Columnمحمد مبشر انوار

حیلے بہانے ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

کھیل کوئی بھی ہو، اس کی خوبصورتی صرف اور صرف قواعد و ضوابط اور اصولوں کے تحت کھیلنے سے ہی قائم رہتی ہے لہٰذا دنیا بھر میں یہ مسلمہ اصول طے ہے کہ اگر کوئی بھی کھیل کھیلا جائے گا تو اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی کھیلا جائے گا۔ کھیل میں قواعد و ضوابط کو نکال دیں تو پھر کھیل کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے اور شائقین کی دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے، اس کی مثال بھارتی کرکٹ ٹیم کی دی جاسکتی ہے کہ بارہا میدان میں مقابلے کی بجائے، پس پردہ قواعد و ضوابط کو توڑتے ہوئے نتائج کا تعین کروایا جاتا ہے۔ جب مرضی ہوئی کسی ٹیم کے ساتھ کھیل لیا، شکست کو خوف دامن گیر ہوا تو نتائج کیلئے پس پردہ معاملات طے کر کے میدان میں من پسند نتائج حاصل کر لیے۔ مخالفین کیلئے مواقعوں میں کمی، مقابلے ناپید کرنا یا اس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہوئے ناپسندیدہ یا شکست کے خوف سے بچنے کیلئے روایتی حریف کو میدان سے باہر رکھنے کی سعی کی جاتی رہی ہے اور کئی ایک مواقع پر تو اپنی معاشی حیثیت کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔نیوزی لینڈ کے گذشتہ دورہ پاکستان کو جس طرح سبوتاژ کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی، ساری دنیا میں اس کی مذمت ہوئی اور بعد ازاں حقائق سامنے آنے پر نہ صرف نیوزی لینڈ بلکہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کا کامیاب اور محفوظ دورہ بھی کیا۔ یوں مقابلے پاکستان کے میدانوں میں، پاکستانی شائقین کے سامنے ہوئے، قطع نظر کہ ان مقابلوں کے نتائج کیا نکلے، کون جیتا کون ہارا، مقابلے قواعد و ضوابط اور میدان میں ہوئے۔
چانکیائی سیاست کے پروردہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے ہیں کہ کسی طرح بھی میدان سے باہر معاملات کو اس انداز میں طے کیا جائے کہ شکست کا اندیشہ ہی نہ رہے اور جیت یقینی ہو لیکن کئی ایک مواقع پر جب تکبر حد سے بڑھا یا تضحیک کا عنصر برداشت سے باہر ہوا تو پاکستانی شاہینوں نے اللہ کے کرم سے اپنا قدرتی کھیل کا انداز اپناتے ہوئے اور بھرپور صلاحیتیوں کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی خواہشات کو زمین بوس کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاسی کھیل بھی اسی چانکیائی طرز پر کھیلا جاتا رہا ہے اور اکثر اوقات یہاں سیاسی کھیل کو قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دیکھا گیا ہے، فریقین (سیاسی اشرافیہ اور مقتدرہ) کے درمیان غیر اعلانیہ طے ہے کہ ریاست پاکستان میں سیاسی کھیل کو کسی بھی صورت اس کے مجوزہ و مسلمہ اصولوں کے تحت نہیں کھیلا جائے گا۔ اس تلخ ترین حقیقت پر بارہا لکھا جا چکا ہے، ہزاروں لاکھوں صفحات اس امر پر کالے کئے جا چکے ہیں لیکن ریاست پاکستان میں قلم کی طاقت ہمیشہ کمزور نظر آتی ہے بلکہ کبھی کبھار تو یہ گمان ہوتا ہے کہ الفاظ کی حرمت ہی ختم ہو چکی ہے جس کی وجہ لکھتے ہوئے بھی ندامت محسوس ہوتی ہے کیونکہ
قول و فعل کا تضاد کہیں یا رنگ میں رنگے جانا سمجھیں، الفاظ کی تاثیر ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت بھی پاکستانی سیاست کی صورتحال ایسی ہی نظر آتی ہے کہ کہنے کو ریاست پاکستان میں آئین تو موجود ہے لیکن افسوس کہ اس آئین پر کما حقہ عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ اس میں موجود موشگافیوں یا اس کی تشریح کرتے ہوئے، بچ نکلنے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے اور طاقتور مکڑی کے جالے کی مانند اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ قانون کے رکھوالے اسے موم کی ناک سے زیادہ اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں لیکن ہر جگہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایس کی تشریح ایسی ہو جو ان کے مؤقف کو تحفظ دے، ان کی جیت کو ممکن بنائے، کبھی بھی ایسی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی کہ مقننہ کی سوچ کے مطابق اس کی تشریح کی جائے۔
