Abdul Hanan Raja.Column

ترا قول تھا جو سند رہا ۔۔ عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر
حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا…
تصوف تحرک کا نام ہے جمود کا نہیں، یہی وجہ تھی کہ پیر سید نصیر الدین نصیر نظام خانقاہی پہ طاری جمود اور روایتی طرز طریقت سے شاقی رہے۔ ابن تیمیہ کہ جنہیں شاید لاعلمی کی بنا پر تصوف کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ دراصل چھٹی صدی ہجری میں کہ جب امت مسلمہ کے ساتھ خانقاہی نطام بھی زوال کی زد میں اور فتنہ تاتار اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ بپا تھا، ابن تیمیہ نظام خانقاہی میں تجدید کی بات کرتے تھے۔ شیخ الاسلام نے اپنی تحقیق میں ابن تیمیہ کو سید عبدالقادر جیلانی کا اردات مند قرار اور حقیقی تصوف کو ماننے والا قرار دیا۔ سید نصیر الدین نصیر بھی خانقاہی نظام کی ضرورت و اہمیت سے خوب واقف مگر اس نظام کی خرافات انہیں قبول نہ تھیں۔ اگر انہیں نظام خانقاہی کا جری محافظ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جو اس کی اصل روح کو زندہ کرنے کے قائل تھے، وہ جری اس لیے بھی تھے کہ وہ باریاب بارگاہ تھے اور اپنے پر کرم نوازیوں سے آگاہ بھی۔ وہ دولت عشق سے مالا مال اور عشق رسول ﷺانکی کی رگ و پے میں تھا کہ انکے نعتیہ کلام دلوں کو بے خود کرنے اور عشاق کا لہو گرمانے کیلئے پڑھے جاتے ہیں۔ درگاہ بری امام کے سجادہ نشیں پیر سید حیدر گیلانی، نصیر ملت سے اپنی محبت کا خلاصہ چند الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیر وہ نہیں جو صرف اپنے آباء کے نام پر نذرانے سمیٹے۔ دراصل پیر رہبر و راہنما ہوتا ہے۔ چند ملاقاتوں میں انہیں بلند پایہ شاعر کہ جس کے اشعار میں عشق و محبت غالب اور جرات آموز پایا۔ اپنے ما فی الضمیر کا اظہار وہ بڑی جرأت کے ساتھ کرتے تھے۔
نصیر ملت کے نعتیہ کلام جگر سے تیر پار اور تمنا کو سینوں میں بیدار کرتے ہیں۔
تھی جس کے مقدر میں گدائی تیرے در کی
قدرت نے اسے راہ دکھائی تیرے در کی
ہیں ارض و سماوات تری ذات کا صدقہ
محتاج ہے یہ ساری خدائی ترے در کی
پھر اس نے کوئی اور تصور نہیں باندھا
ہم نے جسے تصویر دکھائی تیرے در کی
نعت کا اسلوب چونکہ عام نظم سے مختلف ہوتا ہے اور بقول احمد رضا رضوی جو خود اس صنف کے بہت بڑے امام کہتے ہیں کہ نعت کہنا دو دھاری تلوار پہ چلنے کے مترادف ہے۔ دور جدید کے نعت گو اس پر متفق ہیں کہ پیر نصیر الدین نے جو لکھا کمال لکھا کہ قبولیت عامہ اس کی دلیل ہے۔ نصیر ملت کی طبیعت جوبن پر ہوتی تو کبھی سر اور کبھی تحت اللفط میں اپنا کلام پڑھتے۔ کلام شاعر بزبان شاعر ویسے بھی خوب جچتا ہے اور اگر شاعر ہفت زباں ہو اور نصیر الدین ہو تو کیا کہنے…
کوئی جائے طور پہ کس لیے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ ذوق دیدہ وری رہا،نہ وہ شان جلوہ گری رہی
رہ عشق میں جو ہوا گذر دل وجاں کی کچھ نہ رہی خبر
نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر، مرے ساتھ بے خبری رہی
تیرے حاسدوں کو ملال ہے، یہ نصیر فن کا کمال ہے
تیرا قول تھا جو سند رہا، تیری بات تھی جو کھری رہی
