجاب کاوزیراعلیٰ بنانے کی پیشکش کردی جوانہوں نے قبول کرلی۔اس کے بعد پی ڈی ایم خاموش ہوگئی لیکن پرویزالہٰی لگے رہے۔پرویز الٰہی کاطریقہ یہ ہے کہ انہوں نے جس کے خلاف کچھ کرنا ہوتا ہے وہ ٹی وی انٹرویو کے ذریعے کہتے ہیں ۔ایک بارپھر وہ ٹی وی انٹرویومیں آئے اورعمران خان صاحب کے خلاف ’’نیپیاں‘‘ بدلنے والابیان دے دیا۔ایسے بیانات کا مقصد اپنی قیمت بڑھانا ہی سمجھا جاتا ہے تو ان کی قیمت بڑھ گئی کیونکہ ان کے بیٹے مونس الہٰی کا خیال تھا کہ پی ڈی ایم کا وزیراعلیٰ بننے سے زیاد ہ فائدہ پی ٹی آئی کا وزیراعلیٰ بننے میں ہوگا۔اس مقصد کیلئے انہوںنے عمران خان سے ڈیل شروع کردی جو کامیاب رہی۔ اس ڈیل کے نتیجے میں خود قاف لیگ ٹوٹ گئی۔اس مفاد کی سیاست نے چودھری برادران کا خاندان توڑ دیا۔چودھری شجاعت پی ڈی ایم کے ساتھ اور پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے ساتھ چلے گئے۔
گزرے چھ ماہ میں سیاست اس رخ پر چلی گئی کہ پرویز الہٰی اپنی بقاکی جنگ لڑتے لڑتے اس قدر ہی باقی بچے کہ آئندہ الیکشن جیتنے کیلئے پی ٹی آئی میں جانے کے سواکوئی چارہ ہی نہیں بچا ان کے پاس۔انہوں نے کوشش کی کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکیں ۔وہ عمران خان سے صوبائی اسمبلی کی پچاس سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کررہے تھے تو انہیں کہا گیا کہ اتنے توآپ کی پارٹی میں بندے نہیں ہیں جتنی سیٹیں آپ مانگ رہے ہیں۔عمران خان نے انہیں اتنی ہی سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش کی جتنی ان کے پاس اس وقت ہیں یعنی دس سیٹیں دینے کیلئے راضی ہوئے ۔یہ سوداپرویزالٰہی کو قبول نہیں تھا۔اس لیے انہوںنے ایک ماہ کی سوچ بچارکے بعد عمران خان کی پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی پیشکش کو ہی قبول کرنے میں عافیت خیال کی۔کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے پنجاب میں کامیابی کی صورت میں انہیں دوبارہ وزیراعلیٰ بنانے کا وعدہ کرلیا ہے لیکن یہ بات لکھ کررکھ لیں کہ اگر پی ٹی آئی جیت گئی توعمران خان پرویز الٰہی کو کبھی پنجاب کا وزیراعلیٰ نہیں بنائیں گے۔عدم اعتماد کے وقت مجبوری تھی تو فائدہ اٹھالیا گیا لیکن اب چاہے وہ پی ٹی آئی میں شامل ہی کیوں نہیں ہوگئے ہیں وہ وزیراعلیٰ نہیں بن پائیں گے۔
اب پرویز الٰہی پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے اور ان کی اپنی پارٹی کے صدر کی حیثیت ختم ہوچکی۔ چودھری شجاعت نے ان کو قاف لیگ سے بھی نکال باہر کیا ہے۔پرویزالٰہی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی پارٹی پی ٹی آئی میں ضم کی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ قاف لیگ اپنی جگہ الگ پارٹی کے طور پر موجود ہے اورپرویزالٰہی اپنے ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔پرویزالٰہی نے اپنے لیے پی ٹی آئی کے صدرکا عہدہ حاصل کرلیا ہے۔ اس عہدے کا باقاعدہ اعلان کب ہوگا اس بارے ابھی کچھ نہیں بتایا گیاحالانکہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق پارٹی میں صدر کاعہدہ جاوید ہاشمی کے جانے کے بعد سے ختم کردیا گیا تھا۔اب یہ عہدہ کب آئین میں ڈالا جائے گا کچھ پتا نہیں ۔اوران کے ساتھیوں کو پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کے علاوہ کیا ملے گا یہ بھی ابھی سوال ہی ہے۔سب سوالوں کے ساتھ سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ پرویزالٰہی کو بطورصدرپی ٹی آئی کے کارکن اورسینئررہنما قبول کریں گے یا نہیں زیادہ چانسزیہی ہیں کہ پرویز الہٰی کا صدر کا عہدہ ویساہی نمائشی ہوگا جیسا ان کو زرداری صاحب نے ملک کا ڈپٹی وزیراعظم بناکردیا تھاکیونکہ پرویز الٰہی کو تو وہ فواد چودھری بھی دل سے قبول نہیں کریں گے جو ان کے ساتھ کھڑے پریس کانفرنس میں پرویز الٰہی کی شمولیت کا اعلان کررہے تھے۔چودھری پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی میں شامل ہوتے دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ پرویزالٰہی آخرکار خود کس کے کہنے پر ٹوٹ کر اسی پارٹی کی جھولی میں گرنے پر مجبورہوئے ہوں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button