رجیم چینج آپریشن کے بعد، حکومت وقت اور اس کے بیشتر رہنما اس امر کا اظہار کرتے نظر آئے کہ اگر عمران خان کو تبدیلی حکومت میں کوئی سازش نظر آتی ہے تو عمران خان دو صوبائی حکومتوں میں موجود ہیں، اگر دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے تو وفاقی حکومت عام انتخابات کیلئے مجبور ہو جائیگی لیکن آج کی صورتحال اس دعویٰ کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کو اپنی دو صوبائی حکومتیں تحلیل کئے قریباً ایک ماہ ہو چکا لیکن الیکشن کمیشن ہنوز انتخابات کی تاریخ دینے سے قاصر ہے، گو کہ ہائیکورٹ تحریک انصاف کی ایک آئینی پٹیشن پر واضح فیصلہ دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کا نہ صرف پابند ہے بلکہ اس کا اعلان بھی کرے لیکن ہنوز الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ سامنے نہیں آئی۔ رجیم چینج منصوبہ کی جزئیات پر من و عن عمل جاری ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف انتخابات سے قبل عمران کو نااہل کیا جانا مقصود ہے، تسکین طبع کیلئے اس کی گرفتاری ضروری ہے، اسے نیچا دکھانے کیلئے اس کی تذلیل و تضحیک لازم ٹھہری ہے تو دوسری جانب انتخابات نہ صرف مقررہ مدت بلکہ اس میں ممکنہ توسیع بھی منصوبہ کا حصہ ہے۔ اس سارے کھیل میں، قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتی سیاسی اشرافیہ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ ملک کے ستر فیصد حصہ پر منتخب حکومتیں موجود نہیں اور آئین کے مطابق نوے روز میں انتخابات کا انعقاد لازم ہے وگرنہ آئین شکنی کے مرتکب افراد غداری کے مجرم ہوں گے گو کہ آئین میں آئین شکنی کو غداری لکھ کر اپنے تئیں آمریت کا راستہ روکنے کی کوشش تھی لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ غداری کا یہ تمغہ کسی آمر پر سجے نہ سجے لیکن سیاسی رہنما اس کی زد میں آتے ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ بشرطیکہ عدالتیں آئین کی تشریح صحیح معنوں میں کر دیں۔
بات نئے انتخابات کے حوالے سے ہو رہی تھی اور جو تاویلیں اس وقت انتخابات سے بچنے کیلئے دی جا رہی ہیں نہ صرف مضحکہ خیز دکھائی دیتی ہیں بلکہ انتہائی بچگانہ لگتی ہیں کہ آئین کے مطابق اگر وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجے اور گورنر اڑتالیس گھنٹے تک اس پر دستخط نہ کرے تو آئین کے مطابق اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائیگی، اور یہی صورتحال قومی اسمبلی کی بھی ہے۔ حیرت اس امر پر ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد، الیکشن کمیشن اور گورنر مشاورت کے بعد، نوے روز کے اندر انتخابات کی تاریخ دینے کے پابند ہیں لیکن اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ ہائیکورٹ کے واضح حکم کے باوجود بجائے اس کی تعمیل کرنے کے، گورنر پنجاب کی طرف سے اس حکم کی مزید وضاحت اس انداز میں طلب کی جارہی ہے کہ بندہ نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے ۔ شنید ہے کہ گورنر پنجاب ہائیکورٹ کے حکم کے بعد عدالت کے اس امر پر رجوع کر رہے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط نہیں کئے اس لیے وہ نئے انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں سمجھتے، عدالت تو اس کا فیصلہ یا تشریح کرے گی لیکن کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ آئین میں واضح درج ہونے کے باوجود، کیسی تشریح درکار ہے، میری دانست میں یہ درخواست فوری خارج ہو جانی چاہیے لیکن بالفرض اگر اس کی سماعت ہوتی ہے تو نگران حکومت کی حیثیت کیا ہوگی؟ جیسا پہلے عرض کیا کہ چانکیائی سیاست میں اصول نام کی کوئی چیز مد نظر نہیں رکھی جاتی، ترجیح ہمیشہ ذاتی مفادات کی ہوتی ہے اور اختیار میں رہتے ہوئے، منصوبہ سازوں کے منصوبہ کی تکمیل اور ذاتی مفادات کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے ہر طرح کے حیلے بہانے کئے جا سکتے ہیں، اس وقت انتخابات کے حوالے سے موجودہ حکومت حیلے بہانوں پر ہی اکتفا کر رہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button