اوراس میں شک بھی نہیں کہ وہ کھری بات کہنے میں معروف تھے اور یہی وجہ ہے کہ کہیں انکے ہم مشرب و ہم مسلک ان سے کھچے کھچے تو دوسری طرف نظریہ مخالف ان کا طرف دار، کہ باوجود سجادہ نشیں ہونے کے انہوں نے روایتی نظام خانقاہی کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔
بقول صاحبزادہ منیر عالم ہزاروی: وہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
قلندرانہ جلال آپ کی شخصیت کا حصہ اور حق گوئی و بے باکی انکا شعار رہا۔ وہ تصوف کی اصل روح کو زندہ کرنے، علم و عمل پر زور اور طریقت کو
کمال پر دیکھنے کے خواہاں رہے۔ نہ کہ نذرانوں کے نام پر ارادت مندوں کی جیبیں خالی کرانے کے۔ وہ اسے ‘ نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا ‘ سمجھتے اور اس کے سخت ناقد تھے۔ نظام المدارس پاکستان شعبہ امتحانات کے ڈائریکٹر معروف سکالر عین الحق بغدادی نے کہتے ہیں کہ اب جبکہ خانقاہوں پر شاہانہ رنگ کا غلبہ ہے ایسے وقت میں پیر نصیر الدین نے سیف جلی ہونے کا حق خوب ادا کیا۔ وہ روایتی پیری مریدی کے ناقد رہے اور ببانگ دہل اس پر نقد و جرح کی باوجود اس کے ان کا اپنا تعلق بڑی درگاہ سے تھا۔ شیخ الاسلام سے ان کو خصوصی محبت تھی جس کی بنیاد عشق رسولﷺ تھی اور اس کا اظہار انہوں نے متعدد مرتبہ برسر منبر بھی کیا ..
دلوں کی تسخیر کا فن کوئی نصیر سے سیکھے کہ منبع ولایت، باب العلم، داماد رسول، شوہر بتول کی آل ہونے کا شرف، اور فاتح قادنیت مہر علی کے گھر پرورش پائی ہو، تو حیدری مہک تو آتی ہے. وہ عمر بھر معرفت اور عشق کے سمندر میں غوطہ زن رہے. یہی وجہ کہ انکے کلام میں آتش عشق غالب نظر آتی ہے !
نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے،
اب اہل ہوش سے کہہ دو کہ نہ آئیں سمجھانے…
نہ حرف حق نہ وہ منصور کی زباں نہ وہ دار
نہ کربلا، نہ وہ کٹے سروں کے نذرانے..
نہ بایزید، نہ شبلی نہ اب جنید کوئی
نہ آب وسوز نہ آہیں نہ ہا وہو خانے…
وہ امت کے دلوں کو مرکز عشق کی طرف موڑنا چاہتے تھے ان کے خطبات ہوں یا ان کی شاعری ہر دو میں ان کا مقصود مکین گنبد خضری سے لافانی عشق ہی رہا۔
کبھی انکا نام لینا کبھی انکی بات کرنا
مرا ذوق انکی چاہت مرا شوق ان پہ مرنا..
شب غم نہ پوچھ کیسے تیرے مبتلا پہ گذری
کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا…
راہ تصوف میں عشق کا مقام ہی سب سے بلند اور وہی سرفرازی پاتا ہے جو اس وادی کا مسافر ہو۔ شیخ کی نگاہ سے سالک شاد کام ہوتا ہے اور نگاہ اگر ساقی کوثر کی ہو تو پھر کیا کہنے۔ میرا وجدان تو کہتا ہے کہ نصیر الدین نصیر مقبول بارگاہ تھے کہ حق نے انکی زباں سے ایسے کلام جاری کرا دئیے کہ جو رہتی دنیا تک راہ سلوک اور عشاقان کے لیے آتش سوزاں کا کام کرتے رہیں گے۔
عجب منظر بالائے بام ہوتا ہے، جب آشکار وہ ماہ تمام ہوتا ہے
بس اک نگاہ پہ ہے دل کا فیصلہ موقوف، بس اک نگاہ میں قصہ تمام ہوتا ہے…
نصیر اہل وفا کے بڑے مراتب ہیں، بہت بلند وفا کا مقام ہوتا ہے….
اور بے شک سید نصیر الدین نصیر اہل وفا میں سے تھے اور انکا مقام بلند. خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را…!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button