CM RizwanColumn

زندگی، موت اور ملبہ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

ترکی، شام اور ملحقہ علاقوں میں آنے والے شدید ترین زلزلے سے ہونے والی تباہی کے قیامت خیز اور رقت آمیز مناظر دیکھنے اور بیان کرنے کیلئے حوصلے، ہمت اور صبر کی کیا اہمیت ہے۔ یہ بھی ایک تکلیف دہ امر ہے۔تباہ شدہ شہری آبادیوں کی فوٹیجز، متاثرہ خاندانوں اور افراد کی انفرادی کسمپرسی اور زندگی، موت کی کشمکش پر مبنی حیران اور پریشان کردینے والے حقائق کا بیان اور تذکرہ یقینی طور پر کمزور دل افراد، بچوں اور خواتین کیلئے خطرہ سے خالی نہیں۔ زلزلہ سے متاثرہ ان افراد میں سے ایک تصویر میں ایک شخص دکھائی دے رہا ہے جس نے نارنجی رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے۔ اس کے چہرے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ کہیں کھویا ہوا ہے۔ وہ ایک عمارت کے ملبے میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ عمارت جو کبھی زندگی سے بھرپور تھی، اب ملبے کا ڈھیر ہو چکی ہے۔ اس شخص کا دایاں ہاتھ اس کی جیکٹ کی جیب میں ہے لیکن اس قدر شدید سردی میں بھی اس شخص کا ایک ہاتھ ملبے کے ڈھیر میں ہے۔ تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بائیں ہاتھ سے اس شخص نے ملبے میں دبا ہوا ایک ہاتھ تھاما ہوا ہے۔یہ ہاتھ ایک نوجوان عورت کا ہے۔ فوٹوگرافر جنہوں نے یہ تصویر کھینچی بتاتے ہیں کہ یہ شخص میست ہانسر ہیں جنہوں نے ملبے میں دبی اپنی پندرہ سالہ بیٹی ارمک کا ہاتھ تھاما ہوا ہے لیکن ان کی بیٹی ہلاک ہو چکی ہیں۔ ارمک اب بھی اسی بستر میں ہیں جس میں وہ سوئی ہوئی تھیں۔ اب ان کی لاش کنکریٹ کے دو بلاکس اور لوہے کی چادر میں مقید ہے۔ میست ہانسر کچھ بولتے نہیں لیکن وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ چھوڑنے سے انکاری ہیں۔قریباً دس لاکھ آبادی پر مشتمل ترکی کے جنوب مغرب میں واقع یہ شہر زلزلے سے شدید متاثر ہوا۔ یہ شہر ان دو زلزلوں کے مرکز کے عین درمیان واقع ہے جنہوں نے جنوبی ترکی اور شمالی شام میں تباہی مچائی۔ سینکڑوں رہائشی عمارات زلزلے کی وجہ سے زمین بوس ہو چکی ہیں۔ یہاں ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس وقت شدید سردی نے ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچ جانے کے امکانات کو اور کم کر دیا ہے۔ تاہم ایسی کہانیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ تین دن بعد بھی لوگوں کو زندہ نکالا جا رہا ہے۔
ایک اور فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بدھ کے دن ترکی کے جنوبی شہر سکندرون میں ریسکیو حکام نے اس وقت خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی جب ان کو ملبے تلے زندگی کے آثار سنائی دیئے۔ یہ ایک عمارت کا ملبہ تھا جو زلزلے میں گر گئی تھی۔ مکینوں کے احباب اور ہمسائے اس امید پر آس پاس موجود تھے کہ شاید کوئی زندہ ہو۔ تاہم ریسکیو حکام کی اچانک درخواست پر یہ سب لوگ خاموش ہو گئے، مشینری بند کر دی گئی۔ چند منٹ بعد ریسکیو حکام نے ایمبولنس بلوائی، کہا کہ ایک خاتون کو زندہ پایا گیا ہے۔ خبر سنتے ہی ہجوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس چھ منزلہ عمارت کے ملبے سے پہلی بار کسی کو زندہ نکالا گیا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ یہ ایک 50 سالہ خاتون تھیں جو عمارت میں اکیلی رہتی تھیں۔ شام کے ایک تباہ شدہ علاقے میں ملبے کے ڈھیر سے ایک اور فوٹیج آئی ہے جس میں’’زندگی‘‘ ایک کنکریٹ سے بنی پوری کی پوری گری ہوئی چھت کو ایک جگہ سے توڑنے کے بعد بننے والے چند انچ کے سوراخ سے بے تاب ہاتھ کی صورت میں نمودار ہورہی ہے۔ ہاتھ کی بے تاب جنبش یہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ میں زندہ ہوں مجھے فوری نکالو لیکن ریسکیو کرنے والے اوپر پریشان اور مجبور ہیں کہ اگر چھت توڑی گئی تو نیچے موجود زندگیوں کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ آخر کار ریسکیو والے انسانی زندگی کے اس ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ٹارچ روشنی کیلئے اور کھانے کا چھوٹا موٹا سامان خوراک کیلئے ہی دے پاتے ہیں، آگے کیا ہوا فوٹیج بتانے سے قاصر ہے۔
ترکی، شام، اردن اور دیگر علاقوں میں پیر کے روز زلزلہ آنے کے بعد تاحال ملبے تلے دبے افراد کے بچنے کی امید ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے لیکن ختم ہر گز نہیں ہوئی کیونکہ بچانے والا حاکم مطلق ہے۔ دونوں ممالک اور دنیا بھر سے امدادی کارروائیوں میں مصروف ٹیمیں آرام کیے بغیر کام کر رہی ہیں، جیسے ہی کہیں زندگی کی رمق محسوس ہوتی ہے وہ اس جگہ سے انتہائی احتیاط کے ساتھ ملبہ ہٹانے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ ملبے تلے دبے افراد آخر کب تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں متعدد عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ان میں متاثر ہونے والے شخص کی پوزیشن، اس جگہ ہوا کا گزر، پانی کی فراہمی، موسمی حالات اور ملبے تلے دبے شخص کی اپنی جسمانی صحت سبھی اس امر کا تعین کرتے ہیں کہ ایک شخص کتنی دیر تک ملبے تلے زندہ رہ سکتا ہے۔ زیادہ تر افراد کو 24 گھنٹوں کے اندر بچایا جا سکتا ہے لیکن ایسے کیسز بھی سامنے آ چکے ہیں جن میں کئی دن بعد بھی لوگوں کو ملبے سے زندہ نکالا گیا۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی ریسکیو ٹیموں کی جانب سے پانچ سے سات دن کے بعد امدادی کارروائیاں بند کر دی جاتی ہیں۔ یہ فیصلہ اس صورت میں کیا جاتا ہے جب ایک یا دو دن تک ملبے سے کوئی بھی زندہ نہ نکالا گیا ہو۔ ماہرین کے مطابق ایمرجنسی میں آپ جس حالت میں ہوتے ہیں وہ آپ کو زندہ رکھنے میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ ترکی کی سب سے بڑی سول سوسائٹی امدادی تنظیم اے کے یو ٹی کے ساتھ منسلک مرات ہارون کا کہنا ہے کہ اگر آپ ڈراپ، کور اور ہولڈ کی مشق کریں تو یہ پوزیشن آپ کیلئے بچاؤ کا ذریعہ، ہوا کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ڈراپ کور اور ہولڈ کا مطلب یہ ہے کہ آپ زمین پر گھٹنوں کے بل گریں، کسی ٹیبل کے نیچے بیٹھ جائیں اور مضبوطی سے وہیں جمے رہیں جب تک یہ جھٹکے بند نہیں ہوتے وہ مزید کہتے ہیں کہ کسی بھی آفت سے پہلے فوری طور پر کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں پڑھائی، ٹریننگ اور آگاہی بہت اہم ہے اور اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آپ کے ملبے تلے بچنے کے امکانات کا تعین کرتی ہیں۔
زلزلے میں تحفظ کے حوالے سے تیاری بہت اہم ہے۔ اگر آپ کسی عمارت کے ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں تو ایسے میں زندہ رہنے کیلئے ہوا کا گزر اور پانی کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے تاہم اس بات کا دارومدار بھی آپ کو پہنچنے والے زخموں پر ہے۔ اگر آپ کا خون ضائع ہوا ہے تو 24 گھنٹے سے زیادہ زندہ بچ رہنے کے امکانات قریباً ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر زیادہ چوٹیں نہیں آئیں اور سانس لینے کیلئے ہوا میسر ہے تو ماہرین کے مطابق اگلی سب سے اہم چیز پانی پینا ہے۔ زخم کی نوعیت کو جانچنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ جن افراد کو ریڑھ کی ہڈی، سر اور چھاتی پر زخم آتے ہیں ان کے بچنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں جب تک انہیں مخصوص طبی سہولیات میسر نہ ہوں۔ خون ضائع ہونا، ہڈیوں کا ٹوٹنا یا اہم جسمانی اعضا کا زخمی ہونا زندہ رہنے کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ریسکیو کے بعد بھی احتیاط برتنا انتہائی اہم ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ملبے سے زندہ بچا بھی لیا جائے وہ بھی کرش سنڈروم کے باعث ہلاک ہو سکتے ہیں۔ یہ زلزلے جیسی آفت میں بہت زیادہ ہوتا ہے اور ان افراد کے ساتھ ہوتا ہے جو ملبے تلے دب جاتے ہیں۔ کرش سنڈروم اس وقت ہوتا ہے جب پٹھے ملبے کے بوجھ کے باعث زہریلا مواد خارج کرتے ہیں تاہم جب ملبہ ہٹایا جاتا ہے تو یہ زہریلا مواد پورے جسم میں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے انسانی صحت پر سنگین اثرات ہو سکتے ہیں۔ موسم اور ماحولیاتی صورتحال اور علاقے کی آب و ہوا بھی اس بات کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں کہ متاثرہ شخص کتنی دیر تک زندہ رہے گا۔ افسوس کہ ترکی میں موسمِ سرما کے باعث امکانات مزید کم ہو گئے ہیں لیکن ختم ہر گز نہیں۔ کوئی بھی بالغ شخص 21 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت میں اپنے جسم کی گرمی برقرار رکھنے کی سکت رکھتا ہے تاہم اگر سردی زیادہ ہو تو صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک پہلو جو عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ کسی شخص کی ذہنی صحت اور کنٹرول ہے۔ ماہرین کے مطابق اعصاب پر قابو رکھنا اور اپنے ذہن کو بچنے کے امکانات کی طرف ہی لگائے رکھنا بھی زندہ رہنے کیلئے اہم ہے۔ گو کہ خوف فطری طور پر سوار ہوتا ہے لیکن اس دوران گھبرانا نہیں چاہیے۔ ذہنی طور پر مضبوط رہنا اور قوتِ ارادی بہت اہم ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ آپ خوف کو خود پر طاری نہ ہونے دیں اور خود پر قابو کرنے کی کوشش کریں کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنا ہے۔ اس سے آپ کم چیخیں گے اور کم حرکت کریں گے۔ آپ اپنے اعصاب اور جھنجھلاہٹ پر قابو پا کر اپنی توانائی کو بچا سکتے ہیں۔ ان عوامل کے حق میں دلیل یہ ہے کہ 1995 میں جب جنوبی کوریا میں زلزلہ آیا تھا تو ایک شخص کو ملبے سے 10 دن بعد نکالا گیا تھا۔ اس شخص نے بارش کا پانی پی کر ایک گتے کا ڈبہ کھا کر گزارا کیا تھا۔ اس دوران اس نے ایک کھلونے سے کھیل کر اپنے ذہن کو متحرک رکھا۔ مئی 2013 میں ایک خاتون کو بنگلہ دیش میں ایک فیکٹری کے ملبے سے 17 روز بعد زندہ نکالا گیا تھا۔ اس نے اپنے ریسکیو کے بعد بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کئی روز تک امدادی کارکنان کی آوازیں سنتی رہی۔ میں ملبے کو ڈنڈوں سے مار کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتی رہی لیکن کسی کو میری آواز نہ آئی۔ میں سوکھا ہوا کھانا کھا کر 15 دن تک گزارا کرتی رہی۔ آخری دو دنوں میں میرے پاس صرف پانی تھا۔ جنوری 2010 میں ہیٹی میں زلزلے سے دو لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ایک شخص 12 روز تک ایک دکان کے ملبے تلے دبا رہا تھا۔ ایک اور شخص کو مبینہ طور پر 27 روز کے بعد ملبے سے نکالا گیا تھا۔ اکتوبر 2005 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آنے والے زلزلے کے دو ماہ بعد ایک 40 سالہ خاتون نقشہ بی بی کو ان کے کچن سے ریسکیو کیا گیا تھا۔ ان کے پٹھے بہت کمزور ہو چکے تھے اور وہ اتنی کمزور ہو چکی تھیں کہ بات بھی بہت مشکل سے کر پا رہی تھیں۔ تب ان کے کزن نے بتایا تھا کہ پہلے ہم سمجھے کہ وہ مر چکی ہیں لیکن جب ہم انہیں باہر نکال رہے تھے تو انہوں نے اچانک اپنی آنکھیں کھول دی تھیں۔ ترکی اور شام کے زلزلے میں ملبے تلے دبی زندگی بھی بہت اہم ہے دنیا بھر کے ریسکیو کرنے والے اداروں اور رضا کاروں کو امید اور کوشش کے ساتھ ہر اس جان کو بچانا ہے جس کے ملبے تلے سے نکالے جانے کی ذرہ برابر بھی امید باقی